پشتون ثقافت کا دن اور نوے ژوند تنظیم کی جانب سے منعقد ہونے والی امن ایوارڈ کی تقریب نہ صرف ایک ادبی و ثقافتی لمحہ ہے بلکہ یہ انسانیت، احساس، ہم آہنگی اور شعور کا ایسا آئینہ ہے جس میں ایک روشن اور پرامن معاشرے کی تصویر جھلکتی ہے۔ آج شام چار بجے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس، اسلام آباد کی فضائیں ایک دل آویز منظر کی گواہ بننے جا رہی ہیں وہ لمحہ جہاں فن، ادب، موسیقی، رقص اور انسانی جذبات کا سنگم ہو گا۔ "نوے ژوند” یعنی "نئی زندگی” ایک ادبی، ثقافتی و فلاحی تنظیم ہے جو اس حسین شام کو حقیقت کا روپ دینے جا رہی ہے۔
یہ تقریب رسمی تقاریر یا صرف ایوارڈز کی تقسیم تک محدود نہیں، بلکہ یہ تو ایک جذباتی مکالمہ، فکری ہم آہنگی اور تخلیقی اظہار کا گہرا تجربہ ہو گی۔ یہاں احساس بولے گا، لفظ مہکیں گے، اور انسانیت کی حقیقی خوشبو فضا میں بکھرے گی۔ یہ شام ایک ایسی محفل ہو گی جہاں ہر نظر خواب دیکھے گی، ہر دل تھرک اٹھے گا، اور ہر روح ثقافتی ربط سے تازہ دم ہو جائے گی۔
ملک بھر سے آئے ہوئے شعرا، ادبا، فنکار، مصور، صحافی اور سماجی کارکنان کی خدمات کو سراہا جائے گا۔ ان شخصیات کو امن ایوارڈز سے نوازا جائے گا جو معاشرتی ہم آہنگی، علمی روشنی اور انسان دوستی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں۔ یہ اعزازات صرف ٹرافیاں یا اسناد نہیں بلکہ معاشرتی حسن کا اعتراف، اجتماعی شعور کا جشن، اور ثقافتی وقار کی تجدید ہوں گے۔
اس موقع پر پشتون ثقافت کی رنگین جھلک بھی تقریب کا اہم پہلو ہو گی۔ آج 23 ستمبر کو منایا جانے والا پشتون کلچر ڈے، اس پروگرام کا دل بنے گا۔ اسلام آباد کی اعلیٰ جامعات سے تعلق رکھنے والے نوجوان، پشتون تہذیب، روایات، لباس، موسیقی اور فن کو نئی نسل کے سامنے اس انداز میں پیش کریں گے کہ یہ نہ صرف فخر کا باعث ہو گا بلکہ اپنی ثقافت سے جڑنے کی ایک تازہ خواہش کو بھی جنم دے گا۔ روایتی رقص "اتن” کی گونج، لباس کی ریمپ واک، اور موسیقی کی دھنیں ایک ایسی فضا پیدا کریں گی جو دلوں کو چھو جائے گی۔
آج شام محض ایک تقریب نہیں، یہ ایک مکمل ثقافتی کارنیوال ہو گی جہاں ہر رنگ میں پیغام ہو گا، ہر ساز میں احساس، اور ہر لفظ میں شناخت کی بازگشت۔ ادب، رقص، نغمے، خیالات اور فنون لطیفہ باہم مل کر ایک ایسی تصویر بنائیں گے جو تہذیب، فخر، اور وابستگی کا مظہر ہو گی۔ نوے ژوند تنظیم کی یہ کاوش آنے والے وقتوں کے لیے ایک مثال قائم کرے گی ایسی مثال جو تقریروں سے آگے بڑھ کر دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنے گی۔
اسی تسلسل میں جب ہم پشتون ثقافت پر ایک وسیع نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ دن محض ایک تہوار نہیں بلکہ ایک پوری تہذیبی روح کا جشن محسوس ہوتا ہے۔ یہ دن پشتون قوم کی اُس شاندار تاریخ، غیرت، مہمان نوازی، اور خودداری کی یاد دلاتا ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔
خیبرپختونخوا کے حسین مناظر سے جڑی یہ ثقافت صرف روایتی لباس یا موسیقی کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے ایک ایسا اندازِ فکر جو انسانیت اور فطرت سے ہم آہنگ ہے۔
پشاور، پشتون ثقافت کا دل، آج بھی اپنے مخصوص لب و لہجے، مہمان نوازی، اور پرانی روایتوں کے تسلسل کے ساتھ ایک زندہ اور متحرک شناخت رکھتا ہے۔ بازاروں میں گونجتی پشتو زبان، قہوہ خانوں میں ہونے والی گفتگو، اور پشاوری چپل کی کھنک، سب کچھ ایک مکمل تہذیبی فضا کی علامت ہے۔ قصہ خوانی بازار کے داستان گو، دم پخت اور چپلی کباب کی خوشبو، اور اتن کی تھاپ، پشاور کو ایک ثقافتی شاہکار میں بدل دیتی ہے۔
کوہاٹ اور بنوں، پشتون ثقافت کے وہ گوشے ہیں جہاں روزمرہ زندگی میں روایتوں کا رنگ جھلکتا ہے۔ بنوں کے لب و لہجے میں ایک مخصوص کشش، خواتین کے ملبوسات میں مقامی ہنر، اور کوہاٹ کی چپلوں کی مہارت، ان علاقوں کو ثقافتی نقشہ پر منفرد بناتے ہیں۔ میلوں ٹھیلوں میں گونجتی روایتی موسیقی، مقامی کھانے، اور محاوروں سے بھری گفتگو، ایک ایسی زندہ روایت ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔
سوات وادی اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ تہذیبی لطافت کا بھی نمونہ ہے۔ یہاں کی خواتین کی گندھارا طرز کی کڑھائی، مردوں کا وقار سے بھرپور لباس، اور مقامی لوک گیت، سوات کی نرمی اور محبت بھری ثقافت کو اجاگر کرتے ہیں۔ سیاحت کے ذریعے سوات دنیا بھر میں معروف ہو چکا ہے، مگر یہاں کے لوگ اپنی اصل شناخت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ علم دوستی، شائستگی، اور فنون سے محبت، سوات کے باسیوں کی نمایاں صفات ہیں۔
چترال، بلند پہاڑوں میں بسا ایک دلکش خطہ، اپنی انفرادیت سے بھرپور ثقافتی خزانہ ہے۔ اگرچہ یہاں کی زبان کیل کھوار ہے، لیکن تہذیبی اقدار پشتون ثقافت سے جڑی ہوئی ہیں۔ چترالی ٹوپی، رنگین خواتین کے لباس، ستار اور دمام کی موسیقی، اور قاقلشٹ و کالاش فیسٹیول جیسے مواقع، اس علاقے کو باقی دنیا سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ سادگی، روایت، اور علم دوستی کو زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔
مردان اور چارسدہ، پشتون تاریخ کے ایسے مرکز ہیں جن کے ذروں میں بھی ماضی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ تخت بھائی کے آثار قدیمہ اور گندھارا تہذیب کی جھلک، ان علاقوں کو علمی اور ثقافتی عظمت عطا کرتے ہیں۔ یہاں کی لوک شاعری، دستکاری، اور مہمان داری، پشتونوں کی عظمت اور وقار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان علاقوں کی فضا میں آج بھی علم، ادب، اور فن کی خوشبو رچی بسی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک، اگرچہ جنوب میں واقع ہیں، لیکن ثقافتی طور پر پشتون بیلٹ کے ساتھ گہری جڑت رکھتے ہیں۔ ان علاقوں کا لہجہ، زبان، اور رہن سہن، پشتون شناخت کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ قبائلی میلوں، مقامی گیتوں، اور رقص کی محفلوں میں جھلکتی خوشیاں، یہاں کے تہذیبی رنگوں کو اور نکھار دیتی ہیں۔ جرگہ سسٹم، مہمان نوازی، اور روایتی لباس، یہاں کی پہچان ہیں۔
قبائلی علاقے جیسے باجوڑ، مہمند، اور خیبر، پشتونولی کے حقیقی مظاہر ہیں۔ یہاں عزت، غیرت، اور مہمان داری روزمرہ کا حصہ ہیں۔ ان علاقوں میں قبائلی نظام، روایتی موسیقی، مشاعرے، اور فنون لطیفہ کی جھلک نمایاں ہے۔ شینواری اور آفریدی قبائل کی ثقافت، باجوڑ کی خواتین کی کڑھائی، اور رباب کی دھنیں، ایک گہری تہذیبی جڑت کو ظاہر کرتی ہیں۔
پشتون کلچر ڈے محض ماضی کی یاد نہیں بلکہ یہ تو حال کی شناخت اور مستقبل کی امید کا استعارہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر علاقے کی الگ تہذیبی پہچان، بول چال، لباس، موسیقی اور طرزِ زندگی مل کر ایک جامع، متنوع اور مسلسل بہنے والی ثقافت کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ ثقافت کسی ایک وقت میں محدود نہیں یہ ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی اصل روح کو قائم رکھتی ہے۔ نوجوان نسل کا اپنی تاریخ، زبان، اور اقدار سے جڑنا، اس ورثے کو زندہ رکھنے کی ضمانت ہے۔
پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی پشتون بستے ہیں، وہ اس دن کو اپنی شناخت کے اظہار کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ثقافت صرف ظاہری علامات کا نام نہیں، یہ ایک داخلی احساس، ایک جذباتی رشتہ، اور ایک اجتماعی شعور ہے جو انسان کو اپنی پہچان، تاریخ، اور اصل سے جوڑتا ہے۔ پشتون ثقافت اپنی گہرائی، حسن، تسلسل اور تنوع کے ساتھ نہ صرف قابلِ فخر ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے ایک ایسی زندہ داستان جو مٹی سے جنم لیتی ہے اور دلوں میں بسی رہتی ہے۔