شخصیت سے تحریک تک: روخانہ وزیر کا سفر، نوے ژوند ایوارڈ، امن کا پیغام

23 ستمبر 2025: میری زندگی کا سب سے حسین، خوبصورت اور یادگار دن… وہ دن جب برسوں پر محیط خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ میرا یہ پختہ یقین اور عقیدہ ہے کہ جو لوگ خلوصِ دل سے محنت کرتے ہیں، وہ کبھی بھی ناکام یا مایوس نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اے بندے، تُو حرکت کر، میں برکت ڈالوں گا۔” بس، میں نے بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے دن رات محنت کی، طرح طرح کی مشکلات برداشت کیں، مگر ہار نہیں مانی۔ مجھے یقین تھا کہ ایک دن ضرور سرخرو ہوں گی، اور آج وہ دن میرے سامنے ہے میرے خواب کی تعبیر، میرے حوصلے کی جیت۔

جس راستے کا انتخاب میں نے کیا، وہ کانٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر مجھے علم تھا کہ روشنی تک پہنچنے کے لیے اندھیروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مجھے میرے اپنے رشتہ داروں، قریبی لوگوں کی طرف سے کبھی وہ عزت نہیں ملی جس کی مجھے آرزو تھی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مجھے علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، اور میں معاشرے کی فرسودہ روایات کے خلاف اسلام کی روشنی میں حق اور سچ کی آواز بلند کر رہی تھی۔ یہی "جرم” مجھے ہر موقع پر ذلت، تشدد اور الزام کا نشانہ بناتا رہا۔ لیکن میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ مجھے یقین تھا کہ میں اپنے مشن میں ایک دن کامیاب ہو جاؤں گی۔

شدید مخالفت کے باوجود میں نے میٹرک میں داخلہ لیا۔ یہ سفر آسان نہیں تھا۔ قدم اٹھانے سے پہلے میں نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے وہ چیزیں خریدیں جو انسان کے آخری وقت میں کام آتی ہیں اور ایک وصیت نامہ لکھا، جو آج تک میرے کمرے کی دیوار پر آویزاں ہے۔ میں ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ان ہی حالات میں میٹرک کے بعد ایف اے کا امتحان پاس کیا، اور ملازمت کا آغاز کیا۔ مگر یہ ملازمت بھی میری مشکلات میں اضافے کا سبب بنی۔ روزانہ گھر میں لڑائی جھگڑے، اور بھائی کے ہاتھوں تشدد معمول بن گیا۔ پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔

اسی طرح بی اے کے وقت بھی میرے حالات نہایت تلخ رہے۔ وہ دو سال میری زندگی کے بدترین یادگار سال تھے، جن کے زخم آج بھی میرے دل و جان پر نقش ہیں۔ اسی طرح پھر میں نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کا آغاز کیا، مگر یہ بات اپنے خاندان سے چھپا کر رکھی۔ دو سال تک کسی کو علم نہ ہو سکا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ جب آخری سمسٹر کا آخری پرچہ رہ گیا، میرے والد نے تمام دروازے کو تالا لگا دیا اور حجرے میں ایک چوکیدار کو بیٹھا دیا۔ یہ بات جان لیں کہ ہمارے خاندان میں خواتین پردہ کرتی ہیں اور حجرے والے علاقے میں جانا منع ہے۔ مگر میرے سامنے فیصلہ کن لمحہ تھا اگر وہ پرچہ نہ دیتی، تو میرے دو سال کی محنت ضائع ہو جاتے۔ چنانچہ میں نے ہمت کی، چوکیدار کو دھوکہ دے کر نکل گئی۔ وہ میرے والد کو فون کر چکا تھا، مگر تب تک میں گلی سے نکل چکی تھی۔ میں نے سکون اور اطمینان سے پرچہ مکمل کیا کیونکہ دل میں یہ یقین تھا کہ اگر آج میری زندگی کا آخری دن بھی ہے، تب بھی میں اس امتحان سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔

مزید برآں، آج تک یہ راز صرف دو لوگوں کو معلوم تھا، مگر اب میں چاہتی ہوں کہ سب کو معلوم ہو میں نے ملازمت اپنی ذاتی خواہشات کے لیے نہیں، بلکہ معاشرے کے غریب، بے سہارا، اور محتاج لوگوں کی مدد کے لیے کی تھی۔ ڈیوٹی کے دوران بھوکی رہتی تھی، پاؤں میں پھٹے جوتے، پیسے بچانے کے لیے پیدل گھنٹوں سفر، اپنی بہن کے پرانے کپڑے پہنے۔ پانچ سال تک کوئی نیا سوٹ نہیں خریدا۔ تنخواہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی طالبات کے لیے اسائنمنٹس لکھتی، لوگوں کے کپڑے سیتی، اور یہ تمام رقم مستحق لوگوں میں تقسیم کرتی تھی۔

میرے دل میں ہمیشہ یہ خواہش تھی کہ کسی ایسی تنظیم سے وابستہ ہو جاؤں جو انسانیت کی خدمت کرے۔ 2021 سے میں اردو اور پشتو زبانوں میں مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھ رہی ہوں۔ میرے استاد محترم نے مجھے مشورہ دیا کہ سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بک پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ چنانچہ میں نے لکھنا شروع کیا۔ کبھی کبھار نسیم مندوخیل صاحب میرے کالمز پر کمنٹ کرتے، لیکن مجھے اندازہ نہ تھا کہ کوئی میری تحریروں کو اس حد تک محسوس کر رہا ہے۔

پھر وہ لمحہ آیا جس نے میری زندگی کو ایک نئی سمت دی۔ 8 اگست 2025 کو مجھے ایک وائس میسج موصول ہوا، جس میں چیئرمین نسیم مندوخیل صاحب نے کہا:
نوے ژوند (یعنی نئی زندگی) تنظیم کے تمام ممبران نے متفقہ طور پر آپ کو بطور پریس سیکرٹری منتخب کیا ہے۔ کیا آپ کو یہ عہدہ منظور ہے؟

میرے ہوش اُڑ گئے۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ایک پل کو لگا جیسے کوئی مذاق کر رہا ہے۔ دوبارہ پیغام آیا، تو میں نے ہاں کر دی، اور ساتھ عرض کیا کہ:
آپ لوگ اتنا بڑا عہدہ مجھے سونپ رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ لوگوں کے معیار پر پورا نہ اتر سکوں۔
جواب میں کہا گیا:
ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، سکھا دیں گے، سمجھا دیں گے۔

یہ الفاظ اس بات کا ثبوت تھے کہ نوے ژوند تنظیم خواتین کی ترقی، حوصلہ افزائی اور حقوق کے لیے کتنی سرگرم ہے۔ میں نے دل سے کام کرنا شروع کیا۔ خوش نصیبی یہ ہے کہ اس تنظیم کے تمام ممبران اعلیٰ اخلاق، حسنِ سلوک اور جذبہ خدمت رکھنے والے ہیں۔

اب تک میں نوے ژوند کے لیے چودہ رپورٹس اور تحریریں لکھ چکی ہوں، اور ہر بار بھرپور حوصلہ افزائی حاصل ہوئی۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک نیا خاندان عطا فرمایا ہے۔ اس باعزت خاندان کے معزز اراکین کچھ یوں ہیں:

چیئرمین: نسیم مندوخیل
سینیئر وائس چیئرمین: راج خان مروت
وائس چیئرمین: ایڈوکیٹ بخت بیدار
وائس چیئرمین: محمد طارق اخونخیل
جنرل سیکرٹری: خان زیب محسود
جوائنٹ سیکرٹری: نور نائب خٹک
کلچر سیکرٹری: عظیم خان وطنیار
سیکرٹری لیٹریچر و لینگویج: ڈاکٹر فاروق انجم
ڈپٹی کلچر سیکرٹری: اجمل عزیز
میڈیا کوریج: دانیال طارق
ڈپٹی جوائنٹ سیکرٹری: تنزیل یوسفزئی
افسر سیکرٹری: حیات خان خٹک
سٹوڈنٹ ممبر: رحیم گل مندوخیل
چائلڈ ایمبیسڈر: تانیہ مسکان مندوخیل

