گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا حصول

باپ کی وفات کے بعد ان سب کو جمع کر کے رکھنے والی ہستی ان کی ماں تھی۔ ماں کی موجودگی میں نہ تقسیم مال کا کوئی مسئلہ اور نہ ہی حقوق کا کوئی جھگڑا، سب اپنی اپنی جگہ خوش تھے۔ پھر ایک دن ماں کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھا تو چار سگے اور دو پدری بھائیوں میں جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔

سگے بھائیوں نے ایک پدری بھائی کو تو اس کا حق دے دیا مگر غلام حسرت جو کہ دوسرا پدری بھائی تھا کو یہ کہ کر حق دینے سے انکار کیا کہ آپGilgit Baltistan Pakistan کا ہمارا پدری بھائی ہونا مشکوک ہے یعنی آپ کا ہمارا رشتہ متنازعہ ہے۔

یہاں سے غلام حسرت کی مشکلات کا آغاز ہوا۔ شروع میں اس نے سوچا کہ آخر خون کا رشتہ ہے وہ کب تک مجھے محروم رکھیں گے؟

میں اپنی شرافت، محبت اور وفاداری سے یہ ثابت کروں گا کہ میں واقعی ان کا بھائی ہوں۔

وقت گزرتا رہا غلام حسرت اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دیتا رہا مگر معمولی معمولی باتوں پر اس کی وفاداری زیر سوال آتی رہی۔

اس کے ہاں بچے ہوئے، اخراجات بڑھنے لگیں تو بھائیوں سے گندم، چینی، نمک وغیرہ باقیوں کی نسبت تھوڑی سی کم قیمت پر غنیمت سمجھ کر لیتے اور وہ بھی صدقہ سمجھ کر دیتے۔ خیر اس کے بچوں کے پاس عیش و عشرت کا سامان نہ تھا تو پڑھائی میں دل لگا لیا۔ معمولی سکولوں میں پڑھا مگر دل لگا کر پڑھا تو خیر سے بہت پڑھ لکھ گئے۔

Pakistan-China-economic-corridor-620x330

بڑے ہو کر جب انہوں نے اپنے خاندانی پس منظر کو دیکها اور اپنے والد کی بے چارگی دیکهی تو ان کے دل میں اس مسئلے کو مستقل حل کرنے کی خواہش نے آہستہ آہستہ ٹہلنا شروع کر دیا اور جب اپنے والد سے اصل صورت حال پر سنجیدگی سے گفتگو کی تو یہ خواہش پوری آب و تاب کے ساتھ مچلنے لگی۔ کیونکہ اب ان کو پتہ چل گیا تھا کہ ان کی محرومی کا اصل سبب کیا ہے اور اسے کیسے حل کرنا ہے۔

غلام حسرت کے بیٹوں نے خاموشی کے ساتھ اصل مسئلے پر ثبوت اکھٹا کرنا شروع کر دیا، قانونی راستوں کا سراغ لگا یا اور اصل مسئلے پر اپنے چچاوں سے بات کی ان کے انکار پر پر کیس لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

اب وہ عام لوگوں میں بھی اس مسئلے پر گفتگو کرتے اور رائے عامہ کو بھی اپنے حق میں ساز گار بنا رہے تھے۔ بالاخر انہوں نے اپنے باپ کی قانونی وراثت اور طویل عرصے پر محیط محرومی کا ازالہ کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کے چاروں چچاوں نے ان کے پاس آکر ان کو تسلیاں دینا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ ہم تمھارے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ تماری جو بھی ضروت ہے وہ ہم پورا کریں گے لیکن تم اس مسئلے کو اچھال کر خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہم دور مت کریں۔ ۔

مگر غلام حسرت کے بیٹوں نے اب اپنا حق لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ صدقے کی گندم کی بجائے حصے کی گندم لینا چاہتے تھے۔

وہ گندم کی قیمت اور گاڑیوں کے کرائے کی دم پکڑ کر پیچھے بھاگنے کی بجائے وسائل کی رسی پکڑ کر آگے کھڑے ہونے کا فائدہ پوری طرح سمجھ گئے تھے۔ لہذا انہوں نے اپنے والد کو بھی اس مسئلے پر مزید نرمی نہ دکھانے پر آمادہ کر لیا۔

دوسری طرف ان کے خاندانی دشمنوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے غلام حسرت کے بیٹوں کے پاس آکر اپنی حمایت کا یقین دلایا اور ظالم چچاوں کو خوب سبق سکھانے کا مشورہ دیا تو پڑھے لکھے اور ہوشیار بیٹوں نے ان کو بھی اچھی طرح آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ہمارا مسئلہ ایک خالصتا خاندانی مسئلہ ہے لہذا اس میں آپ لوگوں کو بے جا مداخلت کرنے اور ہمدردیاں جتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

Gilgit Baltistan

آپ کی حمایت نہ صرف ہمادے لئے مفید نہیں ہے بلکہ ہمارے کیس کو بری طرح نقصان پہنچانے کا موجب بھی ہے۔
آپ کی دشمنی ہمارے خاندان سے ہے اور ہم تمام تر اختلافات کے باوجود اسی خاندان کا حصہ ہیں اور ہمارے خاندان کا دشمن ہمارا مشترکہ دشمن ہے۔

کچھ عرصہ تگ و دو کرنے کے بعد عدالت میں ان کا حق ثابت ہوا اور غلام حسرت باقی بھائیوں کی طرح باپ کی جائیداد میں حصہ دار بن گیا تب غلام حسرت ناامیدی، بےچارگی اور غربت کی خاک سے اٹھا، احساس فتح اور خوشی و سرور کے کے ٹو پر چڑھ کر گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں پر نظر دوڑائی اور بلند ترین آواز میں کہا

[pullquote]گلگت بلتستان کے باوفا اور ایماندار لوگو!
!میری بات کو غور سے سنو

1۔ کمزور کی وفاداری ہمیشہ کمزوری ہی سمجھی جاتی ہے
2۔ کمزوری کے ساتھ سو فیصد وفاداری کا ایک فیصد صلہ ملتا ہے جبکہ طاقتور کی ایک فیصد کا سو فیصد۔
3۔ مسائل کی جڑکو چھوڑ کر اس کی شاخوں کو تراشتے رہنا صرف وقت اور قوت کا ضیاع ہے۔
5۔ تم بھی اپنے آپ کو پانچواں خود مختار بھائی ثابت کرو باقی حقوق خود بخود حاصل ہوں گے ورنہ لوگ تمھارے حصہ کا مال تمھیں فروخت کر کے کم قیمت لینے کا احسان بھی چڑھائے گا۔
6۔ دانئہ گندم کے لئے کئی کئی دن دھرنے دینے کے بجائے کھیت پر اپنے حق کا مقدمہ لڑو
یہی تمھارے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔
[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے