خدا کا انسان سے مطالبہ معجزاتی تناظر میں

خدا کے انسان سے مطالبے کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے انسان سے اپنی بندگی طلب کی ہے، غلامی طلب کی ہے، جسے عبادت کے جامع عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کے پاس ممکنہ طور پر جو کچھ اپنا سرمایہ ہے، وہ عاجزی اور بے بسی ہے، کیونکہ وہ اس دنیا میں مخلوق کی حیثیت سے ہے، اور مخلوق کی عاجزی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے لیے بھی خالق کا محتاج ہے۔ خالق اسے تخلیق نہ کرے تو اس کا نام و نشان ہی نہ رہے۔
خدا نے انسان سے جو کچھ طلب کیا ہے، اسے اگر جامع الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں بحیثیت مخلوق زندگی بسر کرے، جبکہ مخلوق ہونے کے ناطے اس کے پاس محض عاجزی ہے، اور خدا نے اس سے اسی عاجزی کا مطالبہ کیا ہے، جس کو اس طرح بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے انسان سے عبادت کا مطالبہ کیا ہے جبکہ عبادت یعنی اطاعت وہ کرتا ہے جو کمزور ہو، مرتبے میں کم تر ہو، محتاج ہو، اور مطاع (جس کی اطاعت کی جائے) وہ ہوتا ہے جو صاحبِ اقتدار ہو، طاقتور ہو، مرتبے میں بلند ہو، خود کسی کا محتاج نہ ہو بلکہ لوگ اس کے محتاج ہوں،

اطاعت سے روگردانی پر مواخذہ کرنے کی صفات کا حامل ہو، ایسا دانا اور حکیم ہو کہ اطاعت کرنے والے کو اس کے اطاعت کے مطالبے میں اپنی طاقت و استطاعت سے باہر کچھ بھی محسوس نہ ہو، ایسا علیم و خبیر ہو کہ وہ اطاعت کرنے والے کی تمام ضروریات، احساسات، رجحانات، صلاحیتوں، کمزوریوں اور اختیارات سے مکمل طور پر آگاہ ہو، ایسا مالک ہو جو اطاعت کے جزا پر قادر ہو، ایسا مالک، قادر، بے نیاز، سخی، منصف ہو جو اپنے اطاعت گزار کو اطاعت گزاری پر جزا دینے کے مطلوبہ اسباب کسی سے مانگتا نہ ہو، بلکہ عدل کی بنیاد پر اطاعت گزاری کا جو صلہ بھی بنتا ہو، وہ اپنے مطیع کو بلا روک ٹوک دیتا ہو اور اس کی اس عطا میں کوئی حائل نہ ہو سکتا ہو۔

وہ ایسا داتا ہو جو اپنے مطیع کو وہ بھی عطا کرتا ہو جس کا وہ حقدار نہیں ہوتا۔ وہ ایسا رحیم، کریم اور شفیق ہو جو اپنے مطیع سے اطاعت میں کمزوری صادر ہونے کی صورت میں معاف کرتا ہو۔ وہ ایسا مختار، بادشاہ اور حاکم ہو کہ جس ماحول میں وہ مطیع سے اپنا مطالبہ پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہو، اس ماحول کے متعلقات کی نوعیت بھی اس کے رعایا کی ہو، تاکہ اگر کبھی اس کے اطاعت گزار کو مطلوبہ اطاعت گزاری میں کوئی رکاوٹ پیش آئے تو وہ بحیثیت مختار، حاکم اور بادشاہ، اس کی اطاعت گزاری میں خلل ڈالنے والے سے پوچھ سکتا ہو۔

اگر پوچھنے پر بھی وہ باز نہ آئے، تو وہ اپنے حاکمانہ اور شاہانہ اختیار سے رکاوٹ پیدا کرنے والے کے ہاتھ کو روک بھی سکتا ہو اور توڑ بھی سکتا ہو۔وہ ایسا قادرِ مطلق ہو کہ جس ماحول میں اپنی اطاعت گزاری کا مطالبہ کرتا ہو، اس میں اطاعت کے لیے مطلوبہ درکار مواقع بھی اس معقول توازن سے پیدا کر سکتا ہو، جو توازن اطاعت گزاری کا فطری تقاضا بنتا ہو۔ وہ ایسا مقدر، مقرر کرنے والا، مدبر، کامل منتظم، اور عدل کے ساتھ اپنی مطالبے پر عمل درآمد کے لیے مطلوبہ نظام وضع کرنے والا ہو کہ اس کے مطالبے میں اور اس پر عمل کرنے میں کمال کی حد تک ایسا توازن ہو کہ مطیع کو خود محسوس ہو کہ مطاع نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے، وہ میری شخصیت، صلاحیت اور استطاعت کے عین مطابق ہے۔

وہ ایسا کمال باریک بین اور کمال توازن پیدا کرنے والا ہو کہ اطاعت گزار کو اس کی اطاعت کے پورے ڈھانچے میں ذرہ برابر بھی افراط و تفریط نظر نہ آئے، بلکہ مطیع کو وہ ڈھانچہ عین اپنی ساخت، فطرت، نوعیت اور حیثیت کے مطابق لگے۔ صرف لگے نہیں بلکہ واقعہ میں وہ ڈھانچہ مذکورہ وصف سے متصف بھی ہو۔ وہ ایسی وسیع ظرف کی حامل ہستی ہو جو مطیع سے اطاعت کے دوران ہونے والی کوتاہیوں کو نظر انداز کرتا ہو۔

وہ ایسی تسخیری قوتوں کی حامل ہستی ہو کہ اطاعت کے لیے درکار ایسے اسباب، جو مطیع کے بس سے باہر ہوں، وہ اسباب اپنی یکتا تسخیری قوت کی صفت کے ذریعے مطیع کے لیے خود مسخر کرتا ہو۔ وہ ایسا ولی (کامل مددگار) ہو کہ اطاعت گزاری کے دوران پیش آنے والے ہر قسم کے حوادث اور حالات میں اپنے مطیع کی غیر معمولی مدد کرنے پر قادر ہو اور ایسا عزیز ہو کہ اس کی مدد میں کوئی مزاحم بھی نہ بن سکے۔

وہ ایسا حفیظ ہو کہ اطاعت گزاری کے راستے میں آنے والے خطرات کے لیے اگر مطیع کی جمع کی گئی پوری قوت کافی نہ ہو، تو وہ اپنی طرف سے خطرات کے اس ماحول کا نقشہ ایسا بدل دے کہ اس میں وہ اپنے بے بس اور قوت میں کمزور مطیع کو مدِ مقابل خطرات کے لیے درکار قوت سے بھی بڑھ کر قوت عطا کرے۔

وہ ہر شے کے ایسے وسیع اور لامحدود خزانوں کا مالک ہو کہ اپنے مطیع کو دینے کے لیے اس کے پاس سب کچھ ہو— وہ بھی جو اس کے مطیع کے لیے ضروری ہونا معلوم ہو، اور وہ بھی جو اس کے مطیع کے علم میں نہ ہو لیکن اس کی ضرورت ہو۔ وہ ایسا کامل عالم ہو جو پوری باریک بینی کے ساتھ جانتا ہو کہ مطیع جس چیز کو مانگ رہا ہے، وہ اس کی حقیقی ضرورت ہے بھی یا نہیں، اور اگر ہے تو وہ اس کی فوری ضرورت ہے یا آئندہ وقت میں اس کی ضرورت بنے گی۔ عطا کرنے میں اتنا تیز ہو کہ جونہی مطیع کی ضرورت کا فطری تقاضا سامنے آئے، وہ اسی وقت اس کی ضرورت کو بلا کسی تاخیر پورا کرنے پر قادر ہو اور اپنی اس قدرت کی صفت کی بنا پر اپنے مطیع کی ضرورت کو پورا کرنے والا بھی ہو۔

وہ ایسی دامنِ رحمت کا حامل ہو جو اتنا وسیع اور بے کنار ہو کہ اس کے باغیوں کے لیے بھی اس نے حصہ مقرر کیا ہو، اگرچہ ان کی بغاوت نے ان کے محرومی کے لیے مکمل سامان مہیا کر دیا ہو۔ وہ ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے پاک ہو، کہ اس کی طرف سے ہر کسی کو انصاف ملنے کا اطمینان ہو۔ وہ ان تمام عیوب سے پاک ہو جو کسی کی بے جا طرفداری کا سبب بنتے ہوں۔ اس کے ہاں انعام رشتہ داری، قوم، برادری، ذاتیات کی بنیاد پر نہ ملتا ہو بلکہ تمام انسانوں کے لیے اس کے انعام کے مستحق بننے کا ایک ہی معیار ہو، جس پر جو بھی پورا اترے، وہ اس کے انعام کا مستحق بنے۔

وہ ایسا حلیم و بردبار ہو کہ سرکش سے سرکش باغی کو بھی مہلت دیتا ہو۔ وہ قادرِ مطلق، مختارِ کل، شہنشاہ، مالک، صاحبِ طاقت و اقتدار ہونے کے باوجود اپنی رحمت و کرم کو ہر چیز پر غالب رکھتا ہو، اور اپنی اس رحمت و لطف کی بنا پر اس باغی اور عاصی کو بھی اپنی اطاعت میں آنے سے منع نہ کرتا ہو، جس نے زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کی مخالفت اور بغاوت میں گزارا ہو۔

اس کی ہستی کی اطاعت کا تصور اتنا عام اور وسیع ہو کہ اس میں بلا تفریق ہر کسی کو داخل ہونے کا پورا پورا حق ہو۔ وہ ایسا حکیم ہو کہ اس کی ہر بات میں کمال درجے کی حکمت ہو تاکہ کسی نقصان کے خوف اور اندیشے کے بغیر اس کی باتوں کو مانا جائے۔ وہ بے نیاز ہونے کے باوجود اپنے اطاعت گزاروں کو مختلف طریقوں سے اپنی محبت کا احساس دلاتا ہو۔ بے نیاز ہونے کے باوجود وہ مختلف حالات کے ذریعے اپنے اطاعت گزاروں کو خوف دلاتا ہو تاکہ یہ محبت اور خوف ان کے اطاعت گزاروں کے لیے اطاعت گزاری میں مدد دے سکیں۔

وہ بے نیاز ہونے کے باوجود اپنے کلام کے ذریعے اپنی محبت کو نرمی میں محسوس کراتا ہو، اپنے مطالبوں کے اظہار میں شفقت کا عنصر رکھتا ہو۔ بے نیاز ہوتے ہوئے بھی اپنے تعلیمات کے مرتب کرنے میں ایسا دلکش اور مدلل انداز اختیار کرتا ہو تاکہ مخاطب کو اس کا مطالبہ یقین، اطمینان اور عقیدت کی حد تک سمجھ میں آ جائے۔ بے نیاز ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی تعلیمات میں ایسی عقلی، تاریخی اور عملی زندگی سے ہم آہنگ مثالیں بیان کرتا ہو کہ ان کی اطاعت سے روگردانی کے برے انجام سے ڈرایا جا سکے، تاکہ یہی محبت، خوف اور اس کی تعلیمات پر اطمینان کی حد تک یقین مخاطب کو نفسیاتی طور پر اس کی اطاعت گزاری کے لیے تیار کرے۔

وہ ایسا ہو کہ جس سے مطالبہ کرتا ہو، اس کے رگ رگ سے کمال حد تک واقفیت رکھتا ہو، اور یہ تب ممکن ہے جب وہ خالق ہو، تاکہ تخلیق اور مطالبے میں توازن رہے، جس کے بغیر اطاعت ممکن نہیں۔ وہ ایسا ہو کہ ایک لحظہ بھی اپنے اطاعت گزاروں کے حالات سے غافل نہ ہو تاکہ وہ اطاعت گزاری کے رویوں پر نظر رکھ سکے۔ وہ ایسا سمیع اور بصیر ہو جو ہر جگہ، ہر آن اور ہر حالت میں اطاعت گزاروں کو سن اور دیکھ سکے۔

وہ ایسا ہو کہ کسی کا خوف اس کے پاس نہ ہو اور نہ ہی کسی چیز کے انجام سے ڈرتا ہو تاکہ اس کا ہر حکم اور بات بیرونی اثرات سے پاک رہے۔ وہ ایسا ہو کہ اطاعت گزاری کے درکار ممکنہ نفسیات بنا سکتا ہو تاکہ اطاعت گزار کو اطاعت گزاری میں اس کے نفسیات بھی ساتھ دیں۔ وہ ایسا ہو کہ انسان سے اپنے مطالبے میں ایسا طریقہ کار اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہو جس سے اس کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں اور ساتھ ساتھ اطاعت کا حق بھی ادا ہوتا رہے۔

وہ ایسا ہو کہ اس کی اطاعت گزاری اختیاری نہ ہو بلکہ محض ایک ہی حق ہو۔ وہ ایسا ہو کہ اپنے اطاعت گزار کے ماضی، حال اور مستقبل سے کامل واقف ہو۔ وہ ایسا ہو کہ اپنی اطاعت کی آسانی اور تکمیل کی خاطر اطاعت کے لیے اطاعت گزاروں کے سامنے ان ہی کی طرح کمال کی اطاعت کا نمونہ پیش کرتا ہو تاکہ اطاعت کے لیے عملی طور پر اطاعت گزاروں کو تیار کیا جا سکے۔

وہ ایسا ہو کہ اپنے مطالبے کی آخری حد کو واضح طور پر متعین کرے تاکہ اس کے مطالبے پر آخری حد تک عمل درآمد ممکن ہو سکے۔ وہ ایسا ہو کہ اپنے اطاعت گزاروں کی اطاعت کی استطاعت کے بارے میں فرداً فرداً جانتا ہو اور اپنے تمام مطالبات میں ہر ایک کی اطاعت کی استطاعت کا لحاظ رکھتا ہو۔ اس کا مطالبہ محدود ہو کیونکہ اطاعت گزار بہرحال محدود وسائل کے حامل ہوتے ہیں۔

وہ ایسا ہو کہ اپنے مطالبے کے سمجھانے کے لیے اس کے طریقۂ تفہیم میں ہر وہ ممکنہ طریقہ شامل ہو جو اس کے اطاعت گزاروں میں موجود مختلف ذہنی صلاحیتوں کے حاملین کے لیے جاننا ممکن ہو سکے۔ وہ ایسا ہو کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کی آزادی کے فطری رجحان کے لیے اپنے مطالبے میں مکمل اور متوازن منصوبہ رکھتا ہو۔ وہ ایسا ہو کہ اس کے سامنے جھکنا تذلیل نہ ہو بلکہ کمال کی تکمیل ہو۔

وہ ایسا ہو کہ جس کی طرح کسی بھی لحاظ سے کوئی دوسرا نہ ہو تاکہ اطاعت گزاروں کی ہر مدعا اسی سے پوری ہوتی رہے، اور نتیجتاً اطاعت خالصتاً اسی کے لیے ہو جائے۔ وہ ایسا ہو کہ اگر کسی کو اپنے بندوں میں مطاع کے اختیارات سے نوازے تو وہ مطاع مطلق نہ بنے بلکہ ان کی اطاعت حقیقی مطاع مطلق کے تابع ہو۔زمین پر نظام چلانے کے لیے جن کو اختیارات دیتا ہو اس کے سامنے وہ حدیں واضح طور پر متعین کرے، جن سے باہر جانے کے بعد وہ خود اپنے اختیار کو غیر مؤثر بنا دیتا ہو۔

وہ ایسا ہو کہ اپنے مطیع کے اضطراب کی کیفیت سے باخبر ہو جس میں وہ اضطرار کی بنا پر اطاعت سے قاصر ہوتا ہو۔ وہ ایسا ہو جو مطیع کی اطاعت کے اندرونی دلی رجحانات اور محرکات سے واقف ہو تاکہ اسے اطاعت گزار پر عاصی، باغی یا فرمانبردار ہونے کا حکم لگانے میں کوئی تردد اور شک نہ ہو، کیونکہ ظاہر کے ساتھ باطن کی واقفیت نہ ہو تو حکم لگانے میں تردد سے نہیں بچا جا سکتا، جبکہ مطاعِ مطلق ایسا ہو ہی نہیں سکتا جو تردد سے پاک نہ ہو۔

وہ ایسا ہو جو انسان کی ناگزیر ضروریات کو پورا کرنے پر قدغن نہ لگاتا ہو بلکہ اپنی اطاعت کے اندر ہی انسان کو اس کی ناگزیر ضروریات پورا کرنے کی پوری پوری گنجائش دیتا ہو تاکہ اطاعت کے مطالبے کو عین اس کی فطرت کے دائرے میں مقید رکھا جا سکے۔ کیونکہ وہ مطاعِ مطلق ہو ہی نہیں سکتا جو اپنے مطیع سے کسی غیر فطری اطاعت کا مطالبہ کرے، جس کے نتیجے میں وہ بغاوت پر آمادہ ہو جائے۔

یہ وہ معیار ہے جس کو بنیاد بنا کر انسانی عقل کسی کے مطاعِ مطلق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگرچہ ان صفات کے علاوہ مطاعِ مطلق کے بے شمار دیگر صفات بھی ہیں، مگر چونکہ مذکورہ بالا صفات انسانی عقل کے لیے اس معنی میں کافی اور مکمل ہیں، جن کی بنیاد پر وہ کسی کو مطاعِ مطلق تسلیم کرے یا اس کا انکار کرے، ہم نے یہاں مطاعِ مطلق کی پہچان کے معیار کو اسی معنی میں لیا ہے۔

دنیا میں جس کی اطاعت کی جاتی ہو یا وہ اطاعت کا مطالبہ کرتا ہو، تاریخ انسانی میں اطاعت طلب کرنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس نے محض دعوے یا جھوٹ کی حد تک ہی یہ کہا ہو کہ جو مذکورہ بالا ناگزیر اور ضروری صفات ہم نے مطاع کے اطاعت کے لیے بیان کی ہیں، ان کے حامل ہونے کی کسی نے اپنی طرف نسبت کی ہو۔ چونکہ مطاع مطلق کے لیے ان صفات کا حامل ہونا ضروری ہے اور جن سے اطاعت کا مطالبہ کیا جائے، انہیں اپنا یہی تعارف سمجھانا بھی ہوتا ہے، تو جب کسی نے اپنی اطاعت کے لیے نہ مطلوبہ صفات کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اپنی اطاعت کے مطالبے میں اپنا ایسا تعارف کرایا جو اطاعت کے لیے ضروری ہے، تو مطاع لوگوں کا یہ رویہ بذات خود ان کے مطاع مطلق ہونے کا انکار ہے اور وہ خود اپنی اس حیثیت کی تردید کرتے ہیں۔

ان میں اگرچہ بعض نامور فلسفی بھی گزرے ہیں اور اپنے فلسفے کو وقت کی ناگزیر ضرورت کے طور پر بھی پیش کیا ہے، مگر کئی ایک کو بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ میری اطاعت کے ناگزیر ہونے کے لیے تو یہ یہ صفات درکار ہیں اور ان درکار صفات کا تو میری شخصیت میں شائبہ تک نہیں۔ اور وہ اس غلط فہمی یا گھمنڈ میں پڑے رہے کہ چونکہ ہمیں دیگر انسانوں سے تین چار لفظ زیادہ آتے ہیں تو انہیں ہماری اطاعت کرنی چاہیے۔ اور اطاعت کی نوعیت بھی بعینہٖ ویسی ہی ہو جو ان تمام صفات کی بنا پر کی جاتی ہو جو مطاع بننے کے لیے ضروری ہیں۔

اور اگر کوئی ہماری اطاعت کے مطالبے سے نکلا تو اس کا یہ رویہ بغاوت تصور کیا جائے گا، جو کہ واجب القتل ہو جاتا ہے، اور ایسے باغیوں کو انہوں نے قتل بھی کیا، جیسے کمیونسٹوں نے روس میں لاکھوں لوگوں کو محض اطاعت سے اختلاف رکھنے کی بنا پر قتل کیا۔ انہوں نے عملاً اس مطلق العنان رویے کے باوجود کبھی زبان سے بھی ان صفات کا اظہار نہیں کیا جو مطاع مطلق کے رویے کے اختیار کرنے کے لیے مطلوب ہوتے ہیں۔ان کا زبان سے اظہار نہ کرنا اس معنی میں نہیں تھا کہ ان کی زبانوں پر کسی نے تالے لگا دیے تھے، بلکہ انہیں ان کی حیثیت، ساخت اور محدودیت اس اظہار کی اجازت نہیں دے رہی تھی، یعنی وہ اپنے عملی آمرانہ رویے کے باطل ہونے کا اپنے دلوں میں اقرار کر رہے تھے، کیونکہ ان کے اس اختیار کردہ رویے کے خلاف ان کی اپنی حیثیتیں، ساختیں اور حدیں گواہ تھیں۔

دنیا کے سامنے یہ دعویٰ صرف خدا کی طرف سے آیا کہ وہ مطاع مطلق کے لیے درکار تمام صفات سے لامحدود حد تک متصف ہے، اور اس دعوے کے ثبوت کے لیے انسانوں کے انفس اور ماحول میں بے شمار نشانیاں پھیلا دیں، اور اپنے مطاع مطلق ہونے کی تفہیم کے لیے انسانوں میں سے افضل ترین لوگوں کا انتخاب کیا، جو عقل، سیرت، دانشمندی، سچائی، شرافت اور حکمت وغیرہ، ہر لحاظ سے قابلِ اعتماد تھے۔ ان حضرات نے انسانوں کو ٹھیک ٹھیک ان کے نفسیات میں موجود مطاع مطلق کے تصور اور مطاع مطلق کے لیے درکار صفات کی نشاندہی کی، اور جس نے بھی عدل کے ساتھ اور عدل کی نیت سے ان کی بات کو سنا، اس نے نہ صرف ان کی بات مانی بلکہ وہ ان کے مشن میں باقاعدہ طور پر معاون بن گیا۔

خدا کے ان بندوں نے زمین والوں کو پیغام دیا کہ اطاعت اس کی کرو جو اطاعت گزاری کے لائق ہو، اور ان کی اطاعت نہ کرو جو خود بزبانِ حال و قال چیخ چیخ کر پکار رہے ہوں کہ ہمیں مطاع مطلق بننے کی ہوا تک بھی نہیں لگی ہے۔ انہوں نے انسانوں کو بتایا کہ تمہاری یہ اطاعت صلے کے لیے ہے، محتاج ہونے کی وجہ سے ہے، کسی بصیر، سمیع، منتقم، صاحبِ اقتدار، صاحبِ جزا و سزا سے خوف اور امید کی وجہ سے ہے، اس معنی میں کوئی بھی تمہاری اطاعت کے لائق نہیں، ماسواۓ خدا کے۔

لہٰذا تم کہو اور مانو کہ "لا الہ الا اللہ”، حقیقی مطاع مطلق سے جُڑ جاؤ گے، خود ساختہ طور پر مطاع مطلق بننے والوں کی بےجا اطاعت سے خلاصی پاؤ گے، اپنی حاجات پیش کرنے اور پورا کرنے کا ٹھکانہ پاؤ گے، ایسا سہارا پاؤ گے جو تم سے کبھی گم نہیں ہوگا، ایسا محبوب پاؤ گے جس کی طرف سے تمہیں کبھی بے وفائی کا اندیشہ نہ ہوگا، ایسا حامی پاؤ گے جو موت کے بعد بھی تمہارے ساتھ رہے گا، ایسا مطاع پاؤ گے جس کی اطاعت میں عزت پاؤ گے، ایسا مطاع پاؤ گے جو تمہارے دلوں کو اطمینان سے بھر دے گا، الغرض مکمل منزل پاؤ گے، مکمل کامیابی پاؤ گے، اور آوارہ و بے راہ نہیں رہو گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے