جرمنی اور سندھ کے علمی و تاریخی روابط گہرے ہیں۔ تین جرمن شخصیات نے سندھ کی تاریخ پر نمایاں خدمات انجام دیں: ارنیسٹ ٹرمپ (جنہوں نے سب سے پہلے "شاہ جو رسالو” کو جرمنی سے طبع کرایا)، ایلسا قاضی (سندھ یونیورسٹی کے بانی علامہ آئی آئی قاضی کی اہلیہ) اور ڈاکٹر آئن میری شمل، جنہوں نے مختلف پہلوؤں سے سندھ اور اس کی تاریخ پر تحقیق کی۔
ڈاکٹر این میری شمل جرمنی کی نامور مستشرقہ اور اسلامی علوم کی ماہر تھیں۔ ان کی ولادت 7 اپریل 1922ء کو جرمنی کے شہر ایرفُرٹ میں ہوئی۔ انہوں نے نوعمری ہی میں عربی سیکھ لی اور صرف 20 برس کی عمر میں اسلامیات میں ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ بعد ازاں ترک، فارسی اور اردو پر بھی گہری دسترس حاصل کی۔ اس کے علاوہ سندھی، سرائیکی اور پنجابی زبانیں بھی جانتی تھی۔
پچاس سے زائد کتابوں کی مصنفہ اور سیکڑوں تحقیقی مضامین کی خالق تھیں۔ ان کی تحقیق کا خاص میدان تصوف اور برصغیر کی تہذیب تھا۔ وہ متعدد یورپی و ایشیائی جامعات میں تدریسی فرائض انجام دیتی رہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور اقبال پر ان کی علمی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ پاکستان نے انہیں "ہلالِ امتیاز” اور "ستارۂ امتیاز” سے نوازا۔
معروف ادیب غلام ربانی آگرو کی روایت کے مطابق، ترک مسلمان سے شادی کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرکے اپنا نام جمیلہ رکھا۔
تصوف سے گہری دلچسپی کے باعث انہیں مولانا جلال الدین رومی، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور علامہ اقبال سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ انہوں نے ان کے فکر و فن پر گراں قدر تحقیقی کام کیا۔
سندھ سے ان کی بے پناہ محبت تھی، اپنی کتابوں میں اسے "میری سندھ” کہہ کر یاد کرتی تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمیں ایک کتاب History of the World پڑھائی جاتی تھی، جس میں شاہ بھٹائی کا ذکر تھا۔ یہی ان کی سندھ شناسی کا نقطہ آغاز بنا اور پھر سندھ ان کا عشق ہوگیا۔
پیر حسام الدین راشدی کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ سندھ شناسی میں راشدی صاحب کا بڑا کردار رہا۔ تاریخی مقامات اور شخصیات سے آگہی کے ساتھ ساتھ اس علمی دوستی نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ:وفات کے بعد میری قبر سندھ میں راشدی صاحب کے ساتھ بنائی جائے، تاہم یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔
وہ شاہ بھٹائی سے حد درجہ متاثر تھیں۔ اسی لیے ان کی شاعری کے منتخب حصے کا جرمن زبان میں ترجمہ شائع کیا۔ اس کے علاوہ سندھی ادب، لوک ورثہ، سچل سرمست، بیدل اور شاہ عنایت پر بھی تحقیقی مقالات انگریزی و جرمن زبان میں لکھے۔
تاریخ سندھ اور شخصیاتِ سندھ پر ان کے مضامین کا مجموعہ Pearls from the Indus کے عنوان سے سندھی ادبی بورڈ نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کے افسانوں کا ترجمہ بھی کیا، جو "پاکستان کے منتخب افسانے”میں چھپے ہیں۔ ہندوستانی ادبیات میں سندھی ادب کا حصہ ان کی تحقیق اور قلم کا مرہون منت ہے۔
غلام ربانی آگرو کے ساتھ بھی ان کے علمی روابط تھے۔ انہوں نے سندھی میں انہیں خطوط لکھے، جو معروف جریدے "گل ڦل” میں شائع ہوئے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے مطالعاتی سفر میں بھی آگرو صاحب ان کے ہمراہ رہے اور تمام انتظامات انہی کے ذریعے انجام پاتے۔
یہ معروف مستشرقہ اور محققہ جنوری 2003ء میں وفات پا گئیں۔ ان کی قبر پر لگے کتبے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ کند ہیں:
"الناس نيام فإذا ماتوا انتبهوا”
ترجمہ: لوگ سوئے ہوئے ہیں، جب موت آئے گی، تو جاگ اٹھتے ہیں۔