یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی سچائی ہے کہ کسی بھی قوم کی تعمیرِ نو اور اس کے اخلاقی اور تہذیبی ارتقا میں فکری اور نظریاتی بنیادوں پر استوار تحریکوں کا کردار انتہائی مرکزی اور فیصلہ کن ہوا کرتا ہے۔ یہ جماعتیں محض سیاست کے میدان میں کودنے والی پارٹیاں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اجتماعی شعور کو جگانے، اقدار کو تشکیل دینے اور معاشرے کے اخلاقی قطب کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی متنوع اور پرپیچ تاریخ میں ایسی بے شمار سیاسی و مذہبی جماعتیں نمودار ہوئیں جو اپنا مقصد پورا کر کے تاریخ کے دھندلکے میں گم ہو گئیں، یا پھر اپنی افادیت کھو بیٹھیں۔ تاہم، ان سب کے برعکس، ایک جماعت ایسی بھی ہے جس نے اپنے منفرد اور واضح نظریۂ حیات، ایک مضبوط اور مربوط تنظیمی ڈھانچے، بلند ترین اخلاقی معیارات اور معاشرے کے لیے بے لوث خدمت کے جذبے کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا ہے بلکہ ایک ممتاز اور قابلِ احترام مقام حاصل کیا ہے۔ یہ کوئی عام سیاسی پارٹی نہیں، بلکہ ایک فکری اور اخلاقی تحریک ہے جس کا نصب العین فرد سے لے کر ریاست تک زندگی کے ہر پہلو میں اسلام کے احکامات کی عملی تفسیر پیش کرنا ہے۔ اس کا نام "جماعت اسلامی” ہے۔
ایک منفرد بنیاد اور تاریخی تشکیل
جماعت اسلامی کی داغ بیل چھبیس اگست انیس سو اکتالیس کو لاہور میں ایک ایسے دور میں ڈالی گئی جب برصغیر تاریخ کے ایک نازک موڑ سے گزر رہا تھا۔ برطانوی استعمار اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، خطے کی جغرافیائی اور سیاسی تقدیر بدل رہی تھی، اور مسلمانوں کے سامنے ان کے مستقبل کے حوالے سے متعدد راستے کھلے ہوئے تھے۔ ایسے نازک وقت میں ممتاز اسلامی مفکر اور مصنف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا مقصد محض ایک جغرافیائی وطن پاکستان کی تخلیق تک محدود نہ تھا، بلکہ ایک وسیع تر اور عمیق تر مقصد یعنی "اقامتِ دین” کو مدنظر رکھا گیا۔
مولانا کا یہ ماننا تھا کہ محض سیاسی غلامی سے نجات ہی حقیقی آزادی نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں بڑا کام انسانوں کے ذہنوں اور دلوں کو غیر اسلامی تصورات کی غلامی سے نکالنا اور ان میں اسلام کے حقیقی اور جامع تصور کو زندہ کرنا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی نے اپنے آغاز ہی سے اپنے آپ کو روایتی سیاسی جماعتوں سے یکسر مختلف ثابت کیا۔ اس کی بنیاد کسی ذات پات یا شخصیت پرستی پر نہیں، بلکہ ایک واضح نظریے اور ایک مقدس مقصد پر رکھی گئی۔ اس کے کارکنان کے لیے اعلیٰ اخلاقی کردار، دیانت داری، سادگی اور ایثار کی اعلیٰ روایات کو لازمی قرار دیا گیا، جو اسے دیگر تمام سیاسی گروہوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی فرق تھا جس نے اسے ایک نظریاتی تحریک کی شکل دی نہ کہ صرف ایک عارضی انتخابی مہم چلانے والی سیاسی کی۔
نظریاتی اساس: ایک عمیق اور ہمہ گیر تجزیہ
جماعت اسلامی کی شناخت اور تحریک کا مرکز و محور اس کا واضح، گہرا اور غیر متزلزل نظریاتی تصور ہے، جو محض چند رسمی بیانات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک نظام فکر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا نصب العین درحقیقت اسلام کے اس جامع اور آفاقی تصور کو مجسم کرنا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ، ہر لمحہ اور ہر سطح پر حاکمیت الٰہیہ کے اعلان پر یقین رکھتا ہے۔ یہ جماعت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسلام کا دائرہ کار محض مسجد کی چار دیواری یا انفرادی عبادات کے محدود دائروں تک ہی محیط نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کے وجود کے تمام تر ظاہری و باطنی پہلوؤں کو محیط ہے۔
اس بنیادی فکری عمارت کی تعمیر کا آغاز ہی ‘اقامت دین’ کے اس مقدس اور عظیم الشان مقصد سے ہوتا ہے، جسے جماعت اپنی وجودی علت اور آخری منزل قرار دیتی ہے۔ یہ محض ایک نعرہ یا سیاسی بیانیہ نہیں، بلکہ ایک ایسی عملی جدوجہد ہے جس کا ہدف پورے معاشرے میں اللہ و رسول کے احکامات کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ اس قیام کے تصور میں حکومت و ریاست کا قیام اگرچہ ایک اہم ترین ذریعہ ہے، مگر یہ کبھی بذات خود آخری مقصد نہیں رہا۔ جماعت کا تصورِ نفاذ اس سے کہیں زیادہ وسیع، گہرا اور ہمہ گیر ہے، جو انسانی زندگی کے تمام دائروں فرد کے ذہن و قلب سے لے کر خاندانی ادارے، معاشرتی اقدار، معاشی ڈھانچے، سیاسی نظام اور بین الاقوامی تعلقات تک میں اسلام کے اصلاحی اور انقلابی پیغام کو سرایت کرنے کی بات کرتا ہے۔
یہی وہ نظریاتی رفعت اور فکری استحکام ہے جس نے جماعت اسلامی کو تاریخ کے ہر موڑ پر، ہر قسم کے سیاسی بحران اور سماجی دباؤ کے باوجود، اپنے اصولوں پر ثابت قدم رکھا ہے۔ چاہے اقتدار میں آمریت کی سیاہ راتیں چھائی ہوں یا جمہوریت کے نام نہاد روشن ایام، جماعت نے کبھی وقت کے جبر یا عوامی رائے کے خلاف جانے کے خوف سے حق گوئی و بیانی میں کمی نہیں کی۔ اس کی تمام تر سیاسی سرگرمیوں اور معاشرتی کوششوں کی کمان ہمیشہ نظریے کے ہاتھ میں رہی ہے، نہ کہ وقتی مفاد یا عارضی کامیابی کے۔ اس کی جدوجہد کا محور و مرکز اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرنا کبھی نہیں رہا، بلکہ ایک ایسی سوچ اور نظام کو پروان چڑھانا رہا ہے جو انسانی زندگی میں عدل، اخلاق اور توحید کی بنیاد پر ایک نئی روح پھونک سکے۔ اس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بنیادی اصولوں کی تشہیر اور ان کے مطابق معاشرے کے نظم و مزاج کو بدلنے کی سعی کرتی رہی ہے، خواہ اس راہ میں اسے کتنی ہی آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔
انسانی خدمت اور معاشرتی ارتقا کا پیکر
جماعت اسلامی کی شناخت اس کے بے لوث اور ہمہ گیر خدماتی منصوبوں سے وابستہ ہے، جو محض چند انتخابی نعروں یا عارضی اقدامات پر مشتمل نہیں، بلکہ ایک مستقل، مربوط اور دل سے وابستہ سماجی تحریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ خدمت صرف مشکل کے اوقات تک محدود نہیں، بلکہ ہر اس موقع پر سامنے آتی ہے جہاں انسانی ضرورت موجود ہو۔
قدرتی آفات کے موقع پر، خواہ وہ تباہ کن سیلاب ہو یا زلزلے کی ہولناک صورت حال، جماعت اسلامی کے رضاکارانہ دستے ہمیشہ سب سے پہلے متاثرہ علاقوں میں پہنچتے ہیں اور آخری دستے کے طور پر واپس ہوتے ہیں۔ ان کا کام انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ انداز میں ہوتا ہے، جس میں متاثرین کے لیے فوری ریسکیو آپریشنز، خوراک اور پانی کی فراہمی، طبی امداد کے فیلڈ ہسپتالوں کا قیام، اور پناہ گاہوں کا انتظام شامل ہوتا ہے۔
یہ خدمات کسی امتیاز کے بغیر، ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر پیش کی جاتی ہیں۔ جماعت کا کارکن کبھی یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے والا شخص کس علاقے، کس مذہب یا کس سیاسی نظریے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی نظر میں صرف اور صرف ایک مصیبت زدہ انسان ہوتا ہے جس تک اس کا ہاتھ پہنچانا اس کا فرض ہے۔ یہ رویہ دراصل اس کے جذبہ ایمانی اور رضائے الٰہی کے حصول کی خالص نیت کا عکاس ہے۔
تعلیم کے شعبے میں جماعت اسلامی کی خدمات نہایت وسیع اور معیاری ہیں۔ اس کے تحت ملک بھر میں اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہے، جو نہ صرف سستی اور اعلیٰ معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے بلکہ طلباء کی اخلاقی و روحانی تربیت اور کردار سازی کو بھی اولین ترجیح دیتا ہے۔ ان اداروں کا مقصد محض ڈگریاں تقسیم کرنا نہیں، بلکہ معاشرے کے لیے ایسے ذمہ دار، دیانت دار اور باکردار شہری تیار کرنا ہے جو ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن جیسا عظیم فلاحی ادارہ اس کا ایک روشن ستون ہے، جو غربت کے خلاف جنگ میں ہر محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ مفت علاج معالجے کی سہولیات، روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ضرورت مندوں کو مفت کھانا، اور نادار طلباء کے لیے تعلیمی اخراجات کی ادائیگی جیسے عظیم کام انجام دے رہا ہے۔ اسی طرح آغوش جیسا منفرد پروجیکٹ یتیم اور لاوالد بچوں کی مکمل کفالت کرتا ہے، انہیں پرورش کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم اور ہنر سکھا کر انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بناتا ہے۔ ان تمام خدمات کی روح میں وہی جذبہ کارفرما ہے جو جماعت اسلامی کے ہر کارکن کے دل میں ہے: انسانیت کی بے لوث خدمت، بلاامتیازِ مذہب و ملت۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو اس کی سماجی خدمت کو دیگر سے ممتاز اور بلند تر کرتا ہے۔
سیاست میں دیانت اور شفافیت: ایک درخشندہ مثال
سیاست، جو دراصل ایک مقدس امانت اور اجتماعی معاملات کی باگ ڈور سنبھالنے کا نام ہے، آج کے دور میں اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ کر محض اقتدار کی کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں جب کہ سیاسی میدان میں الزام تراشیوں، ذاتیات کے طوفانوں اور اخلاقی حدود کے ٹوٹنے کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے، اصولوں اور استقامت کی سیاست ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو تاریکی میں امید کی کرن بکھیرتی ہے۔
جماعت اسلامی کا سیاسی سفر اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ نظریاتی سیاست، جب اصولوں اور دیانت کے دائرے میں رہ کر کی جائے، تو وہ معاشرے میں ایک مثالی قوت بن سکتی ہے۔ اس جماعت کے ہر فرد، قائدین سے لے کر کارکن تک، کی زندگی سادگی، قناعت اور شرافت کے عملی پیکٹ کے مانند ہے۔ ان کے اخلاقی وجود پر کوئی داغ نہیں، ان کے مالی معاملات پر کوئی شکوہ نہیں، اور ان کی اجتماعی جدوجہد پر کوئی سوالیہ نشان نہیں۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو انہیں عام سیاسی اخلاقیات سے ممتاز کرتا ہے۔
الیکشن کے میدان میں بھی جماعت اسلامی کا کردار ہمیشہ شفافیت اور قانونیت کا پیکر رہا ہے۔ یہ جماعت کبھی جذبات کو ہوا دینے، جعلی بیانیے پھیلانے یا مخالفین کو نشانہ بنانے کی سیاست نہیں کرتی۔ اس کا ہر انتخاب نظریے، منشور اور خدمت کے وعدے پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے حامی نہ صرف ووٹ دیتے ہیں بلکہ اعتماد کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ انہیں بہکایا گیا، بلکہ اس لیے کہ انہیں یقین دلایا گیا۔
جماعت اسلامی کا خواتین کے فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس کردار
جماعت اسلامی پاکستان خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ایک متحرک اور مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ جماعت اسلامی میں باقاعدہ شعبہ خواتین قائم ہے اور وہ معاشرے میں مکمل اور آزادانہ طور پر سیاسی، سماجی اور فلاحی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح الخدمت فاؤنڈیشن میں بھی خواتین کو ایک واضح اور ٹھوس کردار دیا گیا ہے جو مختلف مواقع پر خواتین کے لیے مختلف ضروری خدمات انجام دے رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف مقامات خاص کر بونیر میں الخدمت فاؤنڈیشن شعبہ خواتین میں خواتین نے بڑی تعداد میں بڑھ چڑھ کر متاثرہ خاندانوں اور خواتین کے لیے مختلف ضروری خدمات انجام دے رہی ہیں۔ جماعت کا ماننا ہے کہ ایک صحت مند اور متوازن معاشرے کی تعمیر کے لیے خواتین کی تعلیمی، معاشی اور سماجی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔
اس مقصد کے تحت جماعت اسلامی نے خواتین کے لیے تعلیمی ادارے، vocational training centers، صحت کی سہولیات اور مشاورتی مراکز قائم کیے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف خواتین کو ہنر مند بنانے اور انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے پر زور دیتے ہیں بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے قانونی و سماجی آگاہی بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جماعت اسلامی بیوہ اور مستحق خواتین کی امداد کے لیے فلاحی پروگرام چلاتی ہے، جس سے معاشرے میں ان کی دیکھ بھال اور ان کو باعزت روزگار فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے وقار اور ان کے مقام کو بلند کرنا جماعت اسلامی کے ویژن کا اہم حصہ ہے۔
یہ جماعت مادہ پرستی اور مفاد پرستی کے اس دور میں ایک اخلاقی دیوالیہ پن کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی جماعت نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جو انسانی اقدار، انصاف اور صداقت کی علمبردار ہے۔ اس کی بات ہمیشہ حق کے ترازو میں تولی جاتی ہے، چاہے اسے فوری مقبولیت حاصل ہو یا نہ ہو۔
قوموں کی تاریخ میں ایسی ہی جماعتیں اور تحریکیں معاشرے کی رہنمائی کرتی ہیں جو اپنے عمل سے مثال قائم کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی کی قربانیاں، اس کی بے لوث خدمت اور اس کا غیر متزلزل نظریہ اسے پاکستانی معاشرے کے لیے ایک بیش بہا اثاثہ بناتے ہیں۔ یہ جماعت نہ صرف موجودہ دور کی اخلاقی بحران سے نکلنے کا راستہ دکھاتی ہے بلکہ مستقبل کے روشن معاشرے کی تعمیر کا بھی ضامن ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسی جماعت کی قدر کریں، اس کے مشن کو سمجھیں، اور اس کی راہ میں ہر ممکن تعاون کا جذبہ رکھیں۔ کیونکہ یہی وہ ادارے ہیں جو قوم کو جہالت، ناانصافی اور بددیانتی کے تاریک طوفان سے نکال کر علم، انصاف اور صداقت کے روشن ساحل تک پہنچا سکتے ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو اس کے مشن میں کامیاب فرمائے اور اسے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