رقص: وہ زبان جسے ہر دل سمجھتا ہے

رقص، جو انسانی وجود کا ایک قدیم ترین اور بسیط ترین اظہاریہ ہے، یہ محض جسمانی حرکات کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ انسانی روح کی پراسرار زبان، جذبوں کی بے ساختہ دھن اور کائناتی توازن کا مرئی اظہار ہے۔ یہ وہ فن ہے جس میں بدن، سانس اور لے کے ملاپ سے ایک ایسی شعری تخلیق وجود میں آتی ہے جو لفظوں کے بغیر پوری کی پوری کہانی سنا دیتی ہے۔ یہ خوشی کے جذبات کا پرجوش طور پر تھرکنا بھی ہے، درد و الم کی گہرائیوں میں اترنے والا ایک سست سلوک بھی، اور محبت کی نزاکتوں بھرا ایک خاموش اعتراف بھی۔ ہر ثقافت کا رقص اس کی تہذیبی روایات، تاریخی سفر اور اجتماعی لاشعور کی ایسی تصویر کشی کرتا ہے جو تاریخ کی کتابوں سے کہیں زیادہ جاندار اور معنی خیز ہے۔ بلاشبہ، رقص زندگی کا مترادف ہے۔ ایک مسلسل حرکت، ایک دائمی ارتعاش، اور ایک ایسی صوفیانہ حقیقت جس میں فرد اپنے محدود وجود سے نکل کر کائنات کی لامحدود وسعتوں کے ساتھ یکجان ہو جاتا ہے۔

رقص خوشی اور جذبات کے اظہار کا ایک ایسا دیرینہ ذریعہ ہے جس نے خود انسان کی فطرت سے جنم لیا ہے۔ اس کے بارے میں کسی نے کسی کو کچھ بتایا نہیں، کسی نے کسی کو کچھ سکھایا نہیں۔ یہ کب ہو ؟ یہ کہاں ہو ؟ یہ کیسے ہو ؟ یہ ساری چیزیں خود انسانی فطرت اور تجربہ طے کر رہے ہیں۔ البتہ کچھ چیزیں اس میں ارادی بھی ہیں اور وہ یہ کہ رقص میں وہاں تک قطعاً نہیں جانا چاہیے کہ جہاں سے فحاشی و عریانی کی سرحد شروع ہوتی ہے کیونکہ انسانی عظمت، عزت، کرامت اور صحت و سلامتی کو سب سے زیادہ اور سب سے تیزی کے ساتھ جو چیز تباہ کر رہی ہے وہ ہے فحاشی و عریانی۔ فحاشی و عریانی میں مبتلا ہو کر بندہ اچھا رہ سکتا ہے نہ سچا، میٹھا ہو سکتا ہے نہ کھرا، بااعتماد بن سکتا ہے نہ سنجیدہ۔

رقص انسانی اظہار کے سب سے قدیم اور عالمگیر طریقوں میں سے ایک ہے۔ قدیم تہذیبوں کی ابتدائی رسومات اور تقریبات سے لے کر آج کے پیچیدہ ترین بیلے پرفارمنس اور متحرک ثقافتی رقص تک، رقص نے انسانی زندگی اور سرگرمیوں میں ایک لازمی کردار ادا کیا ہے۔

رقص کی ابتداء ہزاروں سال پرانی ہے، دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائے جانے والے رقص کے قرینوں اور طریقوں کے ثبوت موجود ہیں۔ اس آرٹ کے بارے میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ رقص کی مختلف شکلوں نے ہزاروں سالوں سے لوگوں کو مسحور اور متاثر کیا ہیں۔ میں نے ایسے افریقی قبائل کے بارے میں دیکھا اور پڑھا ہے کہ جنہیں اور کسی چیز کے بارے میں ہوش نہیں لیکن انہیں ایک عقیدے، ایک کھانے اور ایک رقص کے بارے میں نہ صرف خوب پتہ ہوتا ہے بلکہ اپنے تیئں اس کا بھرپور اہتمام بھی کرتے ہیں۔

رقص منظم جسمانی تحریک کے ذریعے رنگ بہ رنگ جذبات اور ثقافتوں کے لیے ایک مسرت آمیز اظہاریہ ہے۔ قدیم ترین رقص کی شکلیں مذہبی رسومات اور تقریبات کے طور پر ابھری ہیں، جن میں قدیم رقص کے مختلف حرکات و سکنات دیوتاؤں کی تعظیم، اہم واقعات کی یاد منانے اور مختلف ثقافتی روایات کو تقویت دینے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ بہت سے قدیم معاشروں میں، رقص محض تفریح نہیں تھا، بلکہ ایک مقدس عمل جو کہ بنیادی روحانی عقائد اور روایات سے جڑا ہوا تھا۔ رقص میں جسموں کا ہلنا جلنا، ہاتھوں کا پھیلنا اور سکڑنا، سروں کا اٹھانا اور جھکانا، پیروں کا بڑھانا اور کھینچنا، بازوؤں کا لہرانا، یہ سب جسمانی حرکات مقدس اور مبارک ہستیوں کے ساتھ اپنا تعلق نبھانے، روابط استوار کرنے نیز انسانی اور مافوق الفطرت دائروں کو باہم جوڑنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

جیسے جیسے تہذیبوں نے ترقی کی اسی طرح رقص کے فن نے بھی ترقی کی۔ 15ویں صدی کے یورپ (فرانس میں) بیلے جیسی تھیٹری رقص (تیکنیکی مہارتوں سے آراستہ رقص) کی شکلیں ابھریں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیلی، اس میں کہانی سنانے اور فنکارانہ اظہار کے ساتھ باقاعدہ تکنیکی مہارت کو ملایا۔ اس میں موسیقی، لباس اور نقل و حرکت کے ذریعے ثقافتی ورثے اور شناختوں کو محفوظ رکھتے ہوئے، دنیا بھر میں روایتی "لوک رقص” جاری رہے اور 20 ویں صدی میں، رقص ایک ناقابل یقین حد تک جدید، متنوع اور متحرک آرٹ کی شکل میں منظم ہو گیا، جس میں جاز، ہپ ہاپ اور اس سے آگے کی مختلف طرزیں بھی شامل ہیں۔

اس ناقابل یقین جدت اور تنوع کے باوجود، رقص اپنے اصل میں ایک آفاقی زبان بنی ہوئی ہے۔ رقص لوگوں کے لیے اپنے اظہار، دوسروں کے ساتھ جڑنے اور انسانی احساسات کی نہایت گہرائیوں کو دریافت کرنے کا ایک درینہ اور آفاقی طریقہ ہے۔ رقص کے ذریعے، ہم خوشی اور جشن منا، ماتم کر، احتجاج ریکارڈ کر سکتے ہیں اور منظم جسمانی حرکات اور جذباتی احوال کے درمیان بوجہ مسرت بالکل کھو سکتے ہیں، اس اہتمام سے ہمارے جسم، ذہن اور جذبے کو بیک وقت اظہار کا پر مسرت موقع میسر آتا ہے، یہ اظہار کا وہ قرینہ تخلیق کرتا ہے جس سے لفظ قاصر ہوتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے، ہمیں دوسروں سے خوشی، آزادی اور تعلق کا گہرا احساس ہوتا ہے۔

یاد رکھیں کہ رقص اور مسرت کے درمیان تعلق اچھی طرح گہرا اور مسلمہ ہے۔ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ رقص میں مشغول ہونا، جسمانی، دماغی اور جذباتی صحت کے لیے دور رس فوائد رکھتا ہے۔ رقص کی جسمانی حرکات سے وہ غدود جاری ہوتے ہیں جو موڈ کی خوشگواری کو بڑھاتا ہے اور تناؤ کو باقاعدہ کم کرتا ہے۔ رقص کا سماجی پہلو، خاص طور پر گروپ سیٹنگز میں، کمیونٹی کے اندر جاندار تعلق کے احساس کو فروغ ملتا ہے اس کے علاؤہ رقص میں شامل تخلیقی مظاہر لوگوں کو اپنے جذبات اور احساسات کو گہرائی سے ظاہر کرنے کا موقع دیتا ہے۔

سب سے اہم بات خوشی یا اہمیت کے کسی بھی موقع پر، رقص ہمیں ان لمحوں میں مکمل طور پر جذب ہونے کا راستہ دیتا ہے۔ جب ہم رقص کرتے ہیں، تو ہم ماضی کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کے بارے میں بلکہ ہم مکمل طور پر حال میں جذب ہو کر اور سراپا تحریک بن کر گرد و پیش کے ماحول میں پھیل کر اور خوش گوار احساس میں جم کر ڈوب جاتے ہیں۔ رقص کا یہ پہلو مسرت اور اطمینان کو بڑھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ رقص لمحہ بہ لمحہ شادیوں سے لے کر اور تہواروں سے گزر کر گرد و پیش میں مختلف مقامات اور احوال تک پیش قدمی کرتا رہتا ہے۔ ہم صبح و شام مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح رقص سے مزین مواقع میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

یاد رہے کہ رقص کی ثقافتی اہمیت کا پہلو، خوشی کی نسبت سے کہیں زیادہ ہے۔ رقص کو ثقافتی روایات اور شناخت کے تحفظ اور اشتراک کے ذریعے طویل عرصے سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ روایتی رقص اکثر کسی خاص علاقے یا نسلی گروہ کی تاریخ، اقدار اور فنکارانہ صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح، رقص ثقافتی ترسیل و توسیع کے لیے ایک طاقتور ذریعے کے طور پر کام کر رہا ہے، جس سے مختلف کمیونٹیز اپنے منفرد طرز عمل اور نقطہ ہائے نظر کو دوسری برادریوں اور اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔

رقص کو احتجاج، مزاحمت اور اجتماعی اظہار کی ایک شکل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ برسوں غالباً پیرس میں ٹریفک جام میں پھنسے لوگوں نے مل کر بطور احتجاج شاندار رقص کیا اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا۔ جبر اور مصیبت کے دور میں، رقص پسماندہ گروہوں کو اپنی انسانی شناخت اور حقوق پر زور دینے، غلط سماجی ضابطوں کو چیلنج کرنے اور باہمی تعلق اور یک جہتی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنا ہے۔

ذوق ذوق کی بات ہوتی ہے۔ میں ایک پشتون ہوں لیکن مجھے حیرت انگیز طور پر عرب رقص (مردانہ) پسند ہے۔ عرب رقص وقار، تحریک، سلیقے، نفاست، جرات اور صحت مندانہ طرزِ زندگی کا عکاس ہے۔ میں جب بھی یہ ملاحظہ کرتا ہوں بے انتہا مسرت محسوس کرتا ہوں اور رقص کو محض ایک سطحی چیز کے طور پر لینے کے بجائے ایک گہرے تاریخی، سماجی اور ثقافتی عمل کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔

ہر چیز کی طرح رقص کو بھی تمام نامطلوب علتوں سے بچا کر اسے مطلوب اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی حدود تک محدود رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنا ہم سب کے بہترین مفاد میں ہے اور ایسا نہ کرنا بدترین نقصانات کا باعث ہے۔

رقص ایک گہرا اور کثیر جہتی فن ہے جو کہ مسرت اور جذبات سے متعلق انسانی احساسات کو اظہار کا ایک کھلا راستہ دیتا ہے۔ یہ ایک آفاقی زبان ہے جو کہ مختلف سماجی اور ثقافتی دائروں میں، مختلف شکلوں میں رائج ہے، رقص انسانی جذبات کو ان مختلف صورتوں میں ظاہر ہونے دیتا ہے جن سے اظہار کے دوسرے وسیلے قاصر ہیں۔ رقص اظہار مسرت کا ایک انسانی ذریعہ، خوشی منانے کا ایک قدرتی وسیلہ، تعلق نبھانے کا ایک ہمہ جہت قرینہ اور ہاں یہ ذات و احوال کو باہم بغلگیر ہونے کا راستہ دیتا ہے۔

چاہے ہم ایک بیلے پرفارمنس دیکھ رہے ہوں (یاد رہے کہ یہ مخلوط اور فحاشی سے آلودہ ہرگز نہ ہو) یا صرف گیت کی تھاپ پر آگے بڑھ رہے ہوں، رقص ہمیں متحرک ہونے، خوشی محسوس کرنے اور دوسرے لوگوں سے پرجوش انداز میں منسلک ہونے کی طاقت دیتا ہے۔

کوئی مانیں یا نہ مانیں رقص تخلیقی حرکتوں، جسمانی توانائیوں اور دماغی صلاحیتوں کا ایک واضح ثبوت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے