علم، رہنمائی اور اخلاص: تفسیر کی کلاس کا انمول تجربہ

آج دوسرا پارا مکمل ہوا- الحمدللہ
الحمدللہ ثم الحمدللہ!
اللہ ربّ العزت کا بے حد شکر ہے جس نے ہمیں اپنے پاک کلام قرآنِ مجید کی تفسیر سیکھنے جیسے عظیم الشان اور بابرکت عمل کے لیے منتخب فرمایا۔ یہ اس کی خاص عنایت اور فضل ہے کہ ہمیں اس علمِ مبارک کی محفل میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، جو دنیا و آخرت میں روشنی کا ذریعہ ہے۔

اگرچہ اس وقت ہماری جماعت صرف دو طالبات پر مشتمل ہے، مگر یہ محدود تعداد ہمارے لیے باعثِ رحمت بن گئی ہے۔ یہ قُربت ہمیں ایسا خصوصی، پُرسکون اور یکسو ماحول عطا کرتی ہے جس میں نہ صرف دل جمعی سے سیکھنے کا موقع میسر آتا ہے، بلکہ ہر سبق دل میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ سیکھنے، سمجھنے، سوچنے اور اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت میں نکھار آ رہا ہے، جو یقیناً کسی عظیم نعمت سے کم نہیں۔

میں دل کی گہرائیوں سے محترمہ اُستاذہ حیا حریم صاحبہ کی شکر گزار ہوں جن کی مسلسل محنت، خلوص اور دُعاؤں کی بدولت یہ روح پرور سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے۔ ان ہی کی وساطت سے ہمیں ایک نہایت شفیق، قابل اور بااخلاق معلمہ، استاذہ مریم رحمن صاحبہ جیسی بہترین رہنما نصیب ہوئیں۔

استاذہ مریم رحمن صاحبہ کا اندازِ تدریس نہایت مؤثر، سادہ مگر پُراثر، اور دلچسپی سے بھرپور ہے۔ اُن کی گفتگو میں نہ صرف علم کا نور جھلکتا ہے بلکہ طلبہ کی تربیت کا گہرا شعور بھی نمایاں ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ وقت کی پابندی، سبق پر توجہ، نوٹس بنانے اور دہرائی کی عادت کو اپنانے کی بھرپور ترغیب دیتی ہیں، اور ان کی یہی خوبیاں ہمیں سبق یاد کرنے، سمجھنے اور دل میں بسانے میں مدد دیتی ہیں۔ ان کے پڑھانے کا انداز ایسا ہے کہ دورانِ کلاس اردگرد کی خبر ہی نہیں رہتی ، دل، دماغ اور نگاہیں صرف سبق پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ ایک معلم کی بہترین صفت یہی ہے کہ شاگرد اُس کی بات کو دل سے سنیں، اور استاذہ مریم اس خوبی میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں مزید برکت عطا فرمائے، آمین۔

اسی طرح، میں اپنی عزیز ساتھی میمونہ کی بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ خوش اخلاق، ہمدرد، نرم گو اور مخلص مزاج کی حامل میمونہ کے ساتھ اس تعلیمی سفر کو طے کرنا میرے لیے باعثِ اطمینان و سکون ہے۔ اُن کے ساتھ مل کر اسباق پر گفتگو کرنا، مشق کرنا اور سیکھنے کا عمل شیریں اور بامقصد ہو گیا ہے۔ ایک اچھے ساتھی کا ساتھ سیکھنے کی راہوں کو مزید روشن کر دیتا ہے، اور یہی کیفیت ہمیں نصیب ہو رہی ہے۔

آخر میں، میری دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہماری معلمات کو دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطا فرمائے، ان کے علم میں برکت دے، انہیں صحت و عافیت کے ساتھ اس خدمتِ دین میں استقامت بخشے۔ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے، اور میرے اور میمونہ کے اس خوبصورت تعلق کو اپنی رضا کے لیے باقی رکھے۔

آمین یا ربّ العالمین!