ان سب کی طرف سے ایمانداری اور خلوصِ نیت سے کام کرنے پر مجھے "سرور خٹک ایوارڈ” اور "اجمل خٹک سرٹیفیکیٹ” سے نوازا گیا۔ یہ میرے لیے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ ایک اور قابلِ فخر لمحہ وہ تھا جب محترمہ بشریٰ فروخ صاحبہ نے 1500 سالہ جشنِ ولادت النبیﷺ کے موقع پر، خیبر پختونخوا کی معروف تنظیم "کارواں خوالٹریری فورم” کی جانب سے نوے ژوند تنظیم کے تمام ممبران کو بہترین کارکردگی پر میڈلز سے نوازا۔

میں، روخانہ رحیم وزیر، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نوے ژوند ادبی، ثقافتی و فلاحی تنظیم کے تمام ممبران کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ آپ سب کی محبت، خلوص، رہنمائی اور اعتماد نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں اپنی صلاحیتوں کو پہچان سکوں اور معاشرے کے سامنے اپنی کہانی بے خوف ہو کر بیان کر سکوں۔

میری یہ کامیابی صرف میری نہیں، یہ ہر اُس لڑکی کی کامیابی ہے جسے کبھی تعلیم سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی، ہر اُس بیٹی کی جیت ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا، اور ہر اُس عورت کی آواز ہے جو آج بھی ظلم، خاموشی اور مایوسی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔آج میں سر اُٹھا کر کہہ سکتی ہوں: میں نے ہار نہیں مانی، میں جھکی نہیں، میں رکی نہیں۔

میں چاہتی ہوں کہ میری کہانی سن کر کوئی اور لڑکی ہمت پکڑے، وہ اپنی تقدیر کو خود تراشنے کا عزم کرے، اور یہ جان لے کہ تعلیم، شعور، اور خودداری کسی کی میراث نہیں یہ ہر انسان کا حق ہے۔

اب ذرا نوے ژوند کے چوتھے امن ایوارڈ، اجمل خٹک بابا کی صد سالہ سالگرہ، پشتون کلچر ڈے اور گرینڈ نائٹ میوزک کی تفصیل کی جانب چلتے ہیں۔ یہ تقریبات نہ صرف ثقافت، امن اور محبت کا پیغام لیے ہوئے ہیں بلکہ ہر فرد کی محنت، مہارت اور دلجمعی نے انہیں ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔ اس پروگرام نے ہمارے ثقافتی ورثے کی عکاسی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں امن، بھائی چارے اور یکجہتی کے جذبے کو بھی فروغ دیا ہے، جو کہ آج کے دور میں نہایت ضروری ہے۔ نوے ژوند کی یہ کاوش ہمارے معاشرتی و ثقافتی ترقی کا روشن باب ہے، جہاں ادب، موسیقی اور ثقافت کے حسین امتزاج نے ہمیں اپنے روایتی تشخص سے روشناس کرایا۔

ادبی، سماجی اور ثقافتی تنظیم "نوے ژوند” اسلام آباد کی زیرِ اہتمام 23 ستمبر 2025 کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد کے ہال میں چوتھے امن ایوارڈ کی مناسبت سے ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت سابقہ سینیٹر اور دانشور جناب افراء سیاب خٹک نے بخوبی انجام دی۔ ملک بھر سے ادیب، دانشور، صحافی، فنکار اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے اس پروگرام میں شرکت کی، جس نے محفل کو علمی اور ثقافتی رنگینوں سے مزین کر دیا۔ مہمان خصوصی پروفیسر اسلم تاثیر،
سابق وفاقی وزیر ملک عظمت خان اور پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے چیئرمین ملک حبیب اورکزئی کی موجودگی نے اس محفل کی شان میں مزید اضافہ کیا، جبکہ ڈاکٹر حنیف خلیل، ڈاکٹر طارق دانش، اقبال حسین افکار، ڈاکٹر عالم یوسفزئی، فضل مومند، ڈاکٹر اقبال شاکر، سیدہ حسینہ گل، قمر یوسفزئی، حبیب اورکزئی، وحید الرحمان ضیاء، وارث خان نایاب، حساس یوسفزئی اور سید معصوم شاہ جیسے معززین نے اعزازی حیثیت سے شرکت کر کے اس تقریب کو یادگار بنا دیا۔

تقریب کا آغاز چھوٹی بچی تانیہ مسکان مندوخیل کی خوبصورت تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس نے محفل کو روحانی سکون بخشا۔ نظامت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر فاروق انجم، خان زیب محسود، نورین شمع، وصال خلیل اور تنظیم کے چیئرمین جناب نسیم مندوخیل نے مشترکہ طور پر انجام دیے، جنہوں نے ہر لمحہ تقریب کو شاندار انداز میں آگے بڑھایا۔ وائس چیئرمین جناب راج مروت نے مختصر لیکن جامع الفاظ میں دور دراز سے تشریف لانے والے مہمانوں کو دل سے خوش آمدید کہا۔ نسیم مندوخیل نے اپنے خطاب میں نوے ژوند کی ادبی، سماجی اور ثقافتی خدمات کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اس تنظیم کے تمام عہدیدار اور ممبران محنتی اور مخلص لوگ ہیں، جن کی کاوشوں کی بدولت آج ہم چوتھا امن ایوارڈ منا رہے ہیں۔ اس موقع پر تنظیم کی کارکردگی پر مشتمل ایک مختصر ویڈیو بھی دکھائی گئی، جس نے تمام حاضرین کو تنظیم کی خدمات سے روشناس کرایا۔

تقریب میں ایک دل دہلا دینے والا پہلو معروف شاعر، ادیب، کالم نگار اور صحافی روخان یوسفزئی کی کتاب کی تقریب رونمائی کا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ ان کے کینسر میں مبتلا بیٹے کی ویڈیو بھی دکھائی گئی، جس نے حاضرین کے دلوں کو گہرائیوں تک متاثر کیا۔ اس موقع پر مہمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ روخان یوسفزئی کی کتاب "روشنی کا گھر” جو باہر اسٹال پر پانچ سو روپے میں دستیاب ہے، خرید کر ان کی مدد کریں تاکہ مصنف کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور وہ اس مشکل وقت میں حوصلہ پائیں۔

اس کے بعد اجمل خٹک مرحوم کی پیدائش کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹا گیا اور ڈاکٹر عالم یوسفزئی نے اپنی مخصوص انداز میں مرحوم شاعر کی نظم کا فیصلہ سنائی، جسے حاضرین نے بھرپور داد دی۔

پروفیسر نورالامین یوسفزئی نے پشتون اور پشتون کلچر کے موضوع پر اردو میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کلچر اور ثقافت ہر زمانے میں تبدیلی کا شکار ہوتے ہیں، مگر وہ قومیں تاریخ میں زندہ رہتی ہیں جو اپنی ثقافت کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ادبی تنظیموں اور مختلف ادبی شخصیات کو خصوصی ایوارڈز سے نوازا گیا، جو کہ باچا خان، خان شہید عبدالصمد، اجمل خٹک اور سرور خٹک جیسے نامور شخصیات کے ناموں سے منسوب تھے۔ ان ایوارڈز میں بونیر کے اس مشہور واقعے کے عمائدین کو بھی شامل کیا گیا، جہاں دو بھائیوں کے بیٹوں کے درمیان قتل کا واقعہ ہوا تھا مگر مقامی بزرگان کی کوششوں سے راضی نامہ کرایا گیا تھا، جسے حوصلہ افزائی کے طور پر ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ادبی تنظیموں میں اباسین ادبی ٹولنہ کوہاٹ، خوئیندو ادبی لشکر پشاور، روح اللہ درانی پشتو ادبی و ثقافتی جرگہ نوشہرہ، اور ادب پال ملگری چارسدہ کے نمائندوں کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز دیے گئے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر شخصیات کو ادبی اور تحقیقی کتابوں پر ان کی نمایاں خدمات کے لیے ایوارڈز سے نوازا گیا، جن میں اقرار افریدی، عائشہ مہر افریدی، ڈاکٹر طارق محمود دانش اور دیگر شامل تھے۔ اسی محفل میں نوے ژوند کی طرف سے چھوٹی بچی تانیہ مسکان مندوخیل کو پروفیسر نورالامین اور جناب افراء سیاب خٹک نے چائلڈ ایمبسڈر کا بیج لگا کر اس کی محنت اور صلاحیت کو سراہا گیا۔ اباسین ادبی ٹولنہ کوہاٹ کی ڈپٹی رابطہ سیکرٹری، شاعرہ اور مصورہ محترمہ آرزو خان افریدی کو نوے ژوند کے چیئرمین نسیم مندوخیل کا ہاتھ کا بنا ہوا اسکیچ پیش کیا گیا، جس پر انہوں نے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

تقریب کے دوران محفل میں رونق اور گرماہٹ کا انتظام بھی کمال کا تھا۔ راج مروت اور ان کے ساتھیوں نے وقفے وقفے سے گیت اور نظمیں پیش کیں، جنہوں نے حاضرین کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس محفل کی رونق میں اضافہ کیا۔ آخر میں صدر محفل جناب افراء سیاب خٹک نے تنظیم کی شاندار کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نوے ژوند کی خدمات باچا خان کے افکار کے مطابق خواتین کو تعلیم دینے اور ان کے حقوق کے لیے ایک نمایاں کوشش ہے۔ انہوں نے خاص طور پر کہا کہ آج یہاں موجود میری بہنیں اور بیٹیاں بطور شاعر، ادیب، فنکار اور مصنفہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہی ترقی کی علامت ہے۔

یہ پروقار تقریب شام پانچ بجے شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہی، جس میں دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کے قیام اور طعام کا بھی بھرپور انتظام کیا گیا تھا۔ اس تمام محفل میں محبت، بھائی چارے اور امن کا جو پیغام دیا گیا، وہ نہ صرف ہمارے معاشرتی کلچر کی مضبوطی کی علامت ہے بلکہ خواتین کی ترقی اور ان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنے والا بھی ہے۔ جب میں اپنی زندگی کی اس کامیابی کو یاد کرتی ہوں تو دل میں شکرگزاری اور امید کے پھول کھل اٹھتے ہیں۔ ہر کٹھن مرحلہ مجھے مضبوط اور پختہ بناتا گیا، اور آج میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ محنت، ایمان اور حوصلے سے ہر خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔

یہ سفر محض میری ذاتی کامیابی نہیں یہ ہر اس خاتون کے لیے مشعل راہ ہے جو زندگی کی مشکلات کے باوجود اپنے مقصد کی جانب ثابت قدمی سے گامزن ہے۔ میں اپنے پیارے قارئین سے اپیل کرتی ہوں کہ خواتین کو آگے بڑھنے دیا جائے، ان کی عزت کی جائے اور ہر میدان میں ان کا سہارا بنایا جائے تاکہ وہ بھی اپنی روشنی سے دنیا کو روشن کر سکیں۔ میں نوے ژوند کی تمام ممبران کو کامیاب پروگرام پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ایک بار پھر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں جن کی محبت، اخلاق اور تعاون نے مجھے ایک روشنی کی مانند جگایا ہے۔ یہ پیغام ہر معاشرے کو دینا چاہتی ہوں کہ خواتین کی قدر و منزلت ضروری ہے کیونکہ خواتین کے بغیر کسی قوم کی ترقی ممکن نہیں۔

اللہ تعالیٰ اس تنظیم کو کامیاب کرے، جو خلوصِ دل سے دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے