بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے جامع منصوبہ بندی کا مطالبہ

اسلام آباد، اتوار، 16 مارچ 2025: بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے جامع منصوبہ بندی (چائلڈ پروٹیکشن پریونشن فریم ورک CPPF) کی تیاری کے لیے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہوا، جس کا اہتمام سیو دی چلڈرن اور یونیسیف نے مشترکہ طور پر کیا۔ اس مشاورت میں نمایاں سول سوسائٹی تنظیموں، نادرا، قانونی برادری، اور سروس ڈیلیوری اداروں کے نمائندے شریک ہوئے، جنہوں نے بچوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

اجلاس کی شروعات میں سیو دی چلڈرن کے ریجنل ایڈوائزر ڈیوڈ بلومر اور بچوں کے حقوق کی ماہر ربعیہ ہادی نے بچوں کے تحفظ سے متعلق حالات اور موجودہ قوانین سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر یوسف شاہ نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے مشاورت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ بتایا گیا کہ یہ اجلاس ملک بھر میں منعقد کی جانے والی مشاورتی نشستوں کی ایک کڑی ہے، جو چائلڈ پروٹیکشن پریونشن فریم ورک کو حتمی شکل دینے سے قبل منعقد کی جائیں گی۔

اجلاس کے دوران مشاورتی ماہرین نے بچوں کے تحفظ کی موجودہ صورتحال اور دستیاب تحفظاتی نظام کا جائزہ پیش کیا۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 3.3 ملین سے زائد بچے مزدوری میں مصروف ہیں، جن میں سے اکثر خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ بچپن کی شادی کو بھی ایک سنگین مسئلہ قرار دیا گیا، جہاں 18% لڑکیاں 18 سال سے کم عمر میں اور 4% لڑکیاں 15 سال سے پہلے شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔ بتایا گیا کے بچوں کو دی جانے والی جسمانی اور نفسیاتی سزا بھی ایک عام مسئلہ ہے، اور 2014 کے ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے (MICS) کے مطابق، پنجاب، سندھ اور گلگت بلتستان میں 80% سے زائد بچے تشدد پر مبنی تربیت کا سامنا کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کمزور ہے اور ملک بھر میں یکساں روک تھام کے طریقہ کار کی کمی ہے۔موجودہ ردعمل عام طور پر متاثرہ بچوں کی مدد پر مرکوز ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ تشدد کی روک تھام کے اقدامات کیے جائیں۔

ماہرین نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن پریونشن فریم ورک (CPPF) ان خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی فراہم کرے گا، جو تین درجوں پر مشتمل ہوگا۔ پہلا درجے میں کمیونٹی کی سطح پر بنیادی روک تھام کے اقدامات کئے جائیں گے، دوسرا درجہ میں خطرے سے دوچار بچوں کے لیے مخصوص مداخلت کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا جبکہ تیسرا درجے میں طویل مدتی بحالی اور دوبارہ رونما ہونے سے روک تھام کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ فریم ورک کلیدی کارکردگی کے اشاریے (KPIs) اور ایک مانیٹرنگ نظام بھی متعارف کرائے گا، تاکہ بچوں کے تحفظ کی کوششوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ مزید برآں، یہ فریم ورک صوبائی اور علاقائی حکومتوں کے ذریعے طویل مدتی پالیسیوں میں ضم کیا جائے گا تاکہ اس کا علاقائی سیاق و سباق کے مطابق نفاذ ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ، سرکاری اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سماجی بہبود کے محکموں اور سول سوسائٹی کے درمیان بہتر تعاون کو فروغ دینے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی، تاکہ پورے ملک میں بچوں کے تحفظ کی روک تھام کے اقدامات کو یکساں بنایا جا سکے۔

اجلاس کے دوران شرکاء نے جبری مشقت، کم عمری کی شادی، اور بچوں کو دی جانے والی جسمانی و نفسیاتی سزا جیسے خطرات کے بارے میں اپنی رائے دی۔ تبادلہ خیال کا بنیادی مقصد ایسے مؤثر روک تھام کے اقدامات کو مضبوط بنانا تھا، جو بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی لاسکیں اور مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دے کر بچوں کے تحفظ کے طریقہ کار کو مزید فعال بنایا جا سکے۔

شرکاء نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بچوں کے تحفظ سے متعلق تمام مسائل کو غربت، تعلیم کی کمی، کمزور مانیٹرنگ نظام، غیر مؤثر قانونی نفاذ، اور بنیادی سہولیات تک محدود رسائی مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کو جبری مشقت اور کم عمری کی شادی سے بچانے کے لیے مضبوط اقدامات کیے جائیں اور ان کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے