بچپن اور طالب علمی کی یادیں ہمیشہ دل کو بھاتی ہیں۔ وہ لمحے نہ صرف حسین بلکہ اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ وقت گزرنے کے باوجود انسان کے ذہن کے پردے پر تازہ رہتے ہیں۔
یہ 2005 کی بات ہے، جب میں جامعہ فاروقیہ کراچی میں درجہ ثانیہ کا ایک سادہ سا طالب علم تھا۔ ہمارے استادِ محترم عبداللطیف معتصم صاحب ہمیں عربی ادب و ان اکی کی کتاب” معلم الانشاء جلد اول” پڑھایا کرتے تھے۔ ششماہی امتحانات کا موسم تھا۔ میں نے حسبِ عادت اپنی جوابی کاپی کو نہایت خوبصورت انداز میں سجایا۔ مدارس کے طلباء، "خصوصاً طالبات” جوابی کاپی کو دلکش اور خوش خطی سے مزین کرنے میں کمال رکھتے ہیں، اور ہم بھی اس فن میں کم نہ تھے۔
میں نے اپنی کاپی ہرصفحے کے نیچے والے حصے پر مارکر سے ایک خوبصورت حاشیہ بنایا۔ پھر آغاز سے آخر تک اکابرینِ علماء دیوبند کے اسماء جمیل انداز میں لکھے، بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے لے کر ہمارے استاد عبداللطیف معتصم صاحب دامت فیوضہم تک کے اسماء گرامی لکھے اور آخر میں ایک جملہ درج کیا…
"میرا تعلق انہیں اکابرین دیوبند سے ہے۔”
یہ جملہ میرے استادِ محترم کے دل کو ایسا بھا گیا کہ آج تک ہر ملاقات یا فون پر اسی جملے کو دہراتے ہیں اور میں ہمیشہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
میری خوش بختی تھی کہ میں نے حفظِ قرآن کے دور ہی سے اکابرین دیوبند کی سوانح عمریاں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ثانیہ میں ہی ان کے ساتھ محبت اور نسبت کا شعور میرے دل میں جاگزیں ہو گیا تھا۔ حالانکہ میں ایک دیہاتی پس منظر رکھنے والا، متوسط سا طالب علم تھا، مگر خارجی مطالعہ نے میری فکر و نظر کو پختگی عطا کی۔
وقت گزرا اور دس برس بعد گلگت میں ایک بڑا منظر سامنے آیا۔ وفاق المدارس العربیہ کے نمایاں فضلاء کی ایک بڑی تعداد نے جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ جمعہ کا دن تھا، اور میں سارا دن سوچوں میں گم رہا کہ کاش یہ نوجوان فضلاء فلاں فلاں دینی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مجھے ان کے جماعت اسلامی میں شامل ہونے پر قطعاً اعتراض نہیں تھا بلکہ خیال یہ تھا کہ زیادہ بہتری اسی میں تھی کہ وہ دیگر دینی سیاسی و مذہبی جماعتوں سے وابستہ ہوتے، بات مخالفت و اعتراض کے بجائے بہتری کی تھی .
میں نے یہ خیالات اپنے خطے کے چند نامور علماء سے بھی شیئر کیے۔ لیکن ان کے جوابات عجیب و غریب تھے۔ کوئی ان فضلاء کو ٹٹو کہہ رہا تھا، کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ اکابرین کے راستے سے ہٹ گئے ہیں، کوئی مالی مفاد کا طعنہ دے رہا تھا۔ ہر کسی کے پاس الزام کا تیرا تھا مگر کسی کے پاس یہ حقیقت بیان کرنے کی جرات نہ تھی کہ اصل میں ہماری جماعتی و تنظیمی ساخت میں ان نوجوان فضلاء کو جگہ دینے اور ان سے کام لینے کی گنجائش ہی نہیں۔
انہیں دنوں ایک بزرگ نے مسکرا کر طنزیہ لہجے میں کہا
"بے غم رہیں، آپ بھی عنقریب جماعت اسلامی میں شامل ہو کر اکابرین کے راستے سے دور ہو جائیں گے۔”
یہ الفاظ میرے دل پر بجلی بن کر گرے۔ میں نے ٹھیک ٹھیک بلکہ ٹھیٹھ چلاسی لہجے میں جواب دیا…
"تم لوگ مفادات کے لیے دیوبندی ہو اور اکابر پرست۔ جبکہ میں اکابرین دیوبند کے اعتدال پر مبنی منہج کو پڑھ کر اور سمجھ کر دیوبندی ہوں۔”
آج بھی میں وہیں کھڑا ہوں جہاں درجہ ثانیہ میں کھڑا تھا۔ اس وقت شاید چند اکابرین کی سوانح ہی پڑھی ہوں، مگر اب اللہ نے توفیق دی کہ سینکڑوں اکابرین کی حیات و خدمات قلم بند کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج بھی مفاد پرست لوگ مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ میں اکابرین دیوبند کے منہج سے ہٹ گیا ہوں یا غیروں کا ٹٹو بن گیا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ میں ہر اُس شخص کی خدمت اور کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور تحریری اعتراف بھی کرتا ہوں جو دین کے نام پر خدمت خلق اور علمی کام کرتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اکابرین دیوبند کے مسلک و منہج کو نہ صرف پڑھا بلکہ سمجھا اور ان کے علمی و عملی اعتدال کو قریب سے دیکھا۔ اسی لیے آج بھی میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا منہج ہی درست اور قابلِ اتباع ہے، اور اس نسبت کو میں نے کبھی ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اور فخریہ یہ کہنے میں حرج نہیں کہ
"میرا تعلق انہیں اکابرین دیوبند سے ہے”