غیرت کے نام پر قتل: قصوروار کون قاتل یا نظام؟

افسوس صد افسوس کہ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا دور ناک المیہ ہے جو زمانے گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہو سکا۔ یہ عمل نہ صرف انسانی جان کے ضیاع کا سبب بنتا ہے بلکہ انصاف کے نظام کو بھی سوالات کے گھیرے میں لے آتا ہے۔

عدالتوں میں بارہا ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں ملزمان گرفتاری کے باوجود رہائی پاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ قانونی سقم اور کمزور تفتیش قرار دی جاتی ہے۔

سماجی دباؤ اور خاندانی رشتے بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بیشتر مقدمات میں متاثرہ خاندان ہی قاتلوں کا محافظ بن جاتا ہے۔ جرگے اور پنچایتیں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتی ہیں۔ ریاستی ادارے اکثر فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس کی کارکردگی ناقص تفتیش کے باعث تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ وکلا اور عدالتیں شواہد کی کمی کے سبب سخت فیصلے سنانے سے گریز کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل اس امر پر آواز بلند کر رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ایسے قتل کو کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ اس تناظر میں قانون سازی کے باوجود عملی نتائج مایوس کن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں یہ جرم بڑھتا جا رہا ہے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر اس موضوع کو اجاگر کیا۔ سردار شیر باز خان ستکزئی کو ضمانت پر رہا کیا جانا کئی حلقوں میں تنقید کا باعث بنا۔

دگاری میں دو افراد کو جرگے کے فیصلے پر قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ ماتحت عدالت نے ضمانت مسترد کر دی تھی مگر ہائی کورٹ نے پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض رہائی دی۔ پولیس نے اس کیس میں 14 افراد گرفتار کیے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے انصاف کے منافی اقدام قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ضمانت جیسے فیصلے ملزمان کو حوصلہ دیتے ہیں۔

معاشرے میں یہ پیغام جاتا ہے کہ طاقتور ہمیشہ قانون سے بچ نکلتا ہے۔ متاثرہ خاندان بھی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ جرگہ سسٹم عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ صورتحال قانونی نظام کی کمزوری کو نمایاں کرتی ہے۔ عوامی احتجاج بھی اس کے باوجود دبایا جاتا ہے۔

اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو قندیل بلوچ کیس غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سب سے نمایاں مثال ہے۔ 2016 میں اپنے ہی بھائی نے انہیں زندگی سے محروم کر دیا۔ ابتدا میں عدالت نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی۔ تاہم 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے اسے بری کر دیا۔ والدین کی معافی اور قانونی سقم اس فیصلے کی بنیاد بنے۔ یہ کیس اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خاندان اکثر قاتل کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

ریاستی ادارے متاثرہ فریق کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ قندیل بلوچ کی موت نے خواتین کے تحفظ پر کئی سوالات اٹھائے۔ سوشل میڈیا پر ان کے بیانات نے معاشرتی رویوں کو بے نقاب کیا تھا۔ ان کی جدت کو بعض حلقوں نے برداشت نہ کیا۔ قتل کے بعد عالمی سطح پر بھی پاکستان پر تنقید کی گئی۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل تاحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ قانونی پیچیدگیاں انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

اسی طرح، کوہاٹ کیس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایک باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کیا۔ عدالت نے سن 2022 میں اسے سزا سنائی۔ لیکن اگلے ہی سال وہ کمزور شواہد کی بنیاد پر بری ہو گیا۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ تفتیشی عمل کس قدر ناقص ہے۔ پولیس اکثر مکمل شواہد اکٹھے نہیں کر پاتی۔ گواہان بھی خاندانی دباؤ یا خوف کی وجہ سے بیان بدل لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عدالت کے پاس سخت سزا سنانے کی بنیاد کمزور رہتی ہے۔ اسی طرح حافظ آباد اور پشاور کے فیصلے بھی عدالتی کمزوری کو نمایاں کرتے ہیں۔ ایسے کیسز میں قتل ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔

متاثرین کی آواز عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی دبائی جاتی ہے۔ یہ صورت حال نظام انصاف پر عوامی اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔ بالآخر معاشرہ مجرم کے بجائے مقتول کو قصوروار ٹھہرانے لگتا ہے۔

سن 2016 میں پارلیمنٹ نے ایک اہم قانون منظور کیا۔ اس کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ قاتل کو لازمی عمر قید کی سزا دینا طے پایا۔ 2005 میں موجود وہ شق ختم کر دی گئی جس کے تحت قاتل وارث بن کر معافی مانگ سکتا تھا۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سے جرائم میں کمی آئی ہے۔ لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خاندان کیس کی نوعیت بدل کر اسے عام قتل بنا دیتے ہیں۔ عدالتیں پھر ملزمان کو معاف کر دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے۔

تفتیشی ادارے اکثر اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرتے۔ عدالتیں صرف پیش کیے گئے شواہد پر انحصار کرتی ہیں۔ اس طرح قاتلوں کو سزا دینے کے بجائے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قانون کی موجودگی کے باوجود انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔

منیزے جہانگیر اور عاصمہ جہانگیر کا موقف اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔ منیزے کے مطابق خاندان اکثر شواہد چھپاتے ہیں۔ وہ قتل کو عام جھگڑے یا ذاتی دشمنی کا رنگ دے دیتے ہیں۔ اس سے قاتل کو معافی کا موقع ملتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے تجویز دی تھی کہ ہر خاتون کے قتل کو غیرت کا قتل سمجھا جائے۔ اس طرح ریاست خود مقدمہ لڑنے کی پابند ہو گی۔ یہ رائے اس لیے اہم ہے کہ خاندان کے دباؤ کو ختم کیا جا سکے۔ تاہم اس تجویز پر عملی اقدامات نہ ہو سکے۔ ریاستی ادارے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ نتیجتاً خواتین غیر محفوظ رہتی ہیں۔ عدالتوں میں بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن مسلسل یہ مطالبہ دہراتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ریاست کو قاتل کے بجائے مقتول کا ساتھ دینا چاہیے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ حارث خلیق اس مسئلے پر اہم رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ معاشرے کے کچھ حصے اب بھی فرسودہ روایات میں جکڑے ہیں۔ ان روایات کو بغاوت سمجھ کر توڑنا ہوگا۔

ریاست کو غیرت کے قتل کو بغاوت کے مترادف قرار دینا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا جرم نہ صرف مقتول کے خلاف ہے بلکہ ریاست کی رٹ کے بھی خلاف ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلے ہمیشہ شواہد پر ہونے چاہئیں۔ ورنہ بے گناہ افراد کو بھی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شواہد مضبوط کیوں نہیں ہوتے؟ پولیس اور استغاثہ اکثر غیر فعال دکھائی دیتے ہیں۔ گواہوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ عدالتیں شواہد کی کمی کی بنا پر ملزم کو چھوڑ دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ جرم ختم ہونے کے بجائے بڑھتا رہتا ہے۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ 2024 کے اعداد و شمار خوفناک تصویر پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تقریباً 500 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ پنجاب میں سب سے زیادہ 178 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سندھ میں 134، خیبر پختونخوا میں 124، بلوچستان میں 33 اور گلگت بلتستان میں 18 کیسز سامنے آئے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ دیہی علاقوں میں ایسے واقعات چھپا لیے جاتے ہیں۔ خاندان عزت کے نام پر پولیس تک رسائی نہیں ہونے دیتے۔ بعض اوقات گاؤں کی سطح پر جرگہ فیصلہ کر دیتا ہے۔ متاثرہ فریق خاموش رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ اندراجات نہ صرف اعداد و شمار کو مشکوک بناتے ہیں بلکہ ریاستی ناکامی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اصل حقیقت کئی گنا زیادہ خوفناک ہے۔

سماجی ماہرین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل صرف ایک جرم نہیں ہے یہ معاشرتی رویے کی علامت ہے۔ یہ رویہ صدیوں پرانی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ مردانہ سوچ خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے۔ عورت کی آزادی کو بے غیرتی کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ یہی سوچ اسے قتل تک پہنچا دیتی ہے۔ تعلیمی فقدان بھی اس ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ عوامی سطح پر شعور کی کمی ہے۔ عورت کو برابری کا درجہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ریاستی ادارے بھی اسی سوچ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پولیس اہلکار اکثر متاثرہ خاندان کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ گاؤں اور شہروں میں یہ مسئلہ یکساں شدت سے موجود ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ذہنی تبدیلی ناگزیر ہے۔

اسی طرح جرگے اور پنچایتیں غیرت کے قتل کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ غیر قانونی ادارے عوامی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کے فیصلے انسانی حقوق اور آئین کے خلاف ہیں۔ لیکن دور دراز علاقوں میں لوگ انہیں قبول کرتے ہیں۔ جرگے اکثر خواتین کو گناہ گار ٹھہراتے ہیں۔ بعض اوقات اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں قتل کیا جاتا ہے۔ ریاستی ادارے جرگے کو ختم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ عدالتیں بھی بعض اوقات ان فیصلوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ جرگہ نظام قبائلی روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ مگر اس نے ظلم کو بڑھا دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اس پر پابندی کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ تاہم عملی سطح پر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس صورتحال نے انصاف کے نظام کو مزید کمزور کر دیا ہے۔

مزید برآں، اسلام کی روشن تعلیمات میں انسانی جان کی حرمت کو سب سے بڑی نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا (المائدہ: 32)۔ یہ آیت انسان کی جان کے تحفظ کو واضح کرتی ہے کہ کسی بھی بنیاد پر ناحق قتل حرام اور سنگین گناہ ہے۔ شریعت نے قتل کے مقدمات کو ریاستی قانون اور عدالت کے دائرہ کار میں رکھا ہے تاکہ کسی فرد یا خاندان کو اپنی مرضی سے سزا دینے کا اختیار نہ ہو۔ غیرت کے نام پر قتل کا تصور دین اسلام میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ قبائلی اور ثقافتی روایت ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ عورت یا مرد کے کسی بھی عمل پر سزا دینے کا حق صرف عدالت کو ہے اور وہ بھی شریعت کے اصولوں اور ثابت شدہ دلائل کی بنیاد پر، نہ کہ جذبات یا رواج کے تحت۔ رسول اکرم ﷺ نے بارہا عدل اور قانونی تقاضوں کو اہم قرار دیا اور خود کبھی بھی کسی کو بغیر شہادت اور قانونی ثبوت کے سزا نہیں دی۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنا اسلامی اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

احادیث مبارکہ اور فقہاء کے اجماعی موقف میں واضح ہے کہ غیرت کے نام پر کیا جانے والا قتل محض قتل عمد ہے جس کی سزا قصاص یا دیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کسی باپ، بھائی یا قبیلے کے بزرگ کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے سزا نافذ کرے۔ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ ’’تمہاری جانیں، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اور اس شہر کی حرمت‘‘۔ یہ اعلان انسانی جان کے تحفظ کی بنیادی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ عورت کی زندگی اور عزت شریعت میں ویسے ہی محفوظ ہے جیسے مرد کی۔ اسلامی فقہ میں غیرت کے نام پر قتل کو کسی طرح بھی جواز حاصل نہیں۔ یہ جرم قاتل کو سخت گناہگار اور آخرت میں عذاب کا مستحق بناتا ہے، جبکہ دنیا میں بھی اسے مکمل قانونی سزا کا سامنا کرنا چاہیے۔ اسلام عدل، رحم اور تحفظ کی تعلیم دیتا ہے، اس لیے غیرت کے نام پر قتل جیسے مظالم کو دین کے ساتھ جوڑنا سراسر ناانصافی اور تحریف ہے۔

بخدا میرے امید کی ایک کرن ابھی بھی باقی ہے، وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں جو مسلسل آگاہی مہمات چلا رہی ہیں۔ اور عوام کو بتاتی ہیں کہ یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ اس کے علاو خواتین کے تحفظ کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ میڈیا بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر متاثرہ خواتین کی آواز بلند کی جاتی ہے۔ لیکن دیہی علاقوں میں یہ آواز اتنی مؤثر نہیں۔ وہاں پرانے خیالات زیادہ طاقتور ہیں۔

تعلیمی اداروں میں اس موضوع پر نصاب شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اگر ذہن بدل جائے تو جرم خود بخود کم ہو جائے گا۔ انسانی حقوق کے کارکن حکومت سے مضبوط تفتیشی اداروں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پولیس کی تربیت بہتر ہو۔ خواتین کے لیے ہیلپ لائنز قائم کی جائیں۔ یہ اقدامات اس مسئلے کو کم کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے