سوشل میڈیا نے کیسے ہمیں بُری طرح ایکسپوز کیا ؟

سوشل میڈیا نے کیسے ہمیں بُری طرح ایکسپوز کیا ؟

سوشل میڈیا نے ہمیں ایک زبردست پلیٹ فارم فراہم کیا، جہاں ہم اپنے خیالات، جذبات اور تجربات کو بغیر کسی رکاوٹ کے دنیا کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں۔ یہ اظہار کا ایک ایسا ذریعہ ہے، جس نے کئی روایتی بندھن توڑ دیے ہیں۔ اب کسی بات کو کہنے کے لیے نہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے، نہ ایڈیٹر کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ یہ ایک نئی آزادی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس آزادی کے استعمال کا ہنر نہیں سیکھ پائے۔

ہم نے اپنی کیفیات، جذبات اور ذاتی زندگی کے پہلو سوشل میڈیا کے حوالے کر دیے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے کے بجائے اسے بکھیر دیا۔ ہمیں کوئی معلومات ملیں تو بغیر تصدیق کے، فوراً ردِ عمل دے دیا۔ چاہے وہ ردِ عمل مثبت ہو یا منفی، ہم جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کرتے گئے۔ بعد میں جب حقیقت سامنے آئی تو ہمارے موقف اور رویے نے ہماری ساکھ کو مجروح کیا، اور ہماری شخصیت کا وقار کمزور ہوا۔

یہی نہیں، سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے میں الجھ کر ہم نے اپنا قیمتی وقت اور ذہنی سکون برباد کیا۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو انا کا مسئلہ بنا لیا۔ کسی کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے عزت نفس کو پس پشت ڈال دیا۔ گویا سوشل میڈیا ایک میدانِ جنگ بن گیا، جہاں جیتنے کی خواہش میں ہم ہار گئے۔

لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جو شاید اس سے زیادہ خطرناک ہے۔

سوشل میڈیا نے نہ صرف سنجیدہ اور معقول شخصیات کو جذباتی ردِ عمل کا شکار بنا کر مجروح کیا، بلکہ ایسے لوگوں کو بھی موقع دیا، جو پہلے سے دھوکہ دہی، جعل سازی اور سماجی فراڈ میں مشہور تھے۔

یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی شخصیت کو اس قدر باوقار اور پرکشش بنا کر پیش کرتے رہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے، لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے۔

ان فراڈیوں نے اپنے مفادات کے لیے معصوم لوگوں کا اعتماد حاصل کیا، انہیں استعمال کیا، اور کئی مرتبہ مالی، جذباتی اور سماجی نقصان پہنچایا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سوشل میڈیا کی “ورچوئل انگیجمنٹ” اور “ریئل انگیجمنٹ” کا فرق سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

صرف سکرین پر ہونے والی بات چیت، لائکس، کمنٹس اور میسجز حقیقی تعلقات کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ ان کے نتیجے میں بننے والے رشتے اکثر دھوکہ اور فریب کا شکار ہو جاتے ہیں۔مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ جیسے جرائم کو بھی فروغ دے رہا ہے۔لوگ دوسروں کی نجی تصاویر اور معلومات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، انہیں دھمکیاں دیتے ہیں، اور مالی یا جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ موبائل فراڈ، اکاؤنٹس ہیکنگ، جعلی شناخت کے ذریعے دھوکہ دہی اب عام ہو چکی ہے۔ایسے کئی واقعات ہمارے اردگرد رونما ہو رہے ہیں، جہاں لوگ صرف اس لیے شکار بنے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے رابطے کو حقیقی تعلق سمجھ لیا۔

سوشل میڈیا کے ان خطرناک پہلوؤں کو جاننا اور سمجھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ پلیٹ فارم بذاتِ خود برا نہیں، بلکہ اس کا غلط استعمال مسائل پیدا کرتا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں کو سنوارنا ہوگا اور سوشل میڈیا کے استعمال میں سنجیدگی، تحقیق اور صبر کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔

کچھ بنیادی اصول جنہیں ہم سب کو اپنانا چاہیے:

1. تصدیق کے بغیر کوئی معلومات نہ شیئر کریں۔

2. کسی کی حمایت یا مخالفت میں بولنے سے پہلے خوب سوچیں۔

3. فوری ردِ عمل دینے سے پرہیز کریں، خود کو وقت دیں۔

4. ریئل اور ورچوئل تعلقات میں فرق سمجھیں، ہر تعلق کو آزمانے میں جلدی نہ کریں۔

5. اپنی ذاتی معلومات اور تصاویر کو محفوظ رکھیں، کسی پر بلاوجہ اعتماد نہ کریں۔

6. سوشل میڈیا کو مقصد بنائیں، مصروفیت نہیں۔

ہم میں سے ہر شخص کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں، یا سوشل میڈیا ہمیں استعمال کر رہا ہے؟

ہمارے محترم استاد شاہد انور صاحب کے ہمراہ واک کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے سوشل میڈیا کے منفی رحجان کی نشاہدہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوشل میڈیا نے ہمارے سماجی اور تعلیمی سٹرکچر کو کئی زاویوں سے متاثر کیا ہے .

ایک طویل عرصہ سوشل میڈٍیا استعمال کرنے کے بعد میں بذات خود اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ

سوشل میڈیا نے کتاب اور مطالعے کا کلچر تباہ کر دیا ہے، سوچنے کا عمل محدود کر دیا ہے، اور گفتگو کا حسن ختم کر دیا ہے. یہ حقیقت ہےکہ جب ہم حقیقی گفتگو چھوڑ کر اسکرین پر گم ہو جاتے ہیں تو ہمارے اندر کا انسان آہستہ آہستہ مرنے لگتا ہے۔

میری درخواست ہے کہ خود پر یہ تجربہ کیجیے۔ چند دن سوشل میڈیا سے دور ہو کر دیکھیں۔
ایپس ان انسٹال کر دیں۔
کتابیں پڑھیں،غور کریں ، خاموش رہیں اور سوچیں ، دوستوں کے ساتھ چہل قدمی کریں، گفتگو کریں.
آپ دیکھیں گے کہ زندگی کتنی خوشگوار ہے۔
یاد رکھیے، سب سے قیمتی شے آپ کی ذہنی صحت ہے۔
جب دماغ پرسکون ہوگا تو جسم بھی صحت مند رہے گا۔
سوشل میڈیا کو اپنا غلام بنائیں، خود اس کے غلام مت بنیں۔
یہی توازن آپ کو کامیاب، پُرسکون اور خوش باش انسان بنا سکتا ہے۔

اس موضوع پر میں مزید بھی کچھ پیش کروں گا ، فی الحال اتنا ہی ….

………………………………………………………….
سبوخ سید 

سبوخ سید پاکستان کے معروف صحافی، تجزیہ کار اور میڈیا ماہر ہیں۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف معتبر اداروں کے لیے صحافت کر رہے ہیں۔ سبوخ سید کو پاکستان میں دہشتگردی، انسدادِ انتہا پسندی (Counter Violent Extremism)، سکیورٹی ایشوز، مذہبی سیاست، مذہبی جماعتیں، اور مدرسہ اصلاحات جیسے حساس موضوعات پر تحقیق، تجزیہ اور رپورٹنگ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔وہ روزنامہ جنگ ، دی نیوز اور اردو پوائنٹ کے لیے کالم بھی لکھتے رہے . آج کل آئی بی سی اردو او ر انگریزی کے لیے باقاعدگی کے ساتھ کالم لکھتے ہیں .

انہوں نے تقریباً بارہ برس جیو نیوز جیسے بڑے میڈیا ہاؤس کے ساتھ بطور رپورٹر ، اینکر اور تجزیہ کار کام کیا۔ اس وقت وہ پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر “ابتداء سبوخ سید” کے نام سے ایک اہم سماجی موضوعات پر مبنی پروگرام کی میزبانی کر رہے ہیں، جس میں معاشرتی اصلاح اور اقدار کی بحالی پر بات کی جاتی ہے۔انہیں پاکستان کی بڑی جامعات میں نوجوانوں کے ساتھ انٹریکشن کے لیے خصوصی طور پر دعوت دی جاتی ہے .

سبوخ سید اس وقت ڈیجیٹل میڈیا الائنس آف پاکستان کے صدر بھی ہیں، جس کے تحت پاکستان کے آزاد اور خودمختار نیوز ویب پورٹلز کا نیٹ ورک قائم ہے، جو خبروں اور حالاتِ حاضرہ پر معیاری اور غیرجانبدار مواد فراہم کرتے ہیں۔

سبوخ سید تعلیم و تدریس کے شعبے میں بھی وہ سرگرم ہیں۔ اس وقت شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی میں بطور لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جہاں وہ میڈیا سائیکالوجی اور ڈیزائن فار سوشل چینج جیسے موضوعات پڑھا رہے ہیں۔بیس سال سے زیادہ کے تجربے کے ساتھ، سبوخ سید پاکستان میں تحقیقی صحافت، میڈیا تھنکنگ اور سوشل چینج کے لیے ایک معتبر نام ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے