عصرِ حاضر کے فتنے

عصرِ حاضر کے فتنوں میں سے سب سے زیادہ تکلیف دہ فتنہ اشخاص کے اجتماع میں رہنا ہے۔ موجودہ دور میں انسانوں میں رہ کر جو سکون ملتا ہے وہ اجتماعات میں باقی نہیں رہا۔ وہ جو ضرب المثل مشہور تھی کہ زینتُ المکان بالمکین، عصرِ حاضر کے انسان نے اپنے رویے سے شاید اسے غلط ثابت کر دیا ہے۔

انسانوں کے قریب جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو بالکل الگ نوعیت کے انسان ہیں۔ جنہیں دور سے دیکھ کر میں سراہتا رہا، قریب سے تو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ انسان بھی ہیں یا نہیں۔ سراہنا تو دور کی بات رہی۔ ایسے وقت میں حضورِ پاک ﷺ کا یہ ارشاد شدت سے یاد آ رہا ہے:

"یوشِکُ أن یَکونَ خَیرُ مالِ المُسلِمِ غَنَماً یَتَّبِعُ بِها شَعَفَ الجِبالِ وَمَواقِعَ القَطْرِ یَفِرُّ بِدِینِهِ مِنَ الفِتَنِ”
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، حدیث: 19)
ترجمہ:
"عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ مسلمان کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات میں لے جائے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے وہاں جا کر رہائش اختیار کرے گا۔”

اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایمان کی سلامتی کے لیے انسانوں سے دور ہی رہنا واحد آپشن باقی رہ چکا ہے۔ قریب ہی کے زمانے میں جانور انسانوں کی آبادی سے دور رہتے تھے۔ اگر کہیں پہاڑوں میں دور سے کوئی انسان نظر آتا تو وہ دور رہ کر بھی چھپ جاتے۔ اسی وجہ سے یہ بات مشہور تھی کہ جانوروں کو دور سے انسان کی بو محسوس ہوتی ہے۔ انہیں جیسے ہی انسان کی بو محسوس ہو جائے تو وہ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔

مگر آج انسانوں کی آبادی کے عین وسط میں خنزیر اور گیدڑ جیسے جانور گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انسان نے اپنے رویوں سے ثابت کیا ہے کہ میرے ہاں انسانوں کے لیے جگہ نہیں بلکہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ میرے قریب کوئی بے حس مخلوق ہی رہنا شروع کرے، کیونکہ کسی حساس مخلوق کے لیے میں باضابطہ طور پر ایک مصیبت ہوں۔

ایسی صورتِ حال میں ایک طرف تو انسان کی بحیثیتِ انسان مجبوریاں ہوتی ہیں جنہیں وہ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسے لوگوں کے ساتھ منسلک ہی رہنا پڑتا ہے؛ جیسے معاشی مجبوریاں، رشتے نبھانے کی مجبوریاں، روزگار کی مجبوریاں وغیرہ۔ ظاہر سی بات ہے کہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ ہمیں انسانوں سے جوڑے رکھتی ہیں۔ انسانوں کے اجتماع میں نہ رہے تو survival ممکن نہیں رہتا۔

ان لابدی ضروریات کے علاوہ جہاں انسان دیگر انسانوں کے ساتھ تعلق رکھنے یا نہ رکھنے میں آزاد ہے، جیسے کسی سے سیاسی وابستگی قائم کرنا، دوستی کرنا یا کسی سماجی تنظیم وغیرہ کا حصہ بننا، ان تعلقات کے قائم کرنے میں ایک محتاط انسان قطعی طور پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ مجھے انسانوں کے فلاں گروہ سے تعلق رکھنا چاہیے یا نہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر ان لوگوں کو زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے جو فطری طور پر شریف النفس ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریف النفس لوگ جب انسانوں کے کسی اجتماع سے منسلک ہوتے ہیں تو وہ کسی اچھے مقصد کے لیے منسلک ہوتے ہیں۔

مگر دورِ حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ جیسے کہ ابتدا میں عرض کیا گیا، انسانوں کی اکثریت سرے سے اس لائق ہی نہیں رہی کہ ان کے قریب بندہ رہ سکے۔ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ جو اس لائق ہی نہ ہو کہ انسان اس کے قریب رہ سکے، ان کے ساتھ کسی مقصد کے لیے منسلک ہونا ماسواۓ ضیاعِ وقت کے اور کچھ بھی نہیں۔

انسانوں کے مجموعی رویوں نے یہ صورتِ حال پیدا کی ہے کہ اس میں درست اور غلط کی پہچان اگر ناممکن نہیں تو کم از کم متوسط ذہن کے لوگوں کے لیے مشکل ضرور ہے۔

ان حالات میں جس قسم کے رویے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کسی اجتماع سے منسلک ہونے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا چاہیے، جن بندوں سے منسلک ہونا ہے ان کا بے لاگ اور آزاد تجزیہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ حالات اس کے متقاضی ہیں کہ انسان غیر معمولی طور پر تقویٰ کا اہتمام کرے تاکہ اسے حق اور باطل میں فرق کرنے کی بصیرت ملتی رہے، خدا کے کلام اور نبی پاک ﷺ کی سیرت سے اپنا رشتہ مضبوط رکھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے