ذمہ دار ہونا ہی قابلِ اعتماد ہونے کی ضمانت ہے ؛سیرتِ پاک کی روشنی میں ایک جائزہ

حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا منصب اس بات کا متقاضی تھا کہ ان پر دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ کیا جائے اور اسی اعتماد اور بھروسے کی بنا پر انہیں حق اور باطل کا معیار مانا جائے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب کا تقاضا تھا کہ آپ کے ہر قول اور فعل کو ادنیٰ سے ادنیٰ شائبے سے بھی پاک اور مبرا مانا جائے۔

ہم جب اس سوال پر منطقی لحاظ سے سوچتے ہیں کہ وہ کون سی خوبی ہے جو انسان کو قابلِ اعتماد بناتی ہے تو تتبع کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو شخص جتنا زیادہ اپنی ذمہ داری کے لحاظ سے حساس اور محتاط ہوتا ہے، لوگوں کی نظروں میں وہ اتنا ہی زیادہ قابلِ بھروسہ ہوتا ہے۔

یعنی یہ انسان کا ذمہ دارانہ رویہ ہی طے کرتا ہے کہ وہ کتنا قابلِ اعتماد ہے۔

اسی تناظر میں جب ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جسے آپ نے اپنی اوپر عائد شدہ ذمہ داری کے علاوہ گزارا ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذمہ داری کا جامع عنوان "رسالت” ہے جو آپ پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی تھی۔ آپ کی اس ذمہ داری میں دعوت، تعلیمِ کتاب و حکمت، تزکیۂ نفوس و نظام، اظہارِ دین، اتمامِ اخلاقِ حسنہ اور اکمالِ دین شامل تھے۔

آپ کی زندگی کے مطالعے سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہوتی ہے کہ آپ نے جو بولا، کیا، نہیں کیا، خاموشی اختیار کی، حتیٰ کہ جو سوچا، یہ سب کچھ مذکورہ ذمہ داریوں میں سے کسی نہ کسی کے لیے تھا۔

آپ کے اس غیر معمولی ذمہ دارانہ رویے کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذمہ داری کے حوالے سے اتنی حساسیت کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ خدا نے اپنے کلام میں آپ کو مخاطب ہو کر فرمایا:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّـفۡسَكَ عَلٰٓى اٰثَارِهِمۡ اِنۡ لَّمۡ يُؤۡمِنُوۡا بِهٰذَا الۡحَـدِيۡثِ اَسَفًا ۞
ترجمہ:
"اچھا، تو اے نبی، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔”

غور کا مقام ہے کہ خدا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر جو ذمہ داری ڈالی ہے، آپ اس حوالے سے اس قدر حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو سخت مشقت میں ڈالتے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو اس ذمہ داری کے حوالے سے اس قسم کی مشقت اور تکلیف اٹھانے سے منع فرماتے ہیں۔

کمال یہ ہے کہ جس نے ذمہ داری لگائی ہے وہ ظاہر و باطن سب کچھ جاننے والا، لطیف، خبیر، سمیع اور بصیر ہے، وہ خود آپ کے ذمہ دار ہونے پر اپنے کلام میں مہر ثبت فرما رہا ہے۔ یہ گواہی کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ یہ معاملہ اس ذات کے ساتھ ہے جسے نیند نہیں آتی، جو ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے خدا کی اس گواہی کا ما سواے اس کے کوئی اور مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کو بحیثیت ذمہ دار انسان بے مثال مقام حاصل ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمہ دار ہونے کے بارے میں قرآن حکیم کی یہ گواہی بھی اپنے اندر سمندر کی گہرائی جتنی معنویت رکھتی ہے کہ خدا نے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی معاملے میں سہولت (edge) بھی دی تو وہ آپ کی ذات کے لیے نہیں بلکہ منصبِ رسالت کی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دی۔ قرآن حکیم میں جہاں آپ کو عام مومنوں سے زیادہ بیویاں رکھنے اور بیویوں کے حقوق کے حوالے سے سہولت دی گئی، تو اس کے بعد فوراً یہ فرمایا گیا کہ اس سہولت کا مقصد یہ ہے کہ آپ پر فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں تنگی نہ رہے۔

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ الّٰتِىۡۤ اٰتَيۡتَ اُجُوۡرَهُنَّ وَمَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ… لِكَيۡلَا يَكُوۡنَ عَلَيۡكَ حَرَجٌ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞
ترجمہ:
"اے نبی ﷺ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں، اور تمہاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے۔ یہ رعایت خالصتاً تمہارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں۔ تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔”

اس سلسلے میں اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ گواہی بھی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ غور کیا جائے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ انسانی احساسات ہوتے ہوئے بھی کوئی اس قدر وسیع ظرف کا حامل ہو کہ اسے انسانوں کی طرف سے ہر قسم کی تکلیف دی جائے مگر پھر بھی وہ انتقام جیسے فطری جذبے سے ایک لمحہ کے لیے بھی مرعوب نہ ہو۔ آپ کا یہ غیر معمولی رویہ خود اس بات کے لیے کافی دلیل ہے کہ آپ کی پوری زندگی ذمہ داری نبھانے سے عبارت تھی۔

اس ضمن میں ان لاکھوں اور ہزاروں لوگوں کی گواہی کو بھی دیکھیں جنہوں نے آپ کو براہِ راست دیکھا، جن کے سامنے آپ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کے حکم کے مطابق پبلک رہا۔

حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ذکر فرما کر صحابہ کرام سے پوچھا کہ قیامت کے دن جب تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو کیا جواب دو گے؟

صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا، امانت ادا کر دی، اور خیر خواہی کا حق پورا کیا۔

یہ سن کر آپ نے فرمایا: "اے اللہ! گواہ رہ، اے اللہ! گواہ رہ۔”

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اے اللہ! آپ نے اپنے بندوں کے حوالے سے جو ذمہ داری مجھ پر عائد کی تھی اسے میں ادا کر چکا اور اس پر آپ کے بندوں نے خود گواہی دی جس کا تو شاہد ہے۔

خدا کے کلام اور خدا کے بندوں کے علاوہ آپ کو جو ذمہ داری ملی تھی اس کی کماحقہ ادائیگی پر آپ کا جسمِ مبارک بھی گواہ ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے آپ کی داڑھی مبارک میں سفید بالوں کو دیکھ کر عرض کیا کہ بوڑھاپا آپ کی طرف تیزی سے آ رہا ہے تو آپ نے فرمایا کہ "مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا۔”

عبداللہ بن عباس کے مطابق سورہ ہود کا "فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” یعنی "پس تم استقامت اختیار کرو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے”، یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نہایت شاق گزرا۔ غور کیا جائے کہ اس حکم میں ایسا خاص کیا ہے جس کے اثرات حضور پاک کے جسمِ اطہر پر ظاہر ہوئے۔ دراصل حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے اپنے بندوں کے لیے رول ماڈل بنایا تھا، آپ کا پھسلنا پوری انسانیت کا پھسلنا تھا۔ اس لیے آپ نے جو قدم بھی رکھا پھونک پھونک کر رکھا۔ آپ کی پوری زندگی "فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” کا عملی مصداق رہی۔ اور یہی احتیاط آپ کی ذمہ داری کا تقاضا تھا۔

قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ لطیف، باریک بین، علیم، سمیع اور خبیر ذات آپ کو "فاستقم کما امرت” کا حکم دے رہی ہے اور وہی ذات آپ کی طرف سے یہ گواہی بھی دے رہی ہے کہ:
قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ
ترجمہ:
"کہہ دو: یہ میرے اختیار میں نہیں کہ میں اس (قرآن) کو اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔”

اس آیت میں یہ گواہی خدا دے رہا ہے کہ نبی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی نہیں کرتے بلکہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں خدا کی طرف سے حکم ملتا ہے۔

یعنی نبی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نبی اسے کماحقہ ادا بھی کرتے ہیں۔

آخر میں جب حضور پاک ﷺ اس عظیم مشن کی تکمیل کرتے ہیں جس کے لیے خدا نے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا اور اللہ پاک خود اپنے کلام میں اس کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو حکم دیتے ہیں:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
ترجمہ: تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے، بے شک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

غور کریں، حضور پاک ﷺ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیتے ہیں، اس کے باوجود اللہ ہی کی تسبیح، تمحید اور استغفار کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ اے اللہ! یہ جو کچھ ہوا یہ تیری سبحان ذات ہی کی پشت پناہی کے باعث ہوا، تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ تیری مدد اور نصرت نہ ہوتی تو بحیثیت بشر یہ عظیم کام کرنا ممکن نہ تھا، اور بشر کی حیثیت سے میرا جو وظیفہ ہونا چاہیے، جو رویہ ہونا چاہیے اور جو مجھے زیب دیتا ہے، وہ یہی ہے کہ میں اپنے بشر ہونے کے اعتراف میں آپ کے دربار میں توبہ و استغفار کروں۔

قارئین! اس عظیم کارنامے کو دیکھیں جو آپ ﷺ نے سرانجام دیا اور انتساب کو دیکھیں کہ آپ ﷺ اس کارنامے کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اسے خدا ہی کی تائید اور نصرت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اللہ نے یہاں حضور پاک ﷺ کو جو حکم دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے پوری زندگی ذمہ دار کی حیثیت سے گزاری۔ اپنی ذات کے لیے آپ ﷺ نے نہ کبھی کچھ بولا اور نہ ہی کچھ کیا۔ ورنہ انسانوں میں کس کا اتنا بڑا ظرف ہے کہ وہ کوئی کارنامہ سرانجام دے اور اس کا کوئی کریڈٹ نہ لے۔

ابتداء ہی میں ہم نے عرض کیا تھا کہ جو شخص جس قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی قدر وہ قابلِ اعتماد اور قابلِ بھروسہ ٹھہرتا ہے۔ اسی اصول کے تناظر میں دیکھا جائے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم ہی وہ واحد ہستی ہیں جن پر کامل اعتماد اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذمہ داری کی ادائیگی ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ کی بات کو محض مانا نہ جائے بلکہ اس پر ایمان لایا جائے۔

جس شخص کے دل میں ذرا بھی عدل ہو وہ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہر قول اور فعل کو سچ اور حق مانا جائے، اور آپ کے ہر قول و فعل کو سچ اور حق پرکھنے کا معیار قرار دیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے