حال ہی میں کرکٹ کی ایک خاص قسم "چیلنج میچ” سے ملک گیر شہرت پانے والا ضلع دیر کے ایک بظاہر پاگل اور لاابالی سا لیکن حقیقت میں ذہین و پرجوش نوجوان رحید اللہ عرف بوڈاگے نے یوٹیوب چینل "ہوپ نیوز” کے میزبان ابراہیم اورکزئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کئی سوالات کے دلچسپ جوابات دیں۔ عموماً ہم نے اس کے بارے میں سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ قسم کی باتیں اور حرکتیں دیکھیں ہیں لیکن مذکورہ انٹرویو میں اس نے خلاف معمول، کافی سنجیدہ انداز اپنا کر خیالات کا سمجھدارانہ اظہار کیا۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔
بوڈاگے ضلع دیر کے علاقے میدان سے تعلق رکھنے والا ایک بے حد غریب، نظر انداز، سادہ لوح، ناخواندہ اور جذباتی نوجوان ہے۔ کرکٹ سے والہانہ دلچسپی رکھتا ہے۔ مختلف ہم عمر یا کم عمر بچوں کو چیلنج دے کر یا کسی سے چیلنج قبول کرتے ہوئے کرکٹ میچ رکھ دیتا ہے اور جذباتی انداز میں کھیلتے ہوئے مخصوص سماں باندھ لیتا ہے اور یہی چیز سوشل میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لے کر موصوف کو "حادثاتی شہرت” کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ عصر حاضر کا خاصہ ہے کہ اس میں شہرت اور گمنامی یا نیک نامی اور رسوائی ایک دوسرے سے دو دو قدم یا اتنے ہی لمحوں کے فاصلے پر ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں اب زمانوں اور کارناموں کے متقاضی بالکل نہیں۔
بوڈاگے کی جذباتی روش، سٹائلش ایکشن، سیدھے سادے انداز میں بات چیت، ہنسی مزاح کی طاقتور حس اور کرکٹ قواعد کی کھلی خلاف ورزی جیسی چیزوں نے مل کر وہ موقع پیدا کیا ہیں جو لوگوں کے لیے تفریح کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ شہرت کے بعد موصوف کرکٹ میچ کے لیے یا کہیں سے مدعو ہونے پر دوسرے علاقوں کے بھی دورے کرتا رہتا ہے جہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو کر بوڈاگے کی پزیرائی کرتے ہیں جبکہ بوڈاگے بھی اپنی دلچسپ باتوں اور حرکتوں سے انہیں محظوظ کر رہا ہے۔
بوڈاگے کی ایک بہت ہی دلچسپ حرکت جو میں نے نوٹ کی ہے، یہ کہ میچ کے دوران مشکل لمحات میں وہ انتہائی "جذباتی” ہو کر حریف کی جانب دوڑتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اب گویا نہیں چھوڑے گا لیکن قریب پہنچ کر خود کو بہت ہی مہارت سے نہ صرف روک لیتا ہے بلکہ مدمقابل کو دباؤ میں لاکر بھی مانوس کرتا ہے۔ میرا خیال ہے وہ نہ صرف نارمل ہے بلکہ کافی حد تک ذہین بھی لیکن سماجی اور معاشی حالات کی ستم ظریفی نے اس کے انداز و اطوار کو ابنارمل بنا دیا ہیں۔ خدا جانے حقیقت کیا ہے میں نے تو بس صرف اپنا ایک احساس ظاہر کیا ہے۔
بوڈاگے اپنے ہی اصول اور شرائط پر کرکٹ کھیلتا ہے، بے قاعدگی کا ٹھیک ٹھاک ارتکاب کر رہا ہے اور ضروری سمجھے تو شور اور گالیوں کے آزادانہ استعمال سے بھی دریغ نہیں کر رہا۔ وہ چھکوں پر چھکے لگائے تو بے انتہا خوش ہوتا ہے لیکن اگر کوئی بال مس ہو جائے تو غصے میں آپے سے باہر ہونا معمول کی بات ہے۔ ضلع دیر نے ابھی تک وہ ایمپائر پیدا نہیں کیا جو بوڈاگے کے دباؤ کا سامنا کر سکے۔ اپنا آؤٹ ہونا تو اسے کسی صورت قبول نہیں۔ وہ میچ کے دوران ہر معاملے میں اپنی مرضی کی پاسداری کو درست کھیل کے لیے ضروری سمجھتا ہے جبکہ مرضی کی خلاف ورزی کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ کرکٹ میں کامران اس کا سخت ترین حریف سمجھا جاتا ہے جبکہ حسین نامی ایک لڑکا بوڈاگے کا سوشل میڈیا منیجر ہے۔
شہرت کا ایک اچھا یا برا اثر یہ لازم سامنے آتا ہے کہ مشہور بندے کی ہر بات یا چیز خواہ بامقصد ہو یا بے مقصد توجہ پا لیتی ہے اور یوں مختلف ذرائع سے اڑ اڑا کر معاشرے میں پھیل جاتی ہیں۔ اس تسلسل میں بوڈاگے کی بھی ہر بات، حرکت اور معمول گرم کیک کی طرح ہر زبان پر رہتی ہے۔ وہ کیا کرتا ہے؟ کیا کھاتا ہے؟ کیسے سوتا ہے؟ کیسا چلتا ہے؟ کیا کہتا ہے؟ کہاں جاتا ہے؟ ہر چیز سمارٹ فون کیمروں کی زد میں اور سوشل میڈیا کے نشانے پر ہوتی ہے۔ یہ رجحان سماجی اور صحافتی آداب کے ٹوٹلی خلاف ہے اس رجحان کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ہر چیز کو معقولیت سے برتنے کا رجحان پیدا ہونا چاہیے تاکہ سماجی آداب اور اخلاقیات کی صحت پر اثر نہ پڑے۔ یوٹیوب چینلز نے ریٹنگ کی دوڑ میں لوگوں کی نجی اور سماجی معاملات کو بری طرح خلط ملط کر کے رکھ دیا ہیں جو کہ ایک افسوس ناک امر ہے ایسا کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔
بوڈاگے جماعت اسلامی کے کئی پروگراموں میں شریک ہوا ہے اور وہ جماعت اسلامی کو باقاعدہ اپنی پارٹی قرار دیتا ہے مزید برآں جماعت کی حمایت میں اب تک سوشل میڈیا پر کئی پیغامات بھی جاری کیے ہیں۔ بوڈاگے بظاہر تو ایک لاابالی سا نوجوان ہے لیکن حقیقت میں دین اور صوم و صلوٰۃ سے بھرپور محبت رکھتا ہے۔ اپنے ایک تازہ انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ "زندگی صرف کھیل کود کی نذر نہیں ہونی چاہیے، دین پر عمل بھی ضروری ہے اور نہ صرف یہ بلکہ دین باقاعدہ قائم بھی ہونا چاہیے”۔
بوڈاگے کی کہانی درحقیقت ہمارے عہد کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ دیکھنا انتہائی المناک ہے کہ ایک شخص جب معاشرے کی توجہ کا مرکز بنتا ہے تو اس کی نجی زندگی، اس کے معمولات اور اس کی کمزوریاں بھی غیر ضروری توجہ کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ ہمارا سماجی مزاج اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ ہم کسی کی تضحیک کو اپنے دن بھر کی تفریح کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں، لیکن اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرتے۔ بوڈاگے کا معاملہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم صرف ایک وقتی اور اضطرابی مظہر’ کو دیکھ رہے ہیں یا اس حقیقی انسان کو بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو غربت اور لاچارگی کی دھوپ میں اپنے خوابوں کے سائے تلے قابل رحم زندگی گزار رہا ہے۔
جدید ذرائع ابلاغ یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز نے اگرچہ معلومات کی ترسیل کو آسان بنایا ہے، لیکن انہوں نے انسانی عظمت اور وقار کا بھی ایک نیا بازار گرم کر دیا ہے۔ بوڈاگے جیسے کرداروں کی مقبولیت درحقیقت ان پلیٹ فارمز کے اس ہوس ناک رجحان کی عکاس ہے جہاں ریٹنگ اور "وائرل” ہونے کی دوڑ نے صحافتی اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کے تمام پیمانے پاش پاش کر دیے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف یہ پلیٹ فارمز اپنی پالیسیوں میں سختی کریں، بلکہ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مواد کو دیکھنے، شیئر کرنے اور پسند کرنے سے پہلے اس کے پیچھے کارفرما اخلاقیات پر ضرور غور کریں۔ کیونکہ ہر وائرل ویڈیو کے پیچھے ایک انسان ہے، جس کے جذبات، مسائل اور احترام کا ہمیں خیال رکھنا ہے۔
بوڈاگے اپنی تمام تر بے باکی کے باوجود دین کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہتا ہے اور کوئی ایسی بات زبان پر کبھی نہیں لاتا جو کہ دینی اعتبار سے قابلِ اعتراض ہو۔ یہ اس کی زندگی میں ایک بہت ہی اچھی بات ہے۔ ایک بندہ مخصوص حال احوال کی ستم ظریفیوں سے خواہ کتنا ہی ذہنی اور جذباتی طور پر متاثر کیوں نہ ہو لیکن اس کا دینی جذبہ بہر صورت توانا رہتا ہے یہ حقیقت، الٰہی دین اور انسانی فطرت کے درمیان موجود آہنی تعلق کو ظاہر کر رہی ہے۔
علاقہ میدان کی سرکردہ سماجی شخصیت، جماعت اسلامی کے مقامی رہنما اور ویلج کونسل مانیال کے ناظم محترم حمیم خان کہتے ہیں!
"نو مہینے پہلے میں لعل قلعہ گراونڈ میں کاغذات نامزدگی جمع کر رہا تھا۔ جب باہر نکلا تو رحید اللہ کھیل رہا تھا، انداز انتہائی جذباتی تھا۔ میں نے دو تین ویڈیوز کئے جس پر بوڈاگی ناراض بھی ہوا کہ ویڈیو نہ کریں۔ پھر جیسے ہی میں نے ان ویڈیوز کو ٹک ٹاک اور فیس بک پر ڈالا تو کل پورا میدان گراؤنڈ کی طرف امڈ آیا اور لوگ دھڑا دھڑ ویڈیوز بنانے لگے لیکن مستقل طور پر بعد میں ویڈیوز حسین کوٹکی بناتا رہا اور بوڈاگی کی شہرت میں سب سے زیادہ ہاتھ میری پہلی ویڈیو کا تھا جس سے لوگوں کی توجہ بوڈاگی کی طرف مبذول ہوئی، بعد میں مستقل طور پر اور بغیر لالچ کے حسین کوٹکی نے ویڈیوز کر کر کے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا ۔۔۔۔
بعد میں کچھ لالچی لوگوں نے بھی اپنی یوٹیوب چینلز کی پروموشن وغیرہ کے لیے اس کا نام استعمال کرتے ہوئے کام کیا لیکن بوڈاگی کی کسی کو فکر نہ ہوئی کہ اس کے لیے اکاؤنٹ کھول کر لوگوں سے اس کی تھوڑی سی مدد کی اپیل تو کریں تاکہ بوڈاگی کم از کم اپنا گھر بنا سکے”۔
آئیے اب مذکورہ انٹرویو کے دو چار سوالات اور جوابات ملاحظہ کرتے ہیں۔
ابراہیم اورکزئی! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔
بوڈاگے: ہم بھی آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے۔
آپ کا اصل نام کیا ہے؟ بوڈاگی نام کیسے پڑ گیا؟ بال سفید ہو گئے ہیں یا اور کوئی وجہ ہے؟
بوڈاگے: اصل نام رحید اللہ ہے۔ والد صاحب پیار سے بوڈاگی کہتے ہیں بس اس نام سے مشہور ہوگیا ہوں۔ کمزور ہوں نہ ہی بال سفید ہو گئے ہیں۔
ابراہیم اورکزئی! آپ کی عمر کیا ہے؟
بوڈاگے: 23 سال۔
ابراہیم اورکزئی! آپ صرف بچوں سے ہی کیوں کھیلتے ہیں، بڑوں سے کیوں نہیں؟
بوڈاگے: میں سب کے ساتھ کھیلتا ہوں تاہم بچوں سے جیتنا آسان ہوتا ہے اور یوں چکھے لگانا بھی۔
ابراہیم اورکزئی! آپ کے والدین حیات ہیں؟
بوڈاگے: جی حیات ہیں۔
ابراہیم اورکزئی! آپ کے دوسرے بھائی بھی ہیں؟
بوڈاگے: جی دوسرے بھائی بھی ہیں۔
ابراہیم اورکزئی! وہ کیا کرتے ہیں؟
بوڈاگے: محنت مزدوری۔
ابراہیم اورکزئی! کھانے میں کیا پسند ہے؟
بوڈاگے: سفید ابلے چاول۔
ابراہیم اورکزئی! غصہ قابو میں ہے یا قابو سے باہر؟
بوڈاگے: پہلے بے قابو تھا لیکن اب کنٹرول کیا ہے۔
ابراہیم اورکزئی! شادی کریں گے؟
بوڈاگے: جی ضرور کروں گا۔
ابراہیم اورکزئی! کب کریں گے؟
بوڈاگے: تین چار سال کے بعد ان شاءاللہ۔
ابراہیم اورکزئی! بیوی میں کیا خصوصیات ہونی چاہئے؟
بوڈاگے: جو ساس سسر کی خدمت کریں اور خاوند کی وفادار رہے۔
ابراہیم اورکزئی! سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟
بوڈاگے: سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ عمرے پر چلا جاؤں۔
بوڈاگے کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو اس کا دینی جذبہ اور اخلاقی احساس ہے۔ وہ اپنی تمام تر جذباتیت اور بے باکی کے باوجود دین کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ اور مثبت سوچ کے حامل ہے۔ اس کا عمرے کی خواہش رکھنا اور بیوی میں ساس سسر کی خدمت اور وفاداری جیسی خوبیاں تلاش کرنا اس بات کی غماز ہے کہ وہ معاشرے کے بنیادی اقدار سے کس قدر جڑا ہوا ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو اسے محض ایک مزاحیہ کردار سے بلند کر کے ایک سنجیدہ، خواب دیکھنے والے اور اچھے انسان کے درجے پر فائز کرتی ہیں۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ تسلی ہے کہ ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار اور دینی تعلیمات نوجوان نسل کی نفسیات میں اس قدر راسخ ہیں کہ وہ شہرت اور نمود و نمائش کے تمام دباؤ کے باوجود اپنے اصل تشخص کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ بوڈاگے محض ایک کھلاڑی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی اور تہذیبی شعور کی ایک جیتی جاگتی علامت ہے۔
بے تحاشہ شہرت کے باوجود بوڈاگے کی غربت بالکل اسی طرح قائم ہے جس طرح گمنامی کے زمانے میں تھی۔ ایک ایسا نوجوان جو لاکھوں لوگوں کے لیے تفریح کا ذریعہ ہے ناگفتہ بہ معاشی حالات میں مسلسل مبتلا رہنا ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اس کی باتوں، کھیلوں اور حرکتوں پر بے ساختہ قہقہے لگاتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انٹرویو کے آخر میں ابراہیم اورکزئی نے لوگوں کو ایک بہت اچھا پیغام دے دیا کہ ہمیں ذہنی، مالی اور سماجی طور پر کمزور لوگوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور انہیں بے وقوف بنانے سے مکمل اجتناب برتنا چاہیے، انہیں تنگ نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ میں مخیر حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عمرے کی ادائیگی میں بوڈاگے کے ساتھ تعاون کریں یہ آپ کو دعائیں دے گا۔
یہ امر باعث مسرت ہے کہ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں مقیم علاقہ میدان کے ایک مخیر فرد کے ذریعے اسے ایک ہوٹل میں جاب مل گئی ہے اب بوڈاگے کام اور زندگی دونوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس طرح چند ماہ قبل گاؤں واپس آ کر دھوم دھام سے شادی کی جس میں بڑی تعداد میں لوگوں اور چاہنے والوں نے شرکت کر کے اس موقع کو خاص بنایا۔ ہم سب انسان اگر حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے بن جائیں تو یقین کریں یہ دنیا خوشی اور سکون کا گہوارہ بن جائے گی اور خدا بھی انسانوں سے راضی ہو جائے گا۔