بین المذاہب ہم آہنگی سے مراد مختلف مذاہب کے لوگوں کا آپس میں رواداری کے ساتھ رہنے کا نام ہے۔ رواداری بھائی چارے کا دوسرا نام ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کا تاریخی پس منظر کہاں سے شروع ہوتا ہے؟
تو کہا جاتا ہے، کہ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے 30 ستمبر 2010 یو، این کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کی، کہ بین الاقوامی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک دن منایا جائے، جسے اکتوبر 2010 کو یو این سے منظور کرایا گیا،اور ہر سال فروری کے پہلے ہفتے کو بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ منانے کا عندیہ دے دیا گیا۔
بین المذاہب ہم آہنگی کا بنیادی فلسفہ "جیو اور جینے دو” کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔
جیسے ہم روز سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں، کہ فلاں جگہ میں طاقت اور پریشر کی بنیاد پر مذہب تبدیل کیا گیا۔ اسطرح کے واقعات اخباروں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہیں۔ اور بتایا جاتا ہے، کہ بندے کی مرضی کے بغیر مذہب تبدیل کیا گیا۔ اس طرح مختلف فرقوں کے درمیان جنگ و جدل کو دکھایا جاتا ہے۔ جس میں ایک گروہ کہتا ہے، کہ میرا عقیدہ بہتر ہے، اور دوسرے کا ٹھیک نہیں۔ اس طرح کے واقعات روز ہماری خبروں کی شہ سرخیاں اور زینت بنی ہوئی ہوتی رہتی ہے۔
اگر سوچا جائے، کہ اس طرح کے واقعات میں عوام کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟ تو پتہ لگتا ہے، کہ کچھ بھی فایدا نہیں ہوتا۔ بلکہ منقول گروہوں کے لیڈرز ان چیزوں کو اپنے ووٹ بینک اور دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کیونکہ دنیا کا ایک بھی مذہب ایسا نہیں، جو انسانوں کو آپس میں لڑائے، یا خونریزی کریں۔ ہر مذہب بھائی چارے اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ پھر ان کے پیروکار جو کہ اپنے پرسنل مقاصد ہوتے ہیں۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دعوی کرتے ہیں، کہ یہ تو ہم مذہب کی خدمت کرتے ہیں۔
کیونکہ اگر دیکھا جائے۔ کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کیا۔ تو عام معافی کا اعلان کیا۔ حالانکہ مکہ والوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ اذیتیں اور تکلیفیں دی تھی۔ لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے، اسلامی نظام میں جنگ و جدل اور خونریزی کا نہ ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کے علاوہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں مدینہ کی ریاست کی بنیاد رکھی۔
تو ہر مذہب، اور ہر عقیدے کو پوری پوری آزادی دی۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا۔ کہ اے مسلمانو!!! دو سروں کے جھوٹے خداؤں کو گالیاں مت دو، کیونکہ وہ بدلے میں آپ کے سچے خدا کو گالیاں دے دیں گے۔ ان واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کبھی بھی دوسرے مذاہب کا مذاق اور دوسرے مذاہب کو برا بھلا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ جو انسان اپنے آپ کو مذہب کے ٹھیکیدار کہتے ہیں۔ وہی اپنی ذاتی عناد، ذاتی غرض اور ذاتی کامیابی کے لیے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے، تو ہر معاشرے میں مختلف سوچ، مختلف فکر، مختلف مذاہب، مختلف کلچر اور مختلف زبانوں کے لوگ رہتے ہیں۔ اب یہ یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔کہ کیسے مختلف نوعیت کے لوگ آپس میں رہیں گے۔ تو اس کا سادہ اور آسان جواب یہ ہے۔ کہ اگر ہر ایک بندہ دوسرے کے نظریے کو برا بھلا نہ کہے۔عقیدوں اور نظریات سے بالاتر انسانیت کا سوچیں۔ کہ ہم سب انسان ہیں۔ اور سب انسان ہونے کے ناطے ہم برابر ہے۔ہم میں کوئی بڑا، یاکوئی چھوٹا نہیں۔ اس لیے ہم نے ایک معاشرے میں رواداری کے نظریئے کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ تو بہت ممکن ہے، کہ معاشرے میں بہت حد تک سدھار اور بہتری آئے۔