مفتی ولی الرحمان، جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) گلگت بلتستان کے موجودہ امیر، ایک باوقار اور علمی شخصیت ہیں۔ ان کا تعلق ضلع دیامر تھک سے ہے اور وہ 2005 میں جامعہ فاروقیہ کراچی سے درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد 2006 میں جے یو آئی میں شامل ہوئے۔ 15 ستمبر 2024 کو وہ جے یو آئی گلگت بلتستان کے صوبائی امیر منتخب ہوئے۔ اس سے قبل وہ نائب امیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
مرکزی سیکریٹریٹ کا افتتاح: ایک نئی شروعات
5 جنوری 2025 کو گلگت شہر میں جے یو آئی کا مرکزی سیکریٹریٹ کا افتتاح ایک اہم سنگ میل تھا، جس میں تمام اضلاع کے امراء، جنرل سیکریٹریز، اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ جے یو آئی گلگت بلتستان کی تمام مرکزی قیادت بشمول ممبر اسمبلی حاجی رحمت خالق، مولانا عطاء اللہ شہاب، قاری عبدالحکیم، مولانا عبدالرزاق، مولانا عنایت اللہ میر، منہاج الدین اور سینکڑوں علماء و کارکنان موجود تھے اور تمام مرکزی قیادت نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ مفتی ولی الرحمن نے راقم کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ ہم نے بھی بطور مبصر تمام صورتحال کا جائزہ لیا۔
افتتاحی تقریب کے موقع پر مفتی ولی الرحمان نے اپنے خطاب میں جے یو آئی کی سیاسی جدوجہد اور عوامی خدمت کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کارکنان کے جذبے کو سراہا اور مستقبل میں جماعت کے فعال کردار کی نوید سنائی۔
مفتی ولی الرحمان کے خطاب چند اہم نکات:
مفتی ولی الرحمان نے اپنے خطاب میں جے یو آئی کے بنیادی نظریات اور مقاصد کو اجاگر کیا:
١. کارکنان کے جوش و جذبے کی تعریف کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ "جے یو آئی آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔ سیاسی اخلاقیات کا مکمل لحاظ رکھا جائے گا۔ دلیل کی بنیاد پر حمایت اور مخالفت کی جائے گی۔”
٢. قائد ملت مولانا فضل الرحمان کے سیاسی بیانیہ کو گلگت بلتستان کے گوشے گوشے میں پہنچانے کا عزم ظاہر کیا۔ یہ بھی کہا کہ ” قائد ملت کی تضحیک و تنقید کرنے والے بھی آج ان کے در پر سیاسی بھیک مانگنے پہنچ جاتے ہیں اور ان سے سیاست سیکھتے ہیں۔بلاشبہ قائد محترم امام سیاست ہے۔”
٣. جمیعت علماء اسلام کو مسجد، مدرسہ اور پاکستان کی محافظ جماعت قرار دیا۔ اور سود کے خاتمہ اور مدارس بل کو جے یو آئی اور قائد جمیعت کی بصیرت اور شاندار کامیابی قرار دیا۔
٤. آئندہ انتخابات میں عوام سے جے یو آئی کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔
٥. انہوں نے کہا کہ ” جس طرح علماء نے دینی علوم میں مایوس نہیں کیا، جے یو آئی بھی سیاسی میدان میں مایوس نہیں کرے گی۔ ملکی سطح پر جماعت کی تاریخ اس کا بین ثبوت ہے۔” انہوں نے جے یو آئی کو دینی اور سیاسی افکار کی آمین جماعت قرار دیا۔
٦. جماعت کا مشن عوام کے حقوق کا تحفظ اور عوامی خدمت ہے۔
٧.” جے یو آئی کا ٹکٹ جسے بھی ملے، وہ عوام کے دینی اور سماجی حقوق کا تحفظ کرے گا۔ ٹکٹ دینے میں بھی پوری دیانت اور الیکشن اور سیاست کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے گا۔”
٨. "جے یو آئی عوام کی آواز بنے گی اور ان کے مسائل کو اجاگر کرے گی۔ اور ہر فورم پر کرے گی۔”
٩. جے یو آئی کا پیغام ہر گھر تک پہنچانے کا عزم دہرایا۔ اور کہا” نوجوانوں سمیت ہر فرد کی نظریاتی تربیت کے پروگرامز منعقد کیے جائیں گے۔”
١٠. انہوں نے کہا کہ” جس نظریہ پر پاکستان وجود میں آیا، اسی نظریہ کے مطابق شہری حقوق کا تحفظ جے یو آئی کا منشور ہے۔ جے یو آئی نظریاتی محافظ ہے۔”
١١. "ائندہ الیکشن میں بھرپور تیاری کیساتھ میدان میں بہترین امیدوار اتارے جائیں گے اور پوری تیاری کیساتھ الیکشن لڑا جائے گا۔”
مستقبل کے لیے لائحہ عمل
مرکزی سیکریٹریٹ کی افتتاحی تقریب کے اختتام کے بعد جے یو آئی کے امیر مفتی ولی الرحمن، جنرل سیکرٹری بشیر احمد قریشی، ممبر اسمبلی حاجی رحمت خالق، امیر ضلع گلگت منہاج الدین اور دیگر قیادت کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ میرے تلخ و شیریں سوالات کا، خندہ پیشانی اور جذبات بھرے انداز میں دیا۔ اس نشست میں ہونے والی گفتگو اور مکالمے کی روشنی میں جے یو آئی گلگت بلتستان کو ایک مؤثر اور متحرک مذہبی سیاسی جماعت بنانے کے لیے درج ذیل اہم اقدامات تجویز کیے جا سکتے ہیں جو اس جماعت کو مزید فعال بنا سکتے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے ان امور و اقدامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی گئی تو بعید نے ہے کہ جے یو آئی گلگت بلتستان اسمبلی کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت بن جائے گی۔
١. عوامی مسائل کی نشاندہی اور حل:
تعلیم، صحت، بنیادی سہولیات، اور روزگار کے مواقع پر توجہ مرکوز کر کے گراس روٹ سطح پر مسائل کے حل کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے۔
٢. نوجوانوں کو متحرک کرنا:
نوجوانوں کو جماعت کے سیاسی عمل میں شامل کرنے کے لیے تربیتی پروگرامز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے۔ نوجوانوں کو متحرک کیے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا، آج ان کی تربیت اور انہیں تحریک نہ ملے تو کل کی سیاسی قیادت کا پیدا ہونا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
٣. خواتین کی شمولیت:
خواتین کو جماعت میں فعال کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور خواتین ونگ کی تشکیل کی جائے۔ اس کے لیے گہری سنجیدگی سے تعلیمی اداروں سمیت عوامی سطح پر بھی حکمت عملی تشکیل دینا ضروری ہے۔
٤. تعلیمی اداروں میں اثر و رسوخ:
مدارس،کالجز، یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں جماعت کے نظریات کو فروغ دینے کے لیے مہمات چلائی جائیں۔طلبہ و اساتذہ سمیت دیگر ذمہ داران سے ہمہ وقت رابطہ رہنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
٥. جدید میڈیا کا استعمال:
سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا مؤثر استعمال کیا جائے تاکہ جماعت کا پیغام وسیع پیمانے پر پہنچایا جا سکے۔ صحافیوں سے بہترین تعلقات قائم کیے جائیں۔ اور ان کی خدمات سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔
٦. مقامی ثقافت اور مقدسات کا احترام:
جماعت کی مہمات میں مقامی ثقافت، زبان، اور روایات کا احترام کیا جائے۔ دیگر مسالک کے مقدسات کا احترام اور ان سے گہرے تعلقات بھی بہت اہم ہیں۔
٧. خدماتی اور رفاہی منصوبے:
سماجی خدمت کے منصوبے جیسے فری میڈیکل کیمپس اور تعلیمی سپورٹ کا اہتمام کیا جائے۔ یتیموں کے لئے خصوصی خدمات بھی جماعت کی مستقل سرگرمی ہونی چاہیے۔ ملک بھر میں سماجی اور رفاہی خدمات انجام دینے والی این جی اوز اور حکومت گلگت بلتستان سے اشتراک و معاونت کے ذریعے گلگت بلتستان میں رفاہی و خدماتی منصوبوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔
٨. بین الجماعتی سیاسی ہم آہنگی:
گلگت بلتستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ تعاون کے ذریعے علاقائی ترقی کے منصوبوں پر کام کیا جائے۔ اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہو وہاں اصلاح اور بہتری کے لئے شاندار کوشش کی جائے ۔ اور سیاسی امور میں بھی اشتراک عمل کی کوشش کی جائے ۔ اور ان جماعتوں کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی جاسکتی ہے۔
٩. انتخابی حکمت عملی:
منظم انتخابی حکمت عملی تیار کی جائے جس میں ووٹرز کے رجحانات اور انتخابی حلقوں کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ پارلیمانی سیاست کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے اور انہیں نہ دھرانا بھی بہت اہم ہے ۔
١٠. فکری و نظریاتی تربیت:
نوجوان طلبہ و طالبات اور کارکنان کی فکری و نظریاتی تربیت کے لیے تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔ اور اس کام کو جتنا جلد ہوسکے شروع کیا جائے ۔
١١. قبائلی و علاقائی تعصب سے گریز:
قبائلی اور علاقائی تعصبات سے بچتے ہوئے یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ جماعت میں تمام قبائل کے لوگوں کو شامل کیے جائیں اور انہیں مرکزی عہدوں میں بھی جگہ دی جائے ۔ جماعت کو چند لوگوں یا قبائل کی لونڈی بنانے سے کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔
١٢. تنقید برداشت کرنا:
جے یو آئی پارلیمانی سیاسی جماعت ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ یہاں کوئی امیرالمومنین نہیں۔ ہر پانچ سال بعد امارت بھی بدل جاتی ہے۔ اکثر صوبائی امراء تبدیل ہوتے ہیں۔ لہذا قیادت کو جمہوری انداز میں تنقید کا سامنا کرنا چاہیے۔ سیاست میں جماعت کے اندر سے اور باہر سے بھی سخت تنقید ہوگی، اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے اور اس کو اپنی اصلاح کے طور پر لیا جائے نہ کہ مخالفت ۔
١٣. اہل علم و دانش سے رابطہ :
یہ بھی بہت اہم ہے کہ گلگت بلتستان کے نامور اہل علم و دانش، قلم کار، ادیب اور کالم نگاروں سے روابط استوار کیے جائیں، انہیں اپنے منشور، بیانیہ سے مطلع کرتے رہیں اور ان کی تنقید کو سنجیدگی سے لیا جائے اور پھر اس پر اپنے پروگرام کو بہتر بھی کریں۔
١٤. انٹلیکچول فورم کا قیام:
ایک انتہائی اہم کا یہ ہے کہ جے یو آئی گلگت بلتستان، میں ایک انٹلیکچول فورم کا قیام عمل میں لایا جائے، جس میں نظریاتی طور نامور علماء اور قلم کاروں کو شامل کرکے انہیں، فکری و نظری کمک پہنچانے کی ذمہ داری دی جائے تاکہ نئی نسل کو فکر سلیم حاصل ہو۔
١٥. ماضی کی غلطیوں سے اجتناب:
ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے امیدواروں اور انتخابات کے عمل کو بہتر بنایا جائے۔ اور لوگوں کو جماعت سے خروج کے بجائے شمولیت پر فوکس کیا جائے ۔
ہماری دانست میں جے یو آئی گلگت بلتستان کی کامیابی کے لیے یہ اقدامات نہایت اہم ہیں۔ جماعت کی مرکزی و ضلعی قیادت کو چاہیے کہ وہ ان نکات پر عمل پیرا ہو کر عوام کے دل جیتے اور ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