لیڈر، بوس، معلم و ملازم

یہ غالباً درجہ سادسہ کا زمانہ تھا، یعنی سنہ 2008۔ میں جامعہ فاروقیہ میں زیر تعلیم تھا اور اسی دوران یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز بھی کر رہا تھا۔ وہ ڈھائی سال مجھ پر نہایت بھاری گزرے۔ جامعہ میں تعلیم اور مطالعہ، پھر تعطیلات میں یونیورسٹی کی کلاسز، جمعہ کے دن یونیورسٹی جاتا اور اتوار کے دن جامعہ میں کلاسز ہوتی، چھٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عیدین کے علاوہ جامعہ فاروقیہ اور یونیورسٹی میں ساتھ چھٹیاں نہیں ہوتی، اور میرے عیدین کے دن بھی اسائنمنٹس کی نذر ہو جاتے۔

انہی دنوں مجھ پر لکھنے کا ایک جنون سا طاری تھا۔ روزنامہ اسلام اور ضرب مومن میں چند تحریریں شائع ہوئیں جبکہ گلگت کے ہفت روزہ چٹان، صدائے گلگت، روزنامہ کے ٹو اور دیگر رسائل میں تحریریں چھپتی رہتیں اور یہ تحریریں میں اساتذہ اور اپنے رفقاء کو دکھا دکھا کر نہال ہوجاتا۔ لکھنے اور خارجی مطالعہ کے حوالے اکثر و بیشتر اساتذہ سے رہنمائی لیتا، استاد عباسی صاحب مرحوم اپنی مصروفیات کے باعث محض مشورہ دیتے، لیکن تحریر کی باریک بینی سے تصحیح کے لیے وقت نکالنا ان کے لیے مشکل تھا۔ اس خلا کو استاد حبیب زکریا نے پُر کیا۔

جامعہ میں دیگر اساتذہ بھی موجود تھے، شہرت یہ تھی کہ وہ نہ صرف قلم و انشاء کے ماہر ہیں بلکہ طلبہ سازی اور رجال سازی کے بھی امام ہیں۔ میں نے بارہا ان سے سیکھنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ ایک موقع پر شدت سے احساس ہوا کہ شاید میرا گلگتی ہونا ہی جرم ہے، ورنہ یہ بے اعتنائی ہرگز نہ برتی جاتی۔

استاد حبیب زکریا کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ بڑے سخت مزاج ہیں۔ لیکن جب خامسہ میں ان سے قریبی تعلق قائم ہوا تو وہ دوستی آج تک قائم ہے۔ دورہ حدیث تک ان سے اتنا کچھ سیکھا کہ الفاظ اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ ایک بار میں نے بڑی کاپی کے پینتیس صفحات انہیں تھما دیے اور عرض کیا: "استاد جی! کل پرسوں آپ وفاق المدارس العربیہ کے پیپرز چیک کرنے کے لیے ملتان جا رہے ہیں، براہ کرم اس سے پہلے تصحیح کر دیجیے۔”
وہ مسکرائے اور بولے: "اتنے صفحات ایک دن میں تمہارا باپ دیکھے گا چٹان کے بچے! میں یہ کاپی ملتان ساتھ لے جاتا ہوں۔ پیپرز کے درمیان موقع ملا تو تصحیح کر کے واپس لاؤں گا۔”
پھر واقعی یوں ہوا کہ صفحہ صفحہ سرخ پنسل سے روشن کر کے لائے۔ تصحیح نہیں بلکہ پورا کچا چٹھا کھول دیا۔

ایک بار میں نے استاد عبداللطیف معتصم سے شکوہ کیا کہ بعض اساتذہ سے رہنمائی چاہی لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ استاد معتصم نے شفقت سے فرمایا "حقانی میاں! اب آپ دوسروں کو رہنمائی دینے کے قابل ہو چکے ہیں۔ آپ کے مضامین اخباروں میں چھپتے ہیں اور آپ ایک ساتھ جامعہ اور یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ اب دوسروں کو راستہ دکھائیے۔ دوسروں سے رہنمائی لینے کے چکر میں کڑھنے کی ضرورت نہیں۔”

یہ الفاظ میرے لیے مشعلِ راہ بنے۔ پھر عملی زندگی میں قدم رکھا تو تجربات نے واضح کیا کہ معلم اور ملازم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ معلم وہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر فالو کرنے کو دل چاہے، جو کردار و گفتار سے رہنمائی کرے۔ لیکن ایک ملازم محض نوکری کرتا ہے، تنخواہ کے لیے وقت گزارتا ہے۔

یہی فرق لیڈر اور بوس کے درمیان ہے۔

لیڈر وہ ہے جو اپنی شخصیت، کردار اور وژن سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، جسے سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دنیا خود اس کے پیچھے چلنے لگتی ہے۔

جبکہ بوس ہر لمحہ ماتحتوں کو سمجھاتا رہتا ہے کہ "ایسا کرو، ویسا نہ کرو”، یا ماتحتوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، کیونکہ اس کی حیثیت محض ایک حکم دینے والے کی ہوتی ہے، رہنما کی نہیں۔

اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان معلم بنے نہ کہ محض ملازم، اور لیڈر بنے نہ کہ صرف بوس۔ کیونکہ لیڈر کا مقام دلوں پر حکمرانی ہے، اور بوس کا بس دفتر کی کرسی تک۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے