نجکاری کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز

نجکاری کے خلاف پُرامن مظاہرین کے قتل کا کوئی جواز نہیں بنتا- کارل مارکس نے کہا تھا: ’’سرمایہ داری کے بحران کا سب سے پہلا شکار محنت کش طبقہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ موجودہ سرمایہ دارانہ حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں نے کارل مارکس کی بات کو درست ثابت کر دیا ہے- موجودہ مالیاتی سرمائے کے سامنے تمام ممالک کے تمام سربراہان سربسجود غلام ہیں۔

اپنے اپنے مالیاتی مفادات کی تکمیل کیلیے اور اپنے سرمائے میں اضافے کیلیے یہ سرمایہ دارنجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ اور ری سٹرکچرنگ وغیرہ کے زریعے محنت کش عوام اور مزدوروں کا معاشی قتل کر رہے ہیں- پاکستان میں سالانہ سولہ لاکھ نوجوان ڈگریاں، ڈپلومے اور سرٹیفیکیٹ اُٹھائے منڈی کی معیشت میں داخل ہو رہے ہیں لیکن روزگار کے مواقع دور دور تک دکھائی نہیں دیتے- مزید یہ کہ عوامی اداروں کی نجکاری کے ذریعے برسرِ روزگار لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے۔ ضیا آمریت سے لے کر تمام جمہوری ادوار میں 240 چھوٹے بڑے ادارے بیچے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ پہلے سے موجود بے روزگاروں کی فوج میں شامل ہوچکے ہیں۔

نواز حکومت کے عہدیداران اور اہلکاران بارہا یہ دُہرا چکے ہیں کہ حکومت کا کام ادارے چلانا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر حکومتی لاؤ لشکر کس مرض کی دوا ہیں؟ مالیاتی مفادات کیلیے اور قاتل آئی ایم ایف کے حکم نامے پر عملدرآمد کرنے کیلئے 65 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے جن میں پی آئی اے اور واپڈا سرفہرست ہیں۔

پی آئی اے کا ادارہ اپنی کل آمدن کا اٹھارہ فیصد اپنے ہی ملازمین کو دیتا ہے جبکہ باقی دنیا میں یہ شرح تیس فیصد تک مختص ہے، اِس بات سے ثابت ہوا کہ خسارے کا سبب ملازمین نہیں ہیں- خسارے کے اسباب میں یہ بات شامل کی جاتی ہے کہ ایک جہاز کیلئے پانچ سو ملازمین مختص ہیں اور باقی ائیر لائنز میں دو سو کا سٹاف ہے۔ خسارے کی اِس جھوٹی وجہ کی وضاحت یہ ہے کہ باقی ماندہ ائیرلائنز کچن، کیٹرنگ، انجینئرنگ، ڈاکٹرز، ریزرویشن، کارگو، فلائٹ سروس سمیت دیگر تمام سہولیات کیلیے آؤٹ سورسنگ کے افراد کو استعمال کرتی ہیں اگر اُس آؤٹ سورسنگ کی تعداد کو شامل کیا جائے تو وہ پی آئی اے کے پانچ سو کے اسٹاف سے زیادہ ہی ہو گی۔ پی آئی اے ملازمین کو ملنے والی مفت سفری سہولت پر چھ ہزار روپیہ فی کس ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اِن تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پی آئی اے ملازمین پوری تندہی کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

ضیاء الحق کی آمریت سے لیکر تمام جمہوری حکومتوں نے اپنے پالتو لوگوں کو بخشش(ٹِپ) کے طور پر پی آئی اے کے کلیدی عہدوں پر فائز کیا اور یہی لوگ پی آئی اے کی افسر شاہی کے ساتھ مل کر پی آئی اے کو نوچتے چلے آرہے ہیں- مثال کے طور پر شاہد خاقان عباسی نے پی آئی اے کی چیئرمین شپ کے دوران ایک سال کے اندر اندر اپنی ذاتی ائیر لائن ائیر بلیو بنا ڈالی جبکہ موجودہ منیجنگ ڈرائیکٹر شجاعت عظیم رائل ائیرپورٹ سروسز کے مالک بن چکے ہیں۔ پی آئی اے کی اپنی ٹرانسپورٹ پر انتہائی کم رقم خرچ کی جائے تو اُس ٹرانسپورٹ سروس کو بحال کیا جا سکتا ہے، مگر ایسا اِس لیے نہیں کیا جاتا کیونکہ یہی شجاعت عظیم ہر جہاز سے لوڈنگ اور ان لوڈنگ کے زریعے پانچ سو ڈالر کما رہے ہیں- پی آئی اے کی ملکیت بیرون ملک ہوٹلز سے آنے والی آمدن کا کوئی آڈٹ نہیں ہے کہ کتنے آمدن ہو رہی ہے اور کدھر خرچ ہورہی ہے-

حکمرانوں کے بیرونِ ملک بےحساب دوروں کیلیے پی آئی اے کے جہاز استعمال ہوتے ہیں جس کے تمام تر اخراجات پی آئی اے برداشت کرتا ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے ک پی آئی اے 240 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہے۔ پی آئی اے کو اِس خسارے میں ڈالنے کی وجہ یہ ہے کہ کھربوں روپے کے اثاثہ جات کو اپنے منظورِ نظر لوگوں کو بیچا جاسکے- جسطرح 57 ارب روپے مالیت کے مسلم کمرشل بینک کو صرف 87 کروڑ روپے میں میاں منشا کو بیچ دیا گیا۔

اثاثوں کی نجکاری، اجرتوں میں کمی، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ، اوقات کار کی طوالت، ٹھیکیداری نظام، مراعات کا خاتمہ اور ٹریڈ یونین پر پابندیاں ہی سرمایہ دار حکمران طبقات کی پالیسیاں ہیں۔ ایسے قاتلانہ حملوں کے نتیجے میں سماج بڑے پیمانے پہ غربت، بیروزگاری، ناخواندگی اور لاعلاجی کا شکار ہے- سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور عوام کی وسیع تر اکثریت دو وقت کی روٹی اور زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں غرق ہے۔ امیروں کی اولادیں غریبوں کے لہو سے اپنی عیاشی کا سامان پورا کر رہی ہیں جبکہ پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر خودکشیاں کر لیتے ہیں- ماضی میں ہونے والی نجکاری کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کے معاشی قاتلانہ حملوں کا جواب کس طرح دیا جائے؟

اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ محنت کش طبقے اور سرمایہ داروں کی لڑائی نظریات کی لڑائی ہے۔ محنت کش طبقہ سوشلسٹ نظریات کے بغیر حکمران طبقے کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور محنت کش طبقے کی موجودہ مذاحمتی تحریک ناکام ٹھہرے گی- ماضی میں بھی ایسی مزدور تحریکیں نظریاتی کمزوری اور مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادتوں کی خوفناک غداریوں کی وجہ سے تحاشا قربانیوں کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ محنت کشوں کی سب سے بڑی طاقت اُن کا طبقاتی اتحاد ہے۔ جب تک محنت کش طبقہ رنگ، نسل، مذہب، قوم، پیشے اور ادارے کے تعصبات سے بالاتر ہوکر ایک متحد طاقت کی طرح لڑائی کے میدان میں نہیں اترے گا اس وقت تک حکمران طبقات اس کی چھوٹی اور بکھری ہوئی تحریکوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے کچلتے رہیں گے اور مزدور قتل ہوتے رہیں گے- محنت کشوں کو متفقہ مطالبات اور نعروں کیساتھ اپنی بکھری ہوئی تمام لڑائیوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہو گا- ہمارے پاس کھونے کیلیے غلامی کی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں ہے جبکہ حاصل کرنے کے لیے ایک جہان دستیاب ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے