ملتان کی خدیجہ توقیر: عزم و حوصلے کی زندہ مثال

جنوبی پنجاب میں جہاں خواتین کی تعلیم و تربیت کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی وہی ملتان کی خدیجہ توقیر ہمت اور حوصلے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں. جنہوں نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں بننے دیا بلکے ہمت اور لگن کے ساتھ نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکے اپنے جیسے کئی لوگوں کے لیے اندھیرے میں شمع جلائے ہوئے ہیں۔پاکستان کے علاقے جنوبی پنجاب، جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، وہاں خدیجہ توقیر کی کامیابی روشنی کی ایک کرن ہے. پاکستان میں معذوری کو بہت بڑا المیہ تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ذہنی معذوری کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، لیکن جسمانی معذوری کو ایک ناقابل عبور رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو حقیر نظروں سے دیکھنا ایک عام رویہ ہے اور یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ معذوری کے شکار افراد زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تاہم، ملتان کی خدیجہ توقیر نے ان فرسودہ خیالات کو غلط ثابت کر کے ایک مثال قائم کی ہے۔

خدیجہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بچپن ہی میں معذوری کا شکار ہوئیں، مگر ہم نے بیٹی کو بچپن سے آگے بڑھنے کا حوالہ دیا، اسکی معذوری کو کبھی کمزوری نہیں بتایا بلکے اس میں چھپی خصوصیات کو نکھارنے پہ توجہ دی ،جہاں سب نے کہا ایک معذور بچی کو کیسے سنبھالوں گی وہیں میں نے کہا یہ بچی تو ایک دن سب کا سر فخر سے بلند کرے گی ۔ خدیجہ کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم دلوائی اور اسلامیات اور ایجوکیشن میں ماسٹرز کروایا ۔ آج وہ نہ صرف معذور افراد کے لیے بلکے ان والدین کے لیے بھی مشعل راہ ہیں، جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔جبکہ خدیجہ نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں بننے نہیں دیا، بلکہ ہمت و استقامت کی بدولت اپنی کامیابیوں کا سفر جاری رکھا . وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر معذور افراد کے لیے ایک امید کی کرن بھی بنی ہوئی ہیں۔ خدیجہ لکھتی ہیں، پڑھاتی ہیں، سماجی خدمات انجام دیتی ہیں اور ایک متاثر کن مقرر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

اپنے بچپن کے ابتدائی دنوں کا ذکر کرتے ہوئے خدیجہ نے بتایا کہ ان کی زندگی مشکلات اور چیلنجز سے بھری ہوئی تھی۔ اسکول کے ابتدائی دنوں میں ان کا مختلف ہونا انھیں اکثر تنقید اور عدم قبولیت کا شکار بناتا تھا۔ ان کے لیے جسمانی تکالیف کے ساتھ ساتھ سماجی رویئے بھی بہت تکلیف دہ تھے۔ان کے استادوں اور ساتھیوں کے سخت رویئے ان کے لیے تکلیف دہ تھے، لیکن ان چیلنجز نے انھیں مضبوط بنایا .خدیجہ بتاتی ہیں کہ وہ اکثر خود کو دوسروں سے مختلف محسوس کرتی تھیں۔ ان کے بچپن کے تجربات نے انھیں یہ احساس دلایا کہ وہ دیگر بچوں کی طرح دوڑ نہیں سکتیں، کھیل نہیں سکتیں، اور عام زندگی نہیں گزار سکتیں۔ لیکن ان تمام احساسات نے انھیں مزید مضبوط بنایا اور زندگی کے حقیقی معانی سمجھنے میں مدد دی۔

خدیجہ کے مطابق، ان کی بیماری کی شدت نے ایک وقت کے لیے ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو روک دیا تھا، لیکن ایک دن جب ان کی بہن نے ان سے ایک سوال کیا اور وہ اس کا جواب دینے میں ناکام رہیں، تو انھیں شدید احساس ہوا کہ تعلیم ان کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ ان کے لیے ایک نیا آغاز بن گیا اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پوری لگن سے محنت کرنے لگیں۔تعلیم کے حوالے سے خدیجہ کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے نہ صرف ایک مقصد تھا بلکہ ایک مرہم بھی۔ کتابوں کی دنیا نے انھیں وہ سکون فراہم کیا جس کی وہ حقیقی زندگی میں اکثر محروم رہتی تھیں۔کتابوں کے ذریعے انھیں ایک منفرد سہارا ملا۔ مطالعہ ان کے لیے سکون کا باعث تھا اور زندگی کے مسائل سے وقتی طور پر چھٹکارا فراہم کرتا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ تعلیم وہ طاقت ہے جو انسان کو نہ صرف معاشرتی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے بلکہ اسے خودمختاری اور عزت نفس بھی عطا کرتی ہے. آج خدیجہ نہ صرف معذوری کے باوجود ایک کامیاب تعلیم یافتہ خاتون ہیں بلکہ وہ دوسروں کے لیے امید اور رہنمائی کا ذریعہ بھی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے تجربات دوسروں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔

معروف دانشور اور تربیت کار ڈاکٹر جاوید اقبال نے خدیجہ کی زندگی کی قربانیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہیل چیئر پر انحصار کے باوجود، خدیجہ کی زندگی محض بقا کی کہانی نہیں بلکہ مقصد اور عمیق بصیرت کی حامل ہے، جس میں انسان خود کو محدودیت سے بالاتر کر کے غیر معمولی کامیابی حاصل کرتا ہے :

معروف مصنف محمد فہیم عالم خدیجہ کی کامیاب زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اپنے خیالات کو بلند اور مثبت رکھیں تو پھر ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں،ہرناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔

خدیجہ کے نزدیک، تعلیم صرف ڈگریاں حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی شخصیت کو سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ وہ نوجوان لڑکیوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے معاشرتی دباؤ یا تنقید کی پروا نہ کریں۔ ان کے لیے خدیجہ ایک زندہ مثال ہیں کہ معذوری یا کسی بھی دوسری مشکل کے باوجود، انسان اپنی محنت اور عزم سے سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔

خدیجہ توقیر کی کہانی کا ایک اور اہم پہلو ان کا سماجی شعور اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ہے۔ وہ صرف اپنی کامیابی پر قناعت نہیں کرتیں بلکہ اپنی زندگی کے تجربات کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے اور ان کی رہنمائی کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ بطور موٹیویشنل اسپیکر، خدیجہ ان تمام لوگوں کے دلوں میں امید جگاتی ہیں جو مشکلات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں لوگوں کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ ہر مشکل کے پیچھے ایک سبق پوشیدہ ہوتا ہے، اور وہی سبق زندگی میں کامیابی کی کنجی بن سکتا ہے۔

خدیجہ کا ماننا ہے کہ معذوری کو صرف جسمانی حالت تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ معاشرے کے رویوں کو بھی ایک بڑی معذوری تصور کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ معذور افراد کو سب سے زیادہ تکلیف دوسروں کے سخت رویوں اور ہمدردی کے بجائے ترس کے جذبات سے پہنچتی ہے۔ خدیجہ چاہتی ہیں کہ معاشرہ معذور افراد کے ساتھ برابری کا سلوک کرے اور انھیں وہ مواقع فراہم کرے جو ان کے لیے ترقی کی راہیں کھول سکیں۔

خدیجہ توقیر جیسی شخصیات ہمارے معاشرے کے لیے روشنی کے مینار ہیں، جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ مشکلات اور معذوری کے باوجود، انسان اپنی منزل کو حاصل کر سکتا ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسی کہانی ہے جو ہر دل میں امید کا چراغ روشن کرتی ہے اور ہر انسان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ کوئی بھی خواب ناممکن نہیں۔

خدیجہ توقیر کی کہانی کا ایک اور پہلو، ان کی روحانی طاقت ہے، جسے وہ اپنی کامیابی کا اہم ذریعہ سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب زندگی میں مشکلات کا سامنا تھا اور راستے میں کوئی سہارا نظر نہیں آ رہا تھا، تب انھوں نے اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کیا۔ دعا اور عبادت نے ان کے دل کو سکون دیا اور انھیں وہ طاقت فراہم کی جس کی مدد سے وہ اپنی معذوری کو قبول کر سکیں اور اس کے ساتھ جینا سیکھ سکیں۔

خدیجہ توقیر چاہتی ہیں کہ پاکستان میں معذور افراد کے لیے ہر عمارت میں سہولتیں مہیا ہوں، اور ایسے خصوصی اسکولز قائم کیے جائیں جہاں یہ افراد اپنی زندگی کے بہتر مواقع تلاش کر سکیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے تمام نجی اور سرکاری ادارے معذور افراد کے لیے قابل رسائی ہوں اور ان کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے خصوصی اقدامات کریں۔

خدیجہ اپنی کہانی کے ذریعے نہ صرف معذور افراد کو بلکہ عام لوگوں کو بھی یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اگر آپ کے اندر خود پر اعتماد ہو، تو کوئی بھی آپ کو روک نہیں سکتا۔ وہ کہتی ہیں کہ زندگی میں مشکلات کا سامنا ہر کسی کو کرنا پڑتا ہے، لیکن ان کا سامنا کرنے کے لیے ہمت اور عزم ضروری ہے۔

سماجی کام کے حوالے سے خدیجہ کا کہنا ہے کہ انھیں دوسروں کی مدد کر کے اپنے اندر کی تکلیف کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ معاشرہ معذور افراد کو کمتر نہ سمجھے بلکہ انھیں وہ مواقع فراہم کرے جو ان کے لیے زندگی آسان بنا سکیں۔ خدیجہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ معذور افراد کے لیے سرکاری اور نجی اداروں میں خصوصی سہولیات اور پالیسیاں بنائی جائیں، تاکہ وہ بھی معاشرے کا فعال حصہ بن سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے