پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں عام آدمی کی وہ اہمیت دانستہ ختم کی جارہی ہے جس کی بنا پر جدید دور کی تشکیل کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم بہت تحقیق اور غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی بنیادی وجوہات دو ہیں۔ ایک کا تعلق آم سے ہے اور بہت گہرا ہے، دوسری کا تعلق بھی آم سے ہی ہے لیکن عام یا عوام سے بھی اتنا ہی گہرا تعلق ہے۔ آم ایک بہت ہی اہم فلسفہ زندگی کا استعارہ ہے جسے پاکستان میں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کا نام دیا جاتا ہے۔ ہم اس پر کافی تفصیل سے بات کریں گے۔
دوسری بنیادی وجہ آم اور عام کا ابہام ہے۔ آم اردو بلکہ ہندی کا لفظ ہے، فارسی میں جا کر انبہ بن گیا لیکن عربی میں اسے مانجو کہتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ لکھنے میں فرق ہو تو ہو، بولنے اور سننے میں عام اور آم میں فرق نہیں کیا جاتا۔ عام جمع ہو کر عوام کا ہجوم بن جائیں تو ان کو مونث ہی بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ کرسی پر بیٹھے خواص کو وہ آم بلکہ آموں کے ٹوکرے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ان کی للچائی آنکھیں چھلکوں کے اندر رس پر گڑی ہوتی ہیں۔ چھلکا گٹھلی کا برقع، حجاب یا لباس ہے۔ اس لئے گٹھلی کا پردہ اتارے بغیر چوستے ہیں اور گٹھلی کے احترام کی وجہ سے چھلکے سمیت پھینک دیتے ہیں۔ خواص اور عوام میں یہ فرق ہے کہ عوام پہلے چھلکے سمیت چوستے ہیں اور پھر ننگی گٹھلی کو الگ سے چوستے ہیں۔ شاید اسی لئے عربی میں عوام کو کالانعام یعنی جانور کی مثال بے شرم اور بے حیا سمجھا جاتا ہے۔ عربی میں “ال” لگ جائے تو چیز بہت خاص ہو جاتی ہے۔ عربی میں انعام جانوروں کے لئے بولا جاتا ہے، ایک ہوں یا بہت سارے۔ عرب پاکستان کو پیار سے “الباکستان” کہتے ہیں لیکن ہمیں ٹھیک نہیں لگتا۔ “الباکستان” کے نام سے پاک سرزمین کا تاثر نہیں ابھرتا۔ ایسے ہی عربی میں انعام کا مطلب جانور ہے، ایک ہو یا بہت سارے۔
اردو کا “عام” عربی کے “عام” سے پھر بھی بہتر ہے۔ جمع ہو کر عوام کہلاتے ہیں۔ اردو میں آم تولے جاتے ہیں، گنے نہیں جاتے۔ اس کے مقابلے آم کے پیڑ گنے جاتے ہیں حالانکہ ان پر بہت سارے آم ہوتے ہیں۔ جدید دور میں جمہوریت آنے سے عوام کو بھی گنا جاتا ہے پیڑوں کی طرح۔ پاکستان میں عوام کو گنتی کے لئے چھانگا مانگا وغیرہ جنگلات میں لے جایا جاتا ہے۔ “مانگا” کا رشتہ “مینگو” سے تو نظر آتا لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ چھانگا مانگا میں آم کے باغات بھی ہیں۔ تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ علامہ اقبال نے بہت پہلے اس بات پر تعجب کا اظہار ضرور کیا تھا کہ جمہوریت ایسا طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔ وہ بادشاہت کا دور تھا اس لئے عام آدمی کو بندہ کہا جاتا تھا اور توقع کی جاتی تھی کہ وہ بندہ بن کے رہے گا۔ گنا جائے یا تولا جائے وہ منہ نہیں کھولے گا۔ پاکستان بن گیا، اسلامی جمہوریہ بھی ہو گیا۔ لیکن انتخابات میں گنتی کی بجائے تول بھاؤ کی بات شروع ہوئی تو آموں کے ٹوکروں کی طرح ووٹ بھی پارٹیوں کے ٹوکروں میں تلنے لگے۔ علامہ اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آزاد ہوں تو بندوں کو تولا جاتا ہے۔
