شمال کی پہاڑیوں پر موت اکثر آہستہ قدموں سے نہیں، دھاڑ مار کر آتی ہے۔ مگر بعض اوقات وہ اتنی خاموشی سے آتی ہے کہ زندہ کو بھی دیر سے خبر ہوتی ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ بلتستان کی سڑکیں، قراقرم کا پگڈنڈیوں جیسا پیچیدہ جال، اور ان پر سفر کرتے وہ مسافر جو زندگی کے حسین لمحوں کو قید کرنے نکلتے ہیں، اکثر خود وقت کے قید خانے میں دفن ہو جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک حادثہ 16 مئی کی صبح گلگت سے سکردو جاتے راستے پر پیش آیا۔ پنجاب کے شہر گجرات کے چار دوست، جن کے چہروں پر جوانی کی شادابی اور دلوں میں خوشیوں کی چمک تھی، سنگلاخ پہاڑوں کی گود میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو پردیس سے چھٹیاں گزارنے آئے تھے۔ گھر، خاندان، دوستوں، سب سے ملے۔ پھر ایک یادگار سفر کا خواب آنکھوں میں سجایا اور نکل پڑے شمالی علاقہ جات کی طرف۔
چار دن تک انہوں نے وادیوں کی خوبصورتی دیکھی، قہقہے لگائے، باتیں کیں، زندگی کی چھوٹی بڑی فکروں کو ہنسی میں اڑا دیا۔ لیکن پانچویں دن وہ ایک ایسے موڑ پر پہنچے جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ شاہراہِ بلتستان، جو پہاڑوں سے لپٹی ایک کالی لکیر جیسی ہے، انہیں آستک نالہ کے مقام پر نگل گئی۔ ان کی گاڑی ایک لمحے کی لغزش کے بعد اندھی کھائی میں جا گری۔ تین دوست موقع پر ہی دم توڑ گئے، اور چوتھا جانے کیسےگاڑی سے نکل کر چند قدم گھسٹ کر ایک پتھر پر جا بیٹھا۔ خون میں لت پت، ہڈیوں کے ٹوٹنے کی اذیت، تنہائی کا خوف، اور بے بسی کا سامنا کرتے ہوئے وہ کچھ دیر جیتا رہا، شاید کسی معجزے کی آس میں، مگر آخرکار وہ بھی خاموش ہو گیا۔
سات دن تک ان کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ ان کے اہلِ خانہ، دوست، اور شہر والے دعائیں کرتے رہے، منتیں مانتے رہے، مگر پہاڑ خاموش تھے۔ پھر ایک دن چیل کوؤں کی بے چینی نے راز فاش کر دیا۔ لاشیں گلنے لگیں تو فضا نے بو محسوس کی، اور قدرت نے حادثے کا پتا دے دیا۔ ریسکیو اہلکار نیچے اترے، لاشیں نکالیں، اور گاڑی کے ساتھ وہ خواب، وہ ہنسی، وہ زندگی جو ان جوانوں کے اندر تھی، اوپر لائے۔
یہ حادثہ صرف ایک اور سڑک حادثہ نہیں۔ یہ ایک چیخ ہے، جو خاموشی میں گم ہو گئی۔ یہ ایک سوال ہے جو ہمارے سسٹم، ہماری سڑکوں اور ہمارے حفاظتی اقدامات سے پوچھتا ہے کہ کب تک ہم اپنی جوانیاں ان سڑکوں کی نذر کرتے رہیں گے؟ کب تک قہقہوں کے بدلے نوحے سنیں گے؟ اور کب تک ان کہانیوں کو “معمول” سمجھ کر بھلا دیں گے؟
وہ چار دوست، جو ساتھ ہنسے، ساتھ چلے، اب ساتھ دفن ہو چکے ہیں۔ ان کے درمیان اب کوئی بات نہیں، کوئی ذکر نہیں، صرف خاموشی ہے۔ وہ خاموشی جو کبھی ان پہاڑوں پر طاری تھی، اب ہمارے دلوں پر چھا گئی ہے۔
کبھی کبھی خاموشی بھی چیخ پڑتی ہے، اگر سننے والے کان باقی ہوں۔