سترہویں صدی کے وسط تک یورپ تین دہائیوں پر محیط طویل جنگ و جدل سے گزرا۔ 1648 میں امن معاہدہ ہوا جس کو Peace of Westphalia کا نام دیا گیا، اس معاہدے کے تحت ریاستوں کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا اور درونِ خانہ سیاست اور ریاستی معاملات میں بیرونی مداخلت کو ناجائز قرار دیا گیا۔ سب سے زیادہ زور اس نکتے پر تھا کہ کوئی بھی ریاست محض طاقت کے زور پر کسی دوسرے کمزور ملک کی سرحدی اور علاقائی سالمیت کو پامال کرکے اس پر حملہ آور نہیں ہو سکے گی۔
ایشیا کی مٹی میں ابھی نمی باقی تھی اور ہر شرر بار آہ بے اثر جا رہی تھی، جبکہ یورپ تاریک راہوں سے گزر کر نشاۃ ثانیہ کی دہلیز کو پار کر چکا تھا۔ عظیم خیالات وہاں راہ پاتے ہیں جہاں کی مٹی ان کیلئے اپنا دامن دل کشادہ رکھتی ہو اوروہاں برگ و بار لاتے ہیں جہاں فضا موزوں تر ہو۔ فرانسس فوکویاما نے اس پر بڑی شاندار گفتگو کی ہے۔ فوکویاما اپنی کتاب "شناخت” میں "خیالات اور نظریات کے بیج زیادہ اہم ہیں یا مٹی کی زرخیزی؟” کے عنوان پر طویل بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ دونوں۔ پس یورپ بیدار تھا۔ ایشیا خوابیدہ تھا۔ انہوں نے دنیا کو ایک اچھا سا آرڈر دیا جو World Order کا ایک نومولود سا بچہ تھا۔ اس بچے کو جلد ہی امریکہ نے گود لے لیا اور اس میں کچھ دیگر چیزوں کا اضافہ کیا گیا۔ جیسے جمہوریت۔ سرمایہ دارانہ نظام۔ لبرل اقدار وغیرہ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ بھی ہے اور حال جاری بھی۔
خیالات و نظریات کا من و عن عملی ظہور نہیں ہوتا۔ طاقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ طاقت بگاڑ دیتی ہے اور کامل طاقت مکمل طور پر بگاڑ دیتی ہے۔ اسی طرح کا ایک دوسرا محاورہ ہے کہ جہنم کی راہ نیک ارادوں سے آراستہ کی گئی ہے۔ یورپ نے دنیا بھر اور خاص طور پر تیسری دنیا کو اپنا محکوم و مجبور بنا دیا اور اپنے نو آبادیاتی عزائم کا جال بچھانے لگا۔ وقت گزرتا رہا۔ گزرتا رہا۔ پھر ایک اور وقت اور دور آیا اور زمام کارِ سیاست امریکہ کے ہاتھ آگئی تو اُس نے بھی اداؤں کے مخمل میں انہی پرویزی حیلوں کا پیوند لگانا اپنی حاکمیت کے استقرار کیلئے ناگزیر جانا۔ عراق سے لے کر افغانستان تک اور جاپان سے لے تابخاکِ ویتنام امریکہ آگ اور خون کا کھیل کھیلتا رہا۔ مغربی دنیا نے کچھ مہذب ہونے کی کوشش کی اور اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی عدالت انصاف جیسے ادارے تشکیل دیے اور شترِ بے مہار کو لگام دینے کی کوشش کی مگر طاقت کے سامنے سب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ یہ ادارے ایک چھوٹے سے ملک کو نسل کشی اور خون ریزی سے نہ روک سکے کیوں کہ اس ملک کی پشت پناہی ایک مکمل طاقت والا ملک کر رہا تھا۔
مگر کارگہ ہستی میں ثبات اک تغیر کو ہے اور ہر کمال کو زوال کا تشنج لاحق ہوکر رہتا ہے۔ دو عالمی جنگوں نے ایک طرف یورپ کی عالمی حاکمیت کا سورج غروب کر دیا تو دوسری طرف امریکہ کو قوموں کی امامت کے منصبِ اعلیٰ پر فائز کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی قوموں کی امامت کے دوسرے دعویدار سوویت کے ساتھ اس کی طویل سرد جنگ کا آغاز ہوا، جس کا اختتام میدان جنگ میں سویت یونین کی شکست و ریخت پر منتج ہوا اور امریکہ دنیا کی واحد ایسی طاقت بن گیا جس کی اجارہ داری کو دنیا نے تسلیم کر دیا اور اس کے علاوہ چارہ بھی نہ تھا۔ 2009 میں جارج فرائڈ مین جیسے عبقری نے اکسویں صدی کو امریکہ کی صدی قرار دیا۔ اپنی کتاب The Next 100 Years: A Forecast for the 21st Century
میں وہ امریکہ کی حاکمیت کی دو بڑی وجوہات بتاتے ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ کی معیشت بہت بڑی ہے اور دوم اس کی ملٹری طاقت کا کوئی مقابل نہیں۔ دنیا کی بڑی تین فوجی طاقتیں اگر مل جائیں تو بھی مسابقت میں یہ کہیں آگے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جارج فرائڈ مین نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ بہت بڑی غلطیاں اور حماقتیں بھی کرے گا مگر طاقت کے بل بوتے پر امریکہ بہت سارے دھچکے سہہ لے گا اور سروائیو کر جائے گا۔
مگر جارج فرائڈ مین اور دوسرے مبصرین کی پیش بینیاں حرفِ غلط ثابت ہو رہی ہیں اور ایک جہانِ نو طلوع ہو رہا ہے جس کو کثیر القطبی یا Multipolar world کہا جاتا ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ ایک ملک نہ ہو بلکہ طاقت منقسم ہو اور بیک وقت کئی ایک حاکمیتِ اعلٰی کے منصب پر فائز قوتیں اپنے اور دنیا کے معاملات طے کریں۔ ان مبصرین کی چشمِ بینا نے ایک صدی تک Unipolar World کا جو تصور پیش کیا تھا، پہلی ربع صدی میں ہی اس کو چلینجز درپیش ہیں۔ جب سے گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں، تاجرانِ مغرب کے ایوانوں میں سازِ عشرت کی صدائیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔
روان ماہ کے آغاز میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا پچیسواں اجلاس اس باب میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ بیس سے زیادہ ممالک کے سرابرہان اور کئی ایک بین الاقوامی تنظیموں کے سرکردہ رہنماؤں نے چین کے شہر تیانجن کا رُخ کیا اور کئی ایک عہد نامے طے پائے۔ 2001 میں وجود میں آنے والی ایس سی او کا ابتدائی مقصد خطے میں امن و سلامتی یعنی سیکورٹی تھا مگر اب یہ تنظیم صنعت، حرفت، تجارت، ممبر ممالک کے آپس میں تعلقات اور بین الاقوامی اُفق پر آفتابِ جہاں تاب بن کر طلوع ہو چکی ہے۔ آج یہ تنظیم دنیا کے 24 فیصد زمینی حصے اور 42 فیصد آبادی پر محیط ہے۔ تنظیم کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک تجارت و حرفت میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ممبر ممالک کے پاس دنیا کی مجموعی پیداوار (GDP) کا چوتھائی حصہ ہے۔ یہ ایک مضبوط و توانا بلاک ہے جس سے مغرب اور خاص کر امریکی بالادستی اور تسلط کو خطرہ ہے۔
شنگھائی تعاون کانفرنس ایک طرح چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کا پاور شو تھا۔ یہاں دو نکات اہم ہیں۔ ایک یہ کہ چین نے ثابت کر دیا کہ وہ ممبر ممالک کے باقی ماندہ دنیا کے ساتھ، نیز ممبر ممالک کے باہمی مسائل کو زیر بحث لانے اور حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چین امریکہ کے مدِ مقابل ایک ابھرتی ہوئی معاشی اور ملٹری پاور ہے اور یہ نکتہ اجلاس کے تیسرے روز ہونے والی "وکٹری ڈے پریڈ” میں دفاعی طاقت کے مظاہرے سے ہو یدا تھا۔ ہر دو پہلو سے، چین اگر فی الحال امریکہ سے منصبِ امامت لے نہیں رہا تو ایک متوازی طاقت کے طور پر خود کو ضرور پروجیکٹ کر رہا ہے۔
امریکہ کو کیا لے ڈوب رہا ہے؟ وہی غلطیاں اور حماقتیں جن کی طرف مبصرین اور تجزیہ کاروں نے اشارہ کیا تھا مگر بے ضرر قرار دے کر امریکہ کو اکسویں صدی کی دنیا کا امام بنا گئے تھے۔ امریکہ شروع دن سے بیرونِ خانہ سیاست کے حوالے سے دنیا کے لیے مثالی ملک نہیں رہا مگر گزشتہ کچھ سالوں میں غلطیاں اور حماقتیں نقطہ اُبال کو پہنچ چکی ہیں۔ شاید سب سے بڑی غلطی دنیا اور عالمی ادارے برائے انصاف و انسانی حقوق کے مسلسل صدائے احتجاج بلند کرنے کے باوجود غیر مشروط انداز میں اسرائل کا ساتھ دینا تھا جو غزہ میں خون کی ہولی کھیلتا رہا اور امریکہ قابض و جابر ریاست کو نہ صرف اسلحہ اور کیش مہیا کرتا رہا بلکہ عالمی فورم پر جنگ بندی کی ہر کاوش کو تاراج کرتا گیا۔ دنیا نے کوئی پانچ صدیاں پہلے جو World Order دیا تھا کہ کوئی ملک دوسرے ملک پر محض طاقت کے بل بوتے پر دھاوا نہیں بول سکتا اور سرحدی حدودات کی پامالی نہیں کرسکتا، اسرائیل ڈنکے کی چوٹ پر سرحدی اور علاقائی سالمیت کو پامال کرتا ہوا ممالک کے اندر گھُس کر اہداف کو نشانہ بناتا رہا اور امریکہ اس کی پُشت پناہی کرتا رہا۔ روس یوکرین جنگ میں بھی امریکہ کا کردار شرمناک تو رہا ہی مگر بری طرح منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کا ٹیرف وار ایک بڑی غلطی ثابت ہو رہی ہے جس نے شنگھائی تعاون کانفرنس میں بیٹھے رہنماؤں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ دنیا کو ایک اور متبادل عالمی نظام کی ضرورت ہے۔ جس عالمی نظام میں معاشی، معاشرتی اور انسانی حقوق پامال ہو جائیں، دنیا کو عظیم نظام دینے والے اپنے ہی بنیادی اصولوں سے منحرف ہو جائیں اور امنِ عالم کے نگہبان خود ہی نقب زنی اور رہزنی پر اتر آئیں تو ایسے دورِ ہیجان خیز کو World Disorder کا نام دے کر اس کی جگہ کوئی دوسرا عالمی نظام لے آنا عین فطری اور وقت کا تقاضا ہے۔
کیا چین کے پاس لہو لہاں انسانیت کے دُکھ کی دوا ہے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر چین کے ہاتھ میں دنیا کی زمام کارِ سیاست تھمائی گئی تو وہی چنگیزی اور پرویزی ادائیں سر نہیں اٹھائیں گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا چین تیسری دنیا کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص ایک طرح East India Comapany ثابت نہیں ہوگا؟
ان پریشان سوالوں کا صحیح جواب تو وقت ہی دے گا۔ تاہم اس باب میں دو نکات اہم ہیں۔ اس وقت دنیا کو ایک عالمی نظام کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ عالمِ پیر مر رہا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ نو آبادیاتی قوتوں اور امریکی اجارہ داری کے برعکس چین اپنے معاشی ماڈل کو لے کر دنیا پر چھانے کی کوشش کر رہا ہے نہ کہ تیغ و تفنگ سے دنیا کو زیر کرنے کا خواہاں ہے۔ ایک شخص کسی بستی میں بندوق لے کر جاتا ہے اور دوسرا کیش لے کر۔ فرق واضح ہے۔ بندوق والا قوتِ بازو سے بستی کو زیر نگیں کرتا ہے اور پیسوں والا تجارت چاہتا ہے۔