کچھ عرصہ قبل معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ برادرم طاہر خان کی دعوت پر سعودی عرب کے سفیر عزت مآب نواف بن سعید المالکی نے اسلام آباد میں اس کے ریسٹورنٹ کا دورہ کر کے اس سے باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر دلچسپ انداز میں گپ شپ کی اور موقع پر موجود لوگوں کے ساتھ بھی گھل مل گئے۔ اس موقع پر پر تکلف ضیافت کا اہتمام ہؤا تھا جس میں عرب اور پشتون ثقافت کی عکاسی کرنے والے پکوان خوبصورتی سے سجائے ہوئے تھے۔ محترم سفیر کو طاہر خان نے ریسٹورنٹ کے مختلف حصوں کا تفصیلی معائنہ بھی کرایا اور نہایت خوشگوار موڈ میں مختلف سماجی اور ثقافتی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ میرا خیال ہے سفارت کاری کی سب سے خوبصورت، دیرپا اور پراثر شکل عوامی ہے۔ اسلامی دنیا کو چاہیے کہ وہ اسی طرح باہم عوامی سفارت کاری کو فروغ دیں تاکہ برادر اسلامی ممالک کے درمیان موجود تعلقات کے خاطر خواہ نتائج، اثرات اور جذبات کو عمومی اور سماجی سطح پر پھیلنے کا موقع میسر آسکے۔
سفارت کاری سیاسی عمل کی وہ جادوئی طاقت ہے جس سے ملک ملک کے ساتھ، قوم قوم کے ساتھ اور افراد افراد کے ساتھ خوب منسلک ہیں۔ سفارت کاری کے ذریعے قوموں اور ملکوں کے درمیان گوں نا گوں روابط اور جذبات کو باقاعدہ منظم بنیادوں پر استوار کر کے انہیں پائدار تعلقات میں بدلے جاتے ہیں۔ عالمی اور علاقائی امن، محبت، تعاون، نقل و حمل اور تجارت کے فروغ میں بنیادی کردار سفارت کاری کا ہی ہے۔ سفارت کاری ایک خاص مقصد یا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے قوموں اور ملکوں کے درمیان مذاکرات کرنے کا فن اور مشق ہے۔ سفارت کاری میں گفت و شنید، ثالثی، سمجھوتوں، قائل کرنے مزید برآں باہمی معلومات اور خیالات سمیت مختلف حکمت عملیوں، امکانات اور مہارتوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
سفیر نواف المالکی کا ایک ریسٹورنٹ کا دورہ درحقیقت عوامی سفارتکاری کا ایک شاہکار ہے۔ایسے غیر رسمی اقدامات ہی قوموں کے دلوں کے درمیان حقیقی پُل تعمیر کرتے ہیں۔ جب ایک سفیر مقامی کاروباری شخصیت کے ساتھ بیٹھ کر ثقافتی پکوانوں کا لطف اٹھاتا ہے اور گھل مل کر بات چیت کرتا ہے، تو یہ عمل سرکاری کمیٹیوں کے اجلاسوں سے کہیں زیادہ گہرا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ یہ ثقافتی ہم آہنگی کا عملی مظاہرہ ہے، جہاں پشتون اور عرب ثقافت کی نمائندگی کرنے والے پکوان صرف کھانے نہیں رہ جاتے بلکہ باہمی احترام اور کشادہ قلبی کی علامت بن جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ہونے والی گفتگو رسمی بیانات کی بجائے دلوں کی آواز بن کر اُبھرتی ہے، جو کہ عوامی سفارتکاری کا اصل مقصد ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کی نوجوان نسل دونوں ممالک کے مستقبل کی معمار ہیں۔ان نوجوانوں کے درمیان علمی، ثقافتی اور تکنیکی روابط کو مضبوط کرنا ویژن 2030 اور پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے یونیورسٹی طلباء اور نوجوان entrepreneurs کے درمیان مشترکہ پروگراموں، تبادلے کے پروگراموں کا انعقاد نہ صرف صلاحیتیں پروان چڑھائے گا بلکہ ان کے درمیان ایسی lifelong دوستیوں کی بنیاد رکھے گا جو آنے والی نسلوں میں پاک سعودی رشتے کو مزید پائدار بنائیں گی۔ سفیر المالکی کی سرپرستی میں اگر نوجوانوں کے درمیان ایسے فورمز متعارف کرائے جائیں تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور اقتصادی شراکت داری کے جو بڑے منصوبے ہیں، ان کی کامیابی کا دارومدار عوامی مقبولیت اور مقامی لوگوں کے اعتماد پر بھی ہے۔ جب عوامی سفارتکاری کے ذریعے عام پاکستانی شہریوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ سعودی سرمایہ کاری محض کاروبار نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی میں برادرانہ تعاون کا ایک اظہار ہے، تو اس سے مذکورہ منصوبوں کو مقامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوگی۔ گوادر میں توانائی کے منصوبے، زرعی شعبے میں جدت، یا انفراسٹرکچر کی ترقی جیسے اقدامات کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ عوام انہیں اپنی خوشحالی کا ذریعہ سمجھیں۔ سفیر المالکی کی عوامی مصروفیت اس سمت میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے، تاکہ اقتصادی تعاون کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچیں اور یہ رشتہ محض کانفرنسوں تک محدود نہ رہے۔
سفارت کاری کا استعمال اکثر قوموں یا ریاستوں کے درمیان تنازعات اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن اسے تعلقات قائم کرنے یا مضبوط بنانے، تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے اور ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سفارت کار وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنی حکومتوں کی جانب سے سفارت کاری کے عمل میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہ عام طور پر بین الاقوامی قانون، سیاست اور ثقافت کا وسیع علم رکھتے ہیں، اس کے علاؤہ مواصلات اور گفت و شنید میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ سفارت کار اپنے ملک کے مفادات کی نمائندگی کرنے کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ مختلف معاہدوں تک پہنچنے اور دیگر اقوام کے ساتھ مثبت تعلقات استوار کرنے کے طریقے بھی تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نہایت گہرے، دیرینہ اور قریبی برادرانہ تعلقات استوار ہیں جو مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور تزویراتی مفادات پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ان کے مشترکہ اسلامی عقیدے میں جڑے ہوئے ہیں، سعودی عرب اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا نگہبان ہے۔ سعودی عرب دو ارب مسلمانوں کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز تو ہے ہی لیکن اب وہ اپنے وژن، مشن، کردار اور اہمیت کی بدولت انسانیت کا بھی مرکز بن رہا ہے۔ وژن 2030 اسی منزل کی جانب بڑھنے کا ایک عملی مظہر ہے۔ اس پروگرام میں جدت، تجارت، سہولت، سیاحت، شراکت، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافتی تنوع کے ذرائع سے کام لے کر ترقی کی منازل طے کیے جائیں گے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط نظریاتی ہم آہنگی، تزویراتی گہرائی اور اقتصادی شراکت داری موجود ہیں، سعودی عرب پاکستان کے نہ صرف سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔ سعودی عرب میں تقریباً ساڑھے انیس لاکھ پاکستانی شہری بسلسلہ روزگار مقیم ہیں، یہ پاکستانیوں کے لیے کسی بھی ملک میں بسلسلہ روزگار قیام، سب سے بڑی تعداد ہے یہ نہ صرف پاکستانی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے بلکہ اس کا دونوں ممالک کی تعمیر و ترقی میں بھی بڑا کردار ہے۔ اس کے علاؤہ دونوں ممالک نے کئی ترقیاتی منصوبوں پر بھی تعاون کیا ہے، جن میں اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کا قیام، توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ کی تشکیل شامل ہیں۔ سعودی عرب نے گزشتہ برسوں میں خاص طور پر معاشی بحران کے دوران پاکستان کو نمایاں مالی امداد فراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک نے قریبی سیاسی اور سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہیں، پاکستان خطے میں سعودی عرب کا اہم اتحادی ملک ہے۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ، علاقائی سلامتی اور یمن میں جاری تنازعے سمیت مختلف امور پر تعاون کیا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کثیر جہتی اور اہم ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی رہنے کا قوی امکان ہے۔
نواف بن سعید المالکی پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ہیں۔ انہوں نے یہ منصب اگست دو ہزار سترہ سے سنبھالا ہیں۔ موصوف ایک نہایت متحرک اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنے دور سفارت میں انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان پہلے سے قریبی اور برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے خوب محنت اور محبت سے کام کیا ہیں۔ وہ دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے، ثقافتی اور تعلیمی مواقع کو بڑھانے نیز دونوں برادر ممالک کے درمیان عوامی سطح پر روابط کو آسان اور وسیع بنانے میں بھی سرگرم عمل رہیں ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام کو بالخصوص قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلوں کے بعد انسانی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کو مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
عزت مآب نواف سعید المالکی نے دو ہفتے قبل اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "سعودی عرب ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہر حال میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا”۔ یاد رہے کہ یہ تقریب سعودی عرب کے یومِ تاسیس کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے مزید کہا کہ
"یوم تاسیس ہمیں اپنے عظیم ملک کے عظیم ماضی کو یاد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ سعودی قیادت اور عوام کے درمیان باہمی تعلق اور اتحاد کو دہرانے کے عزم کا دن ہے”۔
عزت مآب سفیر نے مزید کہا کہ
"سعودی عرب اسلامی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے اور پاکستان کو ایک اہم اسلامی، دوست اور برادر ملک سمجھتا ہے”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ
"سعودی عرب قیام پاکستان سے اب تک ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، سفارتی، تجارتی، دفاع، ثقافتی اور مذہبی تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہوئے ہیں جن پر ہمیں فخر ہے”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ
"سعودی عرب ہر حال میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پرخلوص محبت، اسلامی اخوت اور احترام پر مبنی ہیں”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ
"ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب ترقی کے نئے دور میں داخل ہوا ہے جس کے اثرات نہ صرف سعودی عرب بلکہ دوست ممالک بھی محسوس کریں گے”۔
اس موقع پر وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے بھی خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ "اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ تمام پاکستانی بھی سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "پاکستانی سعودی عرب کے ساتھ اپنے دینی عقائد کی بنیاد پر گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان ہمیشہ سعودی عرب اور وہاں کے عوام کے ساتھ کھڑا ہوا ہے”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم سعودی عرب کے ساتھ مختلف شعبہ جات بالخصوص تعلیم کے شعبے میں وسیع تعلقات رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند ماہ قبل میں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا اس دورے کا مقصد سعودی عرب کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینا تھا۔ سعودی وزیر تعلیم نے ہماری تمام تجاویز اور مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کیا”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "دورے کے دوران ہم نے ایک منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا جو پاکستان میں سِکل یونیورسٹی کے قیام یا پہلے سے موجود یونیورسٹی کی اپ گریڈیشن سے متعلق تھا، اس کی پیش کش سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران کی تھی۔ اس حوالے سے تجویز سعودی سفارت خانے کو بھجوا دی گئی ہے”۔
ہماری دعا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجود نہایت برادرانہ، مخلصانہ اور تعمیری تعلقات نہ صرف قیامت تک قائم رہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں مزید اچھائی، بھلائی، بہتری اور شیرینی آئیں اور یوں دونوں ممالک "یک جان دو قالب” کے مصداق بنے رہیں۔