فیشن شو اورناچ گانے کی اجازت، تبلیغ پر پابندی

فروری 2014 میں لکھے گئے ایک کالم ’’طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کیے؟؟؟‘‘ میں میری یہ رائے تھی کہ اسلام کے نام پر شدت پسندی اور دہشتگردی کرنے والو ں نے دراصل پاکستان میں سیکولرازم اور لبرل ازم کے ایجنڈے کو مضبوط کیا۔ آج تقریباً دو سال کے بعد جو میں نے کہا تھا وہ اتنا واضح ہو چکا کہ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی پاکستان کا نام لینے والوں کے لیے یہاں کوئی جگہ ہی نہیں۔ حالات اس حد تک بدتر ہو چکے کہ ن لیگ کی پنجاب حکومت نے تبلیغی جماعت تک کو یونیورسٹیوں، کالجوں کی حدود میں تبلیغ کرنے سے روک دیا ہے۔ یعنی کالجوں یونیورسٹیوں میں فیشن شوز، کیٹ واکس، گانے بجانے پر تو کوئی پابندی نہیں بلکہ کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور اب تو غیر اسلامی رسومات منانے کے لیے سرکاری طور پر حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے جس میں وزیر اعظم صاحب پیش پیش ہیں لیکن تبلیغی جماعت جیسی غیر سیاسی، پرامن تنظیم جو امریکا سمیت پوری دنیا میں اسلام کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے وہ اب صوبہ پنجاب کی جامعیات میں نوجوانوں کو نماز،روزہ ، حج، ذکوۃ اور ایمان جیسی اسلامی بنیادوں کے متعلق تعلیم نہیں دے سکتی۔ دہشتگردی اور شدت پسندی کا کیا خوب مقابلہ کیا جا رہا ہے۔

یہ وہ صورتحال ہے جس کی تمنا سیکولر اور لبرل شدت پسند بڑے عرصہ سے کر رہے تھے لیکن اس سے پہلے کامیاب نہ ہوئے۔ لیکن اب تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں نے اپنی دہشتگرد کارروائیوں سے بائیں بازو کے شدت پسندوں کے ہاتھ اتنے مضبوط کر دیئے کہ اسلام کی تبلیغ کا کام اسلام ہی کے نام پر قائم کیے جانے والی ریاست پاکستان میں مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو سیاستدانوں میں بھی چوہدری نثار علی خان جیسے اسلام پسندوں کے خلاف گھیرہ تنگ کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا میں موجود لبرل شدت پسند وں کا ایک طبقہ چوہدری نثار کے خلاف دل میں بغض محض اس لیے رکھے ہوئے ہے کیوں کہ وہ نہ شراب پیتا ہے نہ پلاتا ہے، نماز روزہ کا پابند ہے اور سینا تان کر اسلام کا دفاع کرتا ہے، کرپشن نہ خود کرتا ہے نہ دوسروں کو کرنے دیتا ہے۔

خورشید شاہ اور چوہدری نثار کی لڑائی میں کچھ لبرل شدت پسندوں نے جھوٹ پر جھوٹ بول کر چوہدری نثار کو ٹارگٹ کرنے کی اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اب تو مغرب کی پسند کے’’سیکولر اسلام‘‘ کی تعلیم دینے والے مخصوص ـ’’سیکولر اسلامی اسکالرز‘‘ کے دلائل کو اسلامی تعلیمات کے برخلاف سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ایک مسلم امہ، اسلامی ریاست و حکومت، خلافت اور اسلام کے سیاسی فلسفہ کی ہی نفی کر دی جائے اور اسے دہشتگرد سوچ سے جوڑ دیا جائے۔

امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے امریکی حکومت کے لیے کچھ عرصہ قبل ایک حکمت عملی تیار کی جس کا مقصد دنیا بھر میںامریکا کے من پسند ’’Moderate Muslims‘‘کا ایک ایسا نیٹ ورک تیار کرنا تھا جو اسلامی ممالک میں امریکی حکومت کے Policy Objectives کے حصول میں مددگار ہو۔ انٹرنیٹ پر رینڈ کارپوریشن کی اس حکمت عملی کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ بات سمجھ میں خوب آتی ہے کہ داعش و طالبان کی شدت پسندی اور ’’Moderate Muslims‘‘ کی روشن خیالی کس طرح ایک ایسے اسلام کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں جس کا مقصد امریکی ایجنڈے کو ہی آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے اسلام کو ریاست اور حکومت سے جدا کرنے کے سیکولر اور لبرل فلسفہ کی بات خوب زور و شور سے کی جا رہی ہے، ایک مسلم امہ کے اسلامی فلسفہ کی نفی اور جہاد کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ روشن خیالی، ترقی اور جدت پسندی کے نام پر اسلامی شعائر اور تعلیمات کو رد کر کے مغربی تہذیب کو مسلمانوں پر مسلط کیا جا رہا ہے اور جو کوئی اس کی مخالفت کرے اُسے دقیانوسی، شدت پسندی وغیرہ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔کوئی اسلامی نظام کی بات کرے تو گِدوں کی طرح اُسے نوچ کھانے کے لیے دوڑنے والے روشن خیال (Moderate Muslims) ایک دم یہ بات کرتے ہیں ’’کون سا اسلام‘‘ اور پھر خود ہی جواب دیتے ہیں ’’گلے کاٹنے والا اسلام‘‘، ’’طالبان کا اسلام‘‘یا ’’داعش کی خلافت‘‘…..

۔ جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا تحریک طالبان پاکستان اور داعش کی کارروائیوں نے پاکستان میں لبرل شدت پسندوں کو اتنا مضبوط کر دیا کہ اب وہ سرعام پاکستان کے اسلامی تشخص کے خاتمہ کی بات کرتے ہیںاور اسلام کا نام لینے والوں کامذاق اڑاتے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اطراف کے شدت پسند گروہ ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے