بلاول بھٹو زرداری کی حالیہ جملہ بازی، جس میں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو "ٹیمو ورژن آف نیتن یاہو” کہا، ایک بار پھر سوشل میڈیا پر داد سمیٹ رہی ہے۔ ان کے جملے میں جُرات، طنز، اور زبان کی چابک دستی ضرور ہے، مگر چاپلوسی کی عادی اور کیلکولیٹڈ احتجاج کی خوگر سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود، میں ایک غیر مقبول، غیر موزوں یا ناپسندیدہ سوال آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں:
کیا اس طرح کی شجاعانہ یا مردانہ وار باتیں ہمارے اصل مسائل کا حل فراہم کرتی ہیں؟
ہمیں سچ بولنا ہوگا۔ پاکستان کے مسائل محض عوامی بلکہ عامیانہ حسِ مزاح اور سرحد پار تنقید سے حل نہیں ہوں گے۔ مگر پورا سچ کوئی نہیں بولتا۔
آج ہمارا ملک اقوامِ متحدہ کے Human Development Index میں 160ویں نمبر کے آس پاس ہے۔ World Economic Forum کے Global Gender Gap Index میں ہمارا درجہ مسلسل تشویشناک ہے۔
عدم مساوات، تعلیم، صحت، غربت، صنفی تعصب، اور عام آدمی کی تکالیف ہمارے اصل بحران ہیں۔
گلیوں میں بھوک ہے، ہسپتالوں میں دوا نہیں، اسکولوں میں اساتذہ نہیں، اور لوگ چھت کے بغیر بارش میں بھیگتے ہیں۔
یہ وہ پاکستان ہے جس کے بارے میں ہمیں بات کرنی ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، ‘احساس پروگرام’، انصافی یا مسلم لیگی حکومتوں کے نت نئے کارڈز کچھ وقتی ریلیف تو دے سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ اسٹیٹس کو ،سیاسی نظام کو قائم رکھنے کا مؤثر ذریعہ ہیں ۔ایک ایسا نام نہاد جمہوری نظام، جسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
ہماری سیاست، اگر اس کو سیاست کہنا بھی جائز ہے، اشرافیہ کے ہاتھوں میں قید ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے اکثر چہرے یا تو جاگیردار ہیں یا سرمایہ دار۔
جو لوگ کسی طرح درمیانے یا غریب طبقے سے آ بھی جاتے ہیں، وہ بھی جلد ہی دولت، اقتدار اور استحقاق کی چمک دمک سے متاثر ہو کر "اشرافیہ” کا حصہ بن جاتے ہیں، اور اپنے ماضی سے بہت جلد جان چھڑا لیتے ہیں۔
ان آنکھوں نے کئی "کامیابیوں کی نادر امثال” دیکھی ہیں ۔ کل تک جو این جی اوز کو برا کہتے تھے، انہیں اینٹی اسٹیٹ گردانتے تھے، آج وہ گٹوں سے اوپر پاجامے چھوڑ کر انگریزی سوٹ زیب تن کیے این جی اوز بنا رہے ہیں یا بنوا رہے ہیں۔
ملکوں ملکوں کی سیر کے سوا، اور ہارمونی اور ہیومن رائٹس کے سوا کوئی بات نہیں کرتے۔
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
گوروں کی بات "اسلامی اسلوب” میں کرتے ہیں۔
نہ فلسطین، نہ سوڈان، نہ افغانستان کے المیے، بربادی، یا معصوم لوگوں پر ڈھائے گئے ستم یاد رکھتے ہیں۔
ایم کیو ایم جیسی "مرحومہ” جماعت — جو درمیانے طبقے کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتی تھی ، اس کے کئی رہنما آج کروڑ پتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں میں بھی یہی رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہم جیسے اور خاص طور پر ہم جیسی "بے راہ رو فیمنسٹ” عورتیں نہ تو بیٹی ملالہ جیسا کامیاب اور مراعات یافتہ ایکٹیوزم کر پائیں، نہ ہی کسی مقتدرہ کو متاثر کر پائیں۔
ڈیکولونائزیشن کی بات کرنے پر یورپی اور دیگر گوری چمڑی والے ڈونرز کے عتاب کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
یہ حکمتِ عملی اپنانے کا کبھی گمان تک نہ گزرا، کیونکہ ڈی این اے ایسا ہے کہ
یزید سے بھی یارانہ، حسین کو بھی سلام
کبھی قابل قبول نہیں رہا۔
لیکن شاید عسکری اور اسٹریٹجک امور ان "جذباتی” باتوں اور اصولوں سے ماورا ہوتے ہیں۔
آج کوئی بلاول بھٹو زرداری، مریم صفدر نواز شریف یا حنا ربانی کھر اور یہاں میں ان کی ذاتی پرتعیش زندگیوں پر تبصرہ نہیں کر رہی ، یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ بغیر کسی خاندانی اثر و رسوخ کے ایک عام نوکری حاصل کرتے، اور وہاں سے ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچتے۔
یہ صرف ان تین ناموں کی بات نہیں۔ ہمارا پورا نظام ایسے ہی "سر نیمز” اور "خاندانی پس منظر” پر چل رہا ہے۔ یہ سیاسی میراث، یہ نسب پرستی، دراصل جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔
یہ روش صرف سیاسی حلقوں تک محدود نہیں بلکہ میڈیا، بیوروکریسی، اور کارپوریٹ سیکٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس تلخ حقیقت کے باوجود، میں بلاول، مریم، اور حنا جیسے "سپر اسٹارز” کی شستہ زبان، عالمی امور پر ان کی گرفت، اور اُن کی سیاسی تربیت کی معترف ہوں۔
میں اُمید رکھتی ہوں کہ یہ نئی نسل محض اپنے پیشروؤں کی تقلید نہ کرے بلکہ اُن کی منافقت کو رد کرے۔
ہمیں ایسے رہنما درکار ہیں جو مساوی مواقع پر یقین رکھتے ہوں، جو میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کریں، اور جو ہر پاکستانی کے لیے ایک جیسے خواب دیکھیں۔
ایسا کرنے کے لیے انہیں اپنے طرزِ زندگی اور کئی نظریات میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی اور یہ سب سے مشکل کام ہے۔
مگر یہی وہ پاکستان ہو گا جس کی ہمیں تمنا ہے:
مساوی مواقع، مساوی نتائج، اور حقیقی انصاف پر مبنی ایک پاکستان۔
پاکستان ہمیشہ زندہ باد
—
ڈاکٹر رخشندہ پروین: ایک پاکستانی صحتِ عامہ اور صنفی امور کی ماہر، سوشل انٹرپرینیور، اور کئی جامعات کی سابق استاد ہیں۔ آپ پاکستان ٹیلی ویژن کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ آپ کی سن 1999 کی سیریز "جینڈر واچ” نے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ صنفی تشدد، خاص طور پر جہیز جیسے مسئلے پر آپ کا کام منفرد اور نمایاں رہا ہے۔ گزشتہ بارہ سال سے آپ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے محب وطن بہاریوں، خاص طور پر بنگلہ دیش میں محصور افراد کی آواز بھی بن رہی ہیں۔