پاکستان کے نامور تجزیہ نگار عامر رانا نے ایک حالیہ تجزیے میں اس حوالے سے سعادت حسن منٹو کے افسانے “منگو کوچوان” کا ذکر کیا ہے۔ منگو کو کھینچ تان کے “مینگو” سے نسبت دی جا سکتی ہے اور اس طرح عوام اور آم میں رشتہ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن منٹو نے منگو کا رشتہ آم کی بجائے عام آدمی سے جوڑا ہے جو جدید دور میں خواہ مخواہ خوش ہورہا تھا کہ اب قانون ہماری قدر کروائے گا۔ لیکن قانون نے آم اور عوام کے دام کی اجازت دے دی۔ تاہم عام آدمی کی انفرادی حیثیت آم کی گٹھلی کی بھی نہیں رہی۔ منگو کوچوان تو یہی کہ سکتا ہے کہ تانگہ لاہور کا ہو یا جھنگ کا، بندہ جدید دور میں بھی حق نہیں مانگ سکتا، صرف خیر کی دعا ہی مانگ سکتا ہے۔
تانگہ عام آدمی کی سواری ہونے کی وجہ سے جمہوریت کا استعارہ ہے۔ اسلامی حوالہ بھی ہے کہ ان سواریوں میں خواتین کی نشستیں مخصوص ہوتی ہیں۔ تاہم جمہوریت تاش کا کھیل ہے اور کھیل ہے تاش کے پتوں کا۔ جمہوریت کا مطلب ہے کتنے پتے ہاتھ میں ہیں۔ عوام کو جمہوریت کے تانگے میں جوڑ دیا۔ عوام گھوڑا بن کر بہت خوش ہوئے کہ ان کو بادشاہ نہ سہی، اکے کی عزت تو دی گئی۔ خوش ہوئے کہ زمانہ ہماری قیادت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ انتخابات میں بار بار یہ راز کھلا کہ یکہ میں جڑنے سے گھوڑا تاش کا اکہ نہیں بنتا۔ وہ خود کو عوام سمجھیں یا عام گدھے گھوڑے، بار برداری کے ہی کام آتے ہیں۔ عوام بھی آم ہی ہیں۔ آخر میں ان کی اوقات گٹھلی ہے جسے سڑک پر پھینک کر جمہوریت کا تانگہ آگے نکل جاتا ہے۔
تانگہ بھی ترقی کا سریبی فریب ہے، کہیں آتا جاتا نہیں۔ سواریاں اترتی چڑھتی رہتی ہیں۔ روز کا آنا جانا ہے اس لئے سواریاں بھی اکثر وہی رہتی ہیں۔ البتہ ٹوکرے بدل جاتے ہیں کیونکہ آم ٹوکروں میں ہوں تو حساب آسان رہتا ہے۔ الگ سے شناخت شروع ہو گئی تو نہ ٹوکرے رہیں گے، نہ منڈیاں نہ آڑھتی۔ نہ تاش کا کھیل ہو سکے گا۔ نہ تاش کے بادشاہ رہیں گے نہ وزیر، نہ ملکائیں۔ سیاست کے مزے اسی میں ہیں کہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔
اب آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کا دور کا فلسفہ بین الاقوامی سیاست کی جان ہے۔ اسے مینگو ڈپلومیسی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستانی محقق شیما صدیقی [مطبوعہ ۲۰۲۱] کے مطابق اس کی ابتدا ۱۹۶۸ میں ہوئی۔ دیگر محققین بھی اس رجحان کو چین میں ماوزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کا ایک اہم واقعہ شمار کرتے ہیں۔ اس واقعے کو بنھ آم، مانگو او چونگ بائی اور کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان سب کا بنیادی مطلب آم کی پوجا، زیارت اور یادگار ہے۔ لمبی تاریخی کہانی کو اختصار سے بیان کریں تو ہوا یوں کہ چین میں ثقافتی انقلاب کے آغاز میں ہی سنگوا یونیورسٹی میں ماو زے تنگ کی مزدور کسان تحریک میں شامل ریڈ گارڈ طلبا تنظیم کے دو گروہوں میں تنازعہ ہو گیا۔ بات ہاتھا پائی سے بڑھ کر چاقو، چھریوں اور اسلحے تک پہنچ گئی۔ کئی طلبہ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ مزدور کسان تحریک کو سخت دھچکا پہنچا۔ یہ ماو کی نظر میں سیاسی دانشوروں کی بجائے عام آدمی کی تحریک تھی۔ ماو نے فوری طور پر ریڈ گارڈ کی تنظیم کو معطل کیا اور نئی تشکیل کا آغاز کر دیا۔ یہ جولائی ۱۹۶۸ کی بات ہے۔
۵ اگست ۱۹۶۸ کو پاکستان کی وزارت خارجہ کا ایک وفد سرکاری دورے پر چین آیا ہوا تھا۔ وفد ماوزے تنگ سے بھی ملا۔ یہ لوگ اپنے ساتھ پاکستان کے سندھڑی آموں کی چالیس پیٹیاں لائے تھے۔ ماو کو یہ تحفہ بے حد پسند آیا۔ آم چین کے لئے نیا پھل اور اس کا ذائقہ بہت ہی اعلی تھا۔ ماو نے تحریک کی تشکیل نو کے لئے اس تحفے کو بہترین موقعہ سمجھا۔ ایک ایک آم کو خوبصورت چینی نازک رکابی میں رکھ کر شفاف موم جامی لفافوں میں لپیٹ کر سرکاری تحفوں کی طرح ملک بھر میں تحریک کے تمام مراکز میں بھیجا گیا۔ ماو نے اہتمام کیا کہ آم کو کھانے کی بجائے اس کی تعظیم اور تکریم کی تقریب ترتیب دی جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پارٹی میں قائدین کی پرستش کی بجائے پارٹی کے ہر رکن کو انفرادی عزت اور تعظیم دی جائے۔ اس طرح آم کی تقریب، عام آدمی کی عزت اور عظمت کی علامت بنی اور ثقافتی انقلاب عوام کی طاقت بنا۔
جنوب مشرقی ایشیا میں آم کی کاشت شروع ہوئی، کہتے ہیں کہ اب چین آم کی پیداوار میں ایشیا کے تمام ملکوں سے آگے ہے۔ اس کہانی میں آم کے ساتھ آم کی گٹھلی کا قصہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ آم کے بیج یا گٹھلی پر مزید تحقیق سے بیج کے بغیر آم کی پیداوار پر کام ہوا تو گٹھلیوں کے دام کے کئی اور مطلب بھی سامنے آئے۔ قدرت نے گٹھلی میں آم کے بیج کو جس انداز سے محفوظ کیا ہے، اسی سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت کام کی چیز ہے۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ آم کے بیج کا تیل انسانی جلد اور بالوں کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ آم کی گٹھلیوں کے دام تو آم سے کہیں زیادہ نکلے۔ تیل نکالنے کے بعد بچے بیج کا آٹا بھی غذائیت سے بھر پور نکلا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں آم اور اس کی گٹھلی دولت کا خزانہ بن گئے۔
پاکستان میں آم اور عوام دونوں چوسنے کے کام آتے ہیں اس لئے نہ جمہوریت کامیاب ہوئی نہ دولت دستیاب۔ تانگے اب عام آدمی کی سواری نہیں رہی بلکہ دولت مندی کے اظہار کی علامت بن چکے ہیں۔ پاکستان میں ابھی بھی گٹھلیوں کے دام نہیں لگتے اس لئے چھلکے سمیت پھینک دیا جاتا ہے۔ ان کی مانگ دساور میں ہے جہاں گٹھلیوں کا تیل اور آٹا بہت مہنگے داموں بکتا ہے۔