آج دوسرا پارا مکمل ہوا الحمدللہ

دوسرا پارہ: "سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ” .. خلاصہ..(البقرہ 142–252)

مرکزی موضوعات: امت مسلمہ کی تربیت، شریعت کے اہم احکام، عبادات، معاشرتی اور خاندانی قوانین، اور دینی و سماجی ذمہ داریاں۔

1. قبلہ کی تبدیلی اور امت وسط کی ذمہ داری (آیات 142–152)

پس منظر:

جب نبی کریم ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما کر تشریف لائے، تو ابتدائی مہینوں میں آپ ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ لیکن چونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ تھا اور اہل مکہ کا مرکز عقیدت بھی، آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ قبلہ کعبہ ہو۔

قبلہ کی تبدیلی کا حکم:

اللہ تعالیٰ نے قبلہ کو بیت المقدس سے بدل کر خانہ کعبہ کی طرف موڑنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ پیغام دیا گیا کہ مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں، قبلے کی اصل غرض اطاعت و فرمانبرداری ہے۔

یہود و منافقین کا اعتراض:

نادان لوگوں (یہود، مشرکین، منافقین) نے طنزاً اعتراض کیا کہ پہلے بیت المقدس کو قبلہ کہا، اب خانہ کعبہ کیوں؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ یہ محض آزمائش تھی کہ کون رسول پر ایمان رکھتا ہے اور کون پیٹھ موڑتا ہے۔

امت وسط کی ذمہ داری:

مسلمانوں کو "امت وسط” قرار دیا گیا — ایسی امت جو اعتدال پر ہو، نہ غلو کرے نہ کوتاہی۔ انہیں انسانی معاشرے کے لیے گواہ مقرر کیا گیا، جس طرح رسول ﷺ ان کے لیے گواہ ہیں۔

2. صبر و استقامت کا پیغام (آیات 153–157)

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگنے کا حکم دیا۔
فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ” — بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

آزمائشوں کا ذکر:

خوف

بھوک
مال، جان، اور پھلوں کا نقصان

صبر کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی، جن کی صفت ہے:
"إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ”

3. صفا و مروہ اور شعائر اللہ (آیات 158)

یہود و منافقین نے صفا و مروہ کی سعی کو ایک غیر شرعی عمل کہا تھا۔
اللہ نے وضاحت فرمائی:
"إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ”
یعنی یہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ حج و عمرہ کرنے والوں کو اجازت بلکہ تاکید ہے کہ وہ سعی کریں۔

4. حق چھپانے والوں کی مذمت (آیات 159–162)

اہلِ کتاب کو تنبیہ کی گئی کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو چھپاتے ہیں، ان پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔

معافی کی شرط:

توبہ، اصلاح، اور حق کا اظہار کرنے والے بخش دیے جائیں گے۔

5. توحید اور دلائل (آیات 163–167)

توحید کی دعوت دی گئی:

"وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ”
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو عقل، فطرت اور مشاہدات سے واضح کیا گیا — کائنات، دن و رات کی تبدیلی، آسمان سے بارش، زمین میں جانوروں کا پھیلاؤ، سب اللہ کی نشانیاں ہیں۔

مشرکین کے باطل معبودوں کو قیامت کے دن انکار کرنے والے قرار دیا گیا۔

6. کھانے پینے کی اشیاء اور احکام (آیات 168–173)

اہل ایمان کو طیب (پاکیزہ) رزق کھانے کا حکم دیا۔

حرام اشیاء:

مردار

خون

سور کا گوشت

غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور

مجبوری کی صورت میں رعایت دی گئی۔

شراب اور جوا — فائدہ کم، نقصان زیادہ

قرآن مجید میں شراب اور جوئے کو "شیطانی کام” قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر ان میں وقتی لذت یا مالی فائدہ نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت:

شراب عقل کو زائل کرتی ہے، انسان کو گناہوں کی طرف مائل کرتی ہے اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

جوا افراد کو سستی کمائی کے فریب میں مبتلا کر کے محنت سے دور کرتا ہے، دشمنی اور کینہ پیدا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"ان دونوں (شراب اور جوئے) میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے”
(سورۃ البقرہ 2:219)

لہٰذا جو شخص ان برائیوں سے بچ جائے، وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوگا۔

7. نیکی کی حقیقت (آیت 177)

نیکی صرف قبلہ کی طرف رخ کرنا نہیں، بلکہ:

ایمان باللہ، یوم آخرت، ملائکہ، کتابیں، انبیاء

ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنا

نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی

وعدے کی پاسداری

مصیبت میں صبر

ایسے لوگ ہی سچے اور متقی کہلانے کے مستحق ہیں۔

8. قصاص اور قتل کے احکام (آیات 178–179)

قتل کے بدلے قتل کی اجازت دی گئی، مگر معافی کو بہتر قرار دیا گیا۔

مقصد:

معاشرتی انصاف اور انسانی جان کا تحفظ۔
"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ” — قصاص میں زندگی ہے۔

9. وصیت کے احکام (آیات 180–182)

موت سے پہلے وارثوں کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا تاکہ وراثتی جھگڑے نہ ہوں۔
وصیت میں جان بوجھ کر تبدیلی گناہ ہے۔

10. روزے کے احکام (آیات 183–187)

رمضان کے روزے فرض کیے گئے:
"لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” — تاکہ تم متقی بنو۔

اہم نکات:

مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑنے کی اجازت

فدیہ کی اجازت (اگر دائمی مرض ہو)

افطار اور سحری کا وقت مقرر

شبِ رمضان میں بیوی سے تعلق جائز

اعتکاف کے دوران مسجد میں رہنا ضروری

11. مال کے معاملات: خرچ، سود، اور تجارت (آیت 188)

باطل طریقوں سے مال کھانے کی ممانعت:

جھوٹے دعوے، مقدمے، رشوت، دھوکہ دہی۔

12. چاند، حج و عمرہ، اور قتال (آیات 189–195)

چاندوں کا مقصد:

ایام عبادت (حج، روزے) کا تعین۔

احکام حج و عمرہ:

مکمل کرنا لازم

دورانِ حج بدکلامی، فسق و فجور سے اجتناب

اللہ کی راہ میں خرچ اور جہاد کا حکم

13. طلاق اور عدت کے مفصل احکام (آیات 226–232)

اہم احکام:

ایلاء (شوہر کی قسم کھا کر بیوی سے تعلق ختم کرنا)

عدت کا تعین

رجوع کی اجازت اور طریقہ

خلع کی صورت

بیوی کو گھر سے نہ نکالنے کی تاکید

14. رضاعت کا ذکر (آیت 233)

ماؤں کو دو سال تک بچوں کو دودھ پلانے کا حق

اخراجات باپ پر

رضاعی ماں کو تکلیف نہ دی جائے

مشورے سے دودھ چھڑانا بھی جائز

خاوند کے انتقال کے بعد نکاح کی اجازت کب؟

اگر کسی عورت کا شوہر وفات پا جائے تو شریعت کا واضح حکم ہے کہ وہ چار ماہ دس دن (یعنی عدتِ وفات) مکمل کیے بغیر دوسرا نکاح نہیں کر سکتی۔ اس مدت کے دوران عورت کو نکاح کی اجازت نہیں، کیونکہ یہ اس کے شوہر کے ساتھ وفاداری، سوگ اور شریعت کی اطاعت کا وقت ہے۔

15. نماز کا اہتمام، وصیت، اور وراثت (آیات 238–242)

نماز کی حفاظت کا خصوصی حکم:
"حافظوا على الصلوات…”

وصیت و وراثت:

وصیت کے اصول

ورثاء کو ان کا حق دیا جائے

یتیموں اور کمزوروں کا خاص خیال رکھا جائے

16. طالوت اور جالوت کی جنگ کا واقعہ (آیات 246–252)

بنی اسرائیل نے نبی سے بادشاہ مانگا۔ اللہ نے طالوت کو بادشاہ منتخب کیا، مگر قوم نے انکار کیا کہ وہ غریب ہے۔
نبی نے فرمایا: اللہ نے اسے علم و جسم کی طاقت دی ہے۔

امتحان:

دریا کا پانی پینے کا امتحان لیا گیا . صرف وہی لشکر میں شامل رہے جنہوں نے قلیل پانی پیا۔

جنگ:

طالوت نے جالوت کے خلاف جنگ کی قیادت کی، داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا، بعد میں اللہ نے داؤد علیہ السلام کو بادشاہت اور حکمت عطا کی۔

نتیجہ و پیغام:

یہ پارہ ایک جامع تربیتی منشور ہے جس میں:

امت مسلمہ کو "امت وسط” بنا کر ذمہ داریاں دی گئیں۔

عبادات (نماز، روزہ، حج)

معاشرتی قوانین (طلاق، رضاعت، وراثت)

معاشی اصول (سود، تجارت، زکوٰۃ)

اخلاقی اقدار (صبر، عدل، صدق، امانت)

اور اجتماعی کردار (جہاد، شہادت علی الناس)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے