اردو ادب کی دنیا میں احمد فرازؔ کا نام محض ایک شاعر کا نہیں بلکہ ایک عہد کا استعارہ ہے۔ ان کی شاعری میں محبت کی لطافت بھی ہے، بغاوت کی جرات بھی اور سماجی شعور کی گہرائی بھی۔ وہ ایسے شاعر تھے جنہوں نے اپنے الفاظ سے عاشقوں کے دلوں کو بھی تسلی دی اور ظالم نظاموں کے ایوانوں میں لرزہ بھی طاری کیا۔ فرازؔ کے لہجے میں نرمی اور احتجاج کا حسین امتزاج تھا جو قاری کے دل پر براہ راست اثر ڈالتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
احمد فرازؔ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ (خیبر پختونخوا) میں پیدا ہوئے۔ اصل نام سید احمد شاہ تھا، لیکن شعری دنیا میں وہ ’’احمد فرازؔ‘‘ کے نام سے امر ہوئے۔ والد سید محمد شاہ برقؔ خود شاعر تھے، جس نے فرازؔ کے اندر ادبی ذوق کو ابتدائی عمر میں ہی پروان چڑھایا۔ فرازؔ نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے حاصل کی اور پھر پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ تعلیمی دور ہی میں ان کی شاعری کا آغاز ہوا، اور وہ جلد ہی ادبی محافل میں پہچانے جانے لگے۔
ادبی سفر اور اسلوب
احمد فرازؔ کا پہلا شعری مجموعہ "تنہا تنہا” شائع ہوا تو اردو دنیا نے ایک نئے اور منفرد لہجے کے شاعر کو پہچانا۔ فرازؔ کی شاعری میں سادگی، رعنائی، غنائیت اور درد کی آمیزش انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعرا سے منفرد بناتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف غزل کو ایک نیا ذائقہ دیا بلکہ نظم میں بھی اپنے خیالات کا بھرپور اظہار کیا۔
ان کی شاعری کا محور محبت ضرور رہا، مگر یہ محبت صرف رومانوی دائرے تک محدود نہ رہی، بلکہ انسانیت، آزادی اور عدل کے احساسات سے بھی جڑی۔ فرازؔ کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کی۔ ضیاء الحق کے دور میں ان کی نظموں اور بیانات نے انہیں جلاوطنی پر مجبور کیا، لیکن ان کے لہجے میں بغاوت کی آنچ مزید تیز ہو گئی۔
زندگی کے اہم واقعات
احمد فرازؔ نوجوانی میں ہی پشاور ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور پھر تدریس کے شعبے میں بھی خدمات انجام دیں۔
1976ء میں وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔
ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران ان کی نظموں نے عوامی دلوں میں جوش جگایا، جس پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
جلاوطنی کے دوران انہوں نے یورپ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں وقت گزارا۔
واپس وطن آنے کے بعد انہوں نے پاکستان اکادمی آف لیٹرز اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہی کی۔
نمایاں کتب اور شعری مجموعے
احمد فرازؔ کے شعری مجموعے اردو ادب کے کلاسکس میں شمار ہوتے ہیں۔ چند مشہور مجموعے:
تنہا تنہا
درد آشوب
شبِ خون
جاناں جاناں
بے آواز گلی کوچوں میں
پس انداز موسم
نابینا شہر میں آئینہ
غزل بہانہ کروں
ان کی شاعری کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا اور انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
اعزازات
آدم جی ادبی ایوارڈ
ستارۂ امتیاز
ہلالِ امتیاز (جو انہوں نے اصولی مؤقف پر واپس کر دیا)
متعدد بین الاقوامی اعزازات
شخصیت اور ادبی مقام
احمد فرازؔ کی شخصیت میں ایک شاعر کی حساسیت اور ایک انقلابی کا جرات مندانہ لہجہ یکجا تھا۔ وہ فیض احمد فیض کے بعد اردو کے مقبول ترین شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی غزلیں نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بن گئیں اور ان کی انقلابی شاعری عوامی حقوق کی گواہی دیتی رہی۔ فرازؔ کو اردو غزل کا ’’رومانوی شاعر‘‘ کہنا ان کی شخصیت کے صرف ایک پہلو کو بیان کرتا ہے؛ حقیقت یہ ہے کہ وہ عہدِ حاضر کے سب سے بڑے عوامی اور سیاسی شعرا میں سے بھی ایک تھے۔
آخری ایام اور وفات
احمد فرازؔ کی زندگی کے آخری برس مختلف عوارض میں گزرے۔ 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا اور وہ ایچ-8 قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کے جنازے میں ادیبوں، شعرا، اہلِ سیاست اور ہزاروں مداحوں نے شرکت کی۔ ان کی وفات اردو ادب کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔
احمد فرازؔ کی شاعری آج بھی اسی طرح دلوں پر اثر کرتی ہے جیسے ان کے عہد میں کرتی تھی۔ وہ محض شاعر نہیں، بلکہ محبت کے سفیر، عوام کے وکیل اور بغاوت کی علامت تھے۔ ان کے اشعار آنے والی نسلوں کے لیے بھی روشنی کا مینار ہیں.
“سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں”