سپہ سالار کا ورثہ

اس قوم پر بڑے بڑے پھنے خانوں نے حکومت کی۔کبھی سیاست دانوں نے اپنی چکنی چپڑی تقریروں سے ورغلایا تو کبھی جری بہادر جرنیلوں نے سینے پر سجے تمغات کی جھنکار میں بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا۔ان حکمرانوں نے اپنا وقت تو اچھا گزار لیا اور تاریخ کے اوراق بھی اپنے حق میں کالے کرا لیے مگر کسی نے بھی ورثے میں ایسا نظام اور ایسی روایات نہیں چھوڑیں کہ جس پر قوم متفق ہو جاتی۔فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی وجاہت اور ڈنڈے کے سہارے لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا مگر پھر ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی بنیاد بھی رکھ دی۔ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آئین دیا اور اپنی جان بھی دی مگر اپنے روحانی باپ کی سیاسی غلط کاریوں کا احتساب نہ کر کے اپنے سیاسی سوتیلوں کو عوامی اقتدار میں شراکت دار بننے کی راہ ہموار کی۔

پھر آمد ہوئی مرد مومن اور مرد حق کی جس پر یہ قوم گیارہ سال فدا ہوتی رہی مگر اس نے بھی اپنے ورثے میں ایسا نظام چھوڑا کہ جس میں تمغہ جمہوریت سینے پر سجائے اسکے گدی نشین نے کھلم کھلا جمہوری انتخابی عمل میں خرید و فروخت کا کام ضرب مومن سمجھ کر جاری رکھا۔ پھر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے جو فوج کی موٹر سائیکل پر اقتدار کی ڈبل سواری کیلئے باریاں لیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب یہ سیاست دان نئی روایات اور نیا نظام لا سکتے تھے۔ مگر ایسا ہو ا نہیں۔ یہ دونوں اپنے اپنے سیاسی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور کسی نے یہ نہ سوچا کہ وہ آنے والی نسلوں کیلئے کونسا نظام چھوڑ کر جائینگے۔ پھر وہی ہو ا جو ہوتا آیا ہے ڈبل سواری کے مزے لیتے لیتے سیاسی قیادت ایک بار پھر فوجی ٹرک تھلے آگئی۔ وجہ یہ تھی کہ نواز شریف صاحب نے فوجی موٹر سائیکل کی فرنٹ سیٹ سنبھالنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئے۔

پھر آئے جنرل مشرف جنہوں نے عوام کے بیچ جمہوریت کی ایک نئی شب دیگ چڑھا کر رکھ دی مگر اپنی تمام تر طاقت اور کمانڈو دائو پیچ کے باوجود اپنے خود ساختہ دشمن دہشت گردی اور کرپشن کو چت نہ کر سکے۔ غرض یہ کہ 36سال فوج اور باقی عرصہ نیم فوجی و سیاسی حکومتوں کے اقتدار کے باوجود آج عوام ہر نئے وزیراعظم اور نئے آرمی چیف سے نئے نظام یعنی تبدیلی کی خیرات طلب کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیا ء الحق اور جنرل مشرف طویل فوجی اقتدار کے باوجود دہشت گردی اور کرپشن کا خاتمہ نہیں کر سکے تو ایک بظاہر جمہوری نظام کے ماتحت 3سال کیلئے آنیوالے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اتنی توقعات لگانا کتنا مناسب ہو گا۔ اور وہ بھی ایک ایسی صورتحال میں کہ جب ایک سپہ سالار کو اپنے ادارے کے اندر بھی بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہو۔

بدقسمتی سے فوج کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی کردار نے ایک متوازی حکومت کا تاثر پیدا کر دیا ہے ۔ نہ صرف خارجہ اور دفاع کی پالیسیاں مال روڈ پر بنتی ہیں بلکہ اب تو فوج کی اپنی معیشت بھی شاہراہ دستور پر بننے والے قومی بجٹ، یعنی آمدنی و اخراجات کے تخمینے کا مکمل حصہ نہیں۔ ایسے میں محض سیاسی حکومت کے قابلِ مواخذہ سیاسی چہروں پر کرپشن کی سیاہی انڈیلنا آسان تو ہو گا مگر کیا اس سے کرپشن ختم ہو جائیگی۔

اعلی عدالتوں اور قومی میڈیا میں فوج سے منسلک ڈی ایچ اے اور دوسری رہائشی اسکیموں سے متعلق انکشافات سے لگتا ہے کہ "دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی”۔ اب ایسے میں کسی بھی لیڈر یا سپہ سالار کیلئے سب سے اہم اس کا اپنا ادارہ اور اسکی شفافیت ہے۔ جنرل راحیل شریف نے نو ماہ بعد اپنی مقررہ مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ ملکی تاریخ میں مقبول ترین آرمی چیف نو ماہ کے اندر آخر ایسا کیا کر سکتا ہے جو انکے پیش رو سپہ سالار اور فوجی حکمران گیارہ گیارہ سال اقتدار پر قابض رہ کر نہیں کر سکے۔

پہلے بات کرتے ہیں جمہوریت کے احترام کی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف کے قیادت سنبھالنے کے بعد سے جمہوری حکومت کو عملی طور پر کسی قسم کی براہ راست فوجی مداخلت یا دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مگر جس دبائو کا بالواسطہ طور پر دھرنوں کے دوران حکومت کو سامنا رہا اس تاثر کو زائل کرنے کی بجائے کچھ اضافی انکشافات نے مزید مضبوط کیا۔ ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر پارلیمنٹ ، کابینہ اور منتخب حکومت کی مسلسل بے بسی اور اسی لیے عوام کے سامنے ان پالیسیوں پر عدم جواب دہی اس بات کا اشارہ ہے کہ فوج کا سربراہ کتنا بھی مقبول ہو وہ عوامی حکومتوں او ر آئینی اداروں سے متعلق اپنے ادارے کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا۔

دوسرا بڑا چیلنج خود احتسابی کا ہے۔ چاہے ڈی ایچ اے جیسے بڑے کاروباری اداروں میں گھپلوں کا معاملہ ہو یا فوج کے خفیہ اداروں پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرف سے سنگین الزامات ۔ اگر اس حوالے سے بھی جنرل راحیل شریف کے دور میں واضح اور ٹھوس اصلاحات یا اقدامات نہیں لیے جاتے تو پھر انسانی حقوق اور رہائشی اسکیموں کے عام متاثرین اس دور کے سپہ سالار کو تاریخ کے اوراق میں کہاں تلاش کرینگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب آپریشن اور کراچی آپریشن نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے مگر کیا یہ تاریخ ہمارے جمہوری اداروں اور آئین کے تحت دستیاب انسانی حقوق کے تحفظ کی کہانی بیان کرتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آنیوالی نسلیں پوچھیں گی کیونکہ جنگیں ایک نہ ایک دن تو ختم ہو جاتی ہیں۔ ان جنگوں او ر ایسی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا ۔

تاریخ نے آج تک 1965ء کی جنگ میں جنرل ایوب خان کو فاتح کے طور پر یاد نہیں کیا اور نہ ہی جنرل ضیا ء الحق کو آج افغان جہاد کے فاتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ آج ہماری تاریخ میں جنگوں کے فاتحین سے زیادہ آمریت او ر جمہوریت کے نشانوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ اب اگر جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی حکومتیں اور عوام کی پارلیمنٹ کے ساتھ فوج کے ترجمان دفتر کے ذریعے بہتر ساکھ کے مقابلے کا رجحان جاری رہتا ہے تو پھر جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا آئین اور جمہوریت کو کیا فائدہ ہو گا۔

اگر اگلا آنے والا آرمی چیف ، آئی ایس آئی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی اور عوامی حکومتوں کے ساتھ طاقت کا موجودہ توازن برقرار رکھتے ہیں تو پھر تبدیلی اور بہتری کہاں ہوئی؟ جنرل راحیل شریف یقینی طور پر ملک میں بہتری لانے کیلئے کوشاں ہیں اور اپنے ادارے کے رویوں میں تبدیلی لانے کیلئے انہیں سیاستدانوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ایک سپہ سالار ہی دے سکتا ہے تاہم ایک جواب یہ بھی ہے کہ کس حکومت کو اپنے ملک میں بہتری لانے کیلئے دنیا میں بہتری ہونے اور کسی ادارے کو اپنے ادارے میں بہتری لانے کیلئے اپنے ملک میں بہتری ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہئیے،

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے جنرل راحیل شریف کو فوج اور سیاسی اداروں کے درمیان کارکردگی اور ساکھ کے اس مصنوعی مقابلے کا خاتمہ کرنا چاہئیے جو فوج کے ترجمان دفتر آئی ایس پی آر کے بیانات اور تصاویر کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وزارت دفاع کی آئینی اور قانونی بالادستی اور چین آف کمانڈ کو تسلیم کرتے ہوئے بحال کرنا بھی لازمی ہے ۔ ان سیاست دانوں اور منتخب حکومتوں کا احتساب کرنا اور گریبان پکڑنا عوام، میڈیا، عدالتوں اور اپوزیشن جماعتوں کا کام ہے۔ یہ کام آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس پی آر یا کسی خفیہ ادارے کا ہر گز نہیں۔ اسی طرح فوج کے اندر احتساب کے نظام کے وجود کا اعلا ن کرنا کافی نہیں یہ نظر بھی آنا چاہئیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے انصاف ہونا کافی نہیں انصاف ہوتا نظر آنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

ایک پیشہ ور اور مقبول لیڈر ، کمانڈر اور سپہ سالار کا اصلی ورثہ اسکی جیتی ہوئی جنگیں یا وجاہت نہیں اسکا چھوڑا ہوا نظام ہوتا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے