اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے حال ہی میں ایک نیا یونٹ بنایا ہے جسے "لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل” کہا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر عوامی پوسٹس کو اسکین کر کے یہ دیکھنا ہے کہ کسی کا طرزِ زندگی اس کی آمدنی کے ذرائع سے میل کھاتا ہے یا نہیں۔ ڈان اور جنگ جیسے معتبر اخبارات نے اس خبر کو 24 اور 25 ستمبر کو شائع کیا۔ رپورٹس کے مطابق اس سیل میں چالیس سے زائد افسران شامل ہیں جو مواد کے اسکرین شاٹس اور شواہد جمع کر کے ایک مرکزی ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں۔

یہ خبر بظاہر سننے میں اچھی لگتی ہے کہ حکومت نے بالآخر ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے جدید ذرائع استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس کا ہدف انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ کیا یہ سیل صرف ان چھوٹے موٹے ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو پکڑنے کے لیے بنایا گیا ہے جو کسی گاؤں یا قصبے میں موبائل فون کے ساتھ ویڈیوز بنا کر کچھ پیسے کما لیتے ہیں؟ یہ لوگ اکثر پڑھے لکھے نہیں ہوتے؛ ان پڑھ ہوتے ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔

ملک کے اندر سرکاری نوکریوں پر ہمیشہ بین لگا رہا ہے، سفارش نہ ہو تو دروازے بند ہیں، اور اکثریت کے لیے مواقع صفر ہیں۔ اگر بدقسمتی سے کسی نے تعلیم حاصل کر بھی لی تو سرکاری نوکری کا خواب خواب ہی رہتا ہے۔ سفارش نہیں، رشوت دینے کی طاقت نہیں اور جنہیں نوکریاں ملتی ہیں وہ پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں، کن کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسے میں اگر کوئی نوجوان فرسٹریٹ ہو کر چوری کرنے کے بجائے، موبائل سنیچنگ کرنے کے بجائے، یوٹیوب پر ویڈیو بنا لیتا ہے اور کچھ ڈالر کما لیتا ہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟

پیسہ بہرحال اسی ملک کی معیشت میں گردش کر رہا ہے۔ کیا ریاست اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی؟ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ایک شخص نے جرم کے بجائے محنت کا راستہ اختیار کیا، آپ فوراً اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، اس کی لائف اسٹائل کی ویڈیوز کے ساتھ اس کی آمدنی میچ کر کے اسے رگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے؟

اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ ایسے سیل بنا کر فوری کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ صلاحیت کہاں کہاں استعمال ہوتی ہے؟ بڑے بڑے مسائل شہروں کے اندر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بڑے نیوز چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز —جن کے مالکان وزراء اور سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھکیں لگاتے ہیں، خوش گپیاں کرتے ہیں اور تعلقات بناتے ہیں۔ ان کے خلاف تو آج تک کوئی سیل نہیں بنایا گیا۔ مبینہ طور پر 90 فیصد نیوز چینلز میں اسٹاف کو دو، تین مہینے سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ کیپیٹل ٹی وی اس کی سب سے بڑی مثال ہے، جو 2013 میں لانچ ہوا اور آج تک اپنے ملازمین کے کئی لاکھ روپے واجب الادا رکھتا ہے۔

ان کے خلاف کوئی سیل کیوں نہیں بنا؟ کیا اس لیے کہ اس کے مالک کے والد ایف آئی اے میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے اور وہ زرداری صاحب کے دوست رہے؟ کیا یہی معیار ہے۔سیل بنانے کا اور لوگوں کو پکڑنے کا؟

پرائیویٹ سیکٹر کے بڑے بڑے مگرمچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں آتے۔ آپ عام آدمی کے گھروں میں گھس کر جیبیں ٹٹولتے ہیں، لائف اسٹائل چیک کرتے ہیں اور ویڈیوز کے ذریعے اندازے لگاتے ہیں۔ شوق سے کیجیے، لیکن انصاف بھی کیجیے۔ انصاف صرف کمزور کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے؛ پورے ملک میں ایک جیسا ہونا چاہیے۔ لوگوں کو ذہنی طور پر اتنا ٹارچر مت کریں کہ وہ بے بسی میں دیواروں کے ساتھ سر ٹکرا کر پاش پاش کرنے لگیں۔ ایسا سلوک مت کریں کہ اپنے ہی ملک میں اپنے اپ کو محصور سمجھنے لگیں، اپنے ہی ملک میں وہ قیدی بن کر رہنے لگیں، اپنے ہی ملک میں وہ ازادی کا سکھ اور سکون کا سانس لینے کو ترس جائیں۔

اگر ایک پڑھا لکھا آدمی چار پیسے کماتا ہے تو وہ ان کا استعمال ڈھنگ سے کرے گا، لیکن ایک ان پڑھ آدمی یا وہ شخص جس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اچھی زندگی نہیں دیکھی، جب اس کے ہاتھ میں پیسہ آئے گا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے نمائش میں اڑائے گا اور بے دریغ خرچ کرے گا۔ یہ ایک انسانی کمزوری ہے، لیکن اس کمزوری کو جواز بنا کر پورے طبقے کو نشانہ بنانا انصاف نہیں۔ ریاست نے آج تک لوگوں کو وہ مواقع مہیا نہیں کیے کہ وہ عزت سے روزگار سو کما سکیں۔ اور اگر بین الاقوامی پلیٹ فارم انہیں یہ موقع دیتے ہیں تو بجائے ان کی حوصلہ افزائی کے، ان پر شک کی تلوار چلائی جاتی ہے۔ اس کے بجائے آپ کو اس پر توجہ دینی چائیے کہ اچھا کانٹینٹ بنانے میں ان کی تربیت اور اصلاح کی جائے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کانٹینٹ غیر اخلاقی اور واہیات نہ ہو۔ لیکن کوئی ننگا ہوکر ویڈیو بنائے اس پر ہماری حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں۔

نواز شریف نے کتنا ٹیکس دیا، زرداری نے کتنا دیا، مریم نواز نے کتنا دیا، باقی سیاستدانوں نے کیا ادا کیا۔ آپ کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ھے۔ ان کے گھر دیکھیں تو اینٹیک گاڑیوں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں؛ بعض گھروں میں 25، 30 یا 40 جدید ماڈل گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ ان کا لائف اسٹائل اور ان کا پیڈ ٹیکس آپس میں میل نہیں کھاتا۔ وہاں آپ کے پر جلتے ہیں اور آپ کے سیل خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک عام آدمی اپنے یوٹیوب چینل سے دو پیسے کما لے تو آپ اس کی جیبیں ٹٹولنے لگا جاتے ھیں۔ یہ ناانصافی کب تک چلے گی؟ کب تک آپ اس قوم کو رگڑتے رہیں گے؟ کب تک آپ اسے گرائنڈر میں پیستے رہیں گے؟ کب تک آپ اس کا جوس نکالتے رہیں گے؟

آپ کو احتساب کرنا ہے؟ ضرور کیجئے ، شوق سے کیجئے لیکن سب کا کیجیے۔ اگر آپ کو سیل بنانا ہے تو سب کے لیے بنائیے۔ اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو اسے کمزوروں پر آزما کر نہ دکھائیے—اسے طاقتوروں کی طرف موڑ دیجیے۔ عام آدمی کو رگڑنے کے بجائے بڑے بڑے مگرمچھوں کو قابو میں لائیے۔ بصورتِ دیگر یہ قوم مزید بے بسی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گی، اور یہ احساسِ محرومی اتنا بڑھ جائے گا کہ لوگ اپنے ہی وطن کو جیل سمجھنے لگیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے