شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور کسی مسیحا کی منتظر

شکارپور میں شیخ ایاز یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو علاقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور لوگ بڑے مطمئن تھے کہ اب ہمارے بچے اپنے شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے، لیکن کئی سال گزر گئے ہیں، حالت سدھرنے کے بجائے ابتر ہوتی جارہی ہے۔

حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کتنے سالوں سے نئی قائم شدہ یونیورسٹی کو وائس چانسلر میسر نہیں، سال /ڈیڑھ سال قبل ڈاکٹر عائشہ عیسانی کو وائس چانسلر مقرر کیا، لیکن انہوں نے پورے عرصے میں چارج لینا گوارا نہیں کیا، اب کسی سیاسی مافیا کی مداخلت تھی یا پھر خود محترمہ کی عدم دلچسپی؟ پھر حکومت کم از کم ان سے پوچھ تو لیتی؟ بعد میں ان کو رخصت کردیا گیا، ہنوز صورتحال یہ ہے کہ کبھی کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اضافی ذمہ داری دی جاتی ہے تو کبھی کسے… بھلا! ایسے بھی ادارے چلتے ہیں کیا؟ یہ بات مسلم ہے کہ عصری جامعات اور اداروں کا قیام ہر معاشرے اور علاقے کے لیے ناگزیر ہے، جہاں سے ایسے افراد تیار ہوکر نکلتے ہیں جو معاشرے کی تقدیر بدلتے ہیں اور ہر شعبۂ زندگی میں قوم کی خدمت کرتے ہیں۔

اس لیے تمام ممالک اور اقوام کوشاں رہتی ہیں کہ ہم ایسے اداروں کی داغ بیل ڈالیں اور پھر ان کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔ زیادہ تر اشرافیہ کی اولاد بھی یہاں پڑھتی ہے اور پھر مملکت کا نظم بھی یہی لوگ چلاتے ہیں، اس لیے ان کی تعلیم و تربیت کا بہترین نظام اشد ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں اسے کاروبار اور دھندہ سمجھا گیا اور دولت کی ہوس اور اقتدار کے نشے نے سارے اقدار چھین لیے ہیں۔

شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور کہنے کو یونیورسٹی ہے، لیکن سہولیات کا فقدان اور ٹیچرز کی کمی، اور اساتذہ کا انتظامی عہدوں پر براجمان ہونا، چند ہی سالوں میں یونیورسٹی کو ہر طرح سے کھوکھلا کرچکا ہے۔ ہر آئے روز طلبہ و طالبات احتجاج کررہے ہیں، جس سے ماحول بہت بگڑ رہا ہے۔

لوگ مطمئن تھے کہ یہاں تعلیم کا چلن ہوگا، ہمارے بچے معیاری تعلیم حاصل کرسکیں گے، لیکن یہ سارے خواب ہی رہے۔

اس وقت تک شیخ ایاز یونیورسٹی کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ ایک مافیا ہے جس کا بڑا زبردست قبضہ ہے، سب کچھ ان کے مرہونِ منت ہے، سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ وہ لوگوں کی آنکھوں میں یہ دھول جھونکنا چاہتے ہیں کہ ہم اداروں کے بانی ہیں اور ہماری وجہ سے یہ ادارے قائم ہوئے، حالانکہ اس نعرے کے پیچھے بڑی تباہی مچائی ہوئی ہے۔

یونیورسٹی کے آغاز میں ہی مسائل، تباہی، مافیاز کی مداخلت اور اساتذہ کی عدم دستیابی، پھر جو موجود ہیں ان کی انتظامی امور میں دلچسپی… تو تعلیم گئی بھاڑ میں۔ یہ حالات ہیں تو نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے