سیاحت اور تنگ نظری

انقلاب آفرین ضابطہ حیات قرآن مجید، فرقان حمید میں خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ ؛
قل سیرو فی الارض فانظرو کیف بدا الخلق کہو کہ زرا زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ ہم کیسے خلق کرتے ہیں.

آج چونکہ عالمی سطح پر، سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ،سیاحت کے مختلف پہلوؤں پر لکھا بھی جائے گا اور بولا بھی جائے گا.

لیکن اگر مجھے آج سیاحت کے حوالے سے کچھ لکھنا ہے تو وہ دراصل ایک سوال اٹھانا ہے اور پھر اپنے اس بلاگ میں اُس سوال کا جواب دینا ہے.

وہ سوال یہ ہے کہ کیا سیاحت کے زریعے، تنگ نظری کا خاتمہ ممکن ہے یا نہیں.

اس وقت پوری دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص جن چند انسانی المیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تنگ نظری اُن میں سے ایک ہے. جبکہ دیگر کی اگر آپ وجوہات دیکھیں گے تو اُن میں بھی کہیں نا کہیں آپ کو تنگ نظری، نظر آ جائے گی.

آج ایک طرف انسان اس بات کا دعویدار ہے کہ یہ دور گلوبلائزیشن کا دور ہے. دنیا، گلوبل ولیج بن چکی ہے. لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی آج بھی تنگ نظر ہی ہے. بدقسمتی سے ،جو اختلافات، انسانی دنیا کا حُسن تھے، مذاہب کے اختلافات، نظریات و عقائد کے اختلافات، ثقافت، قومیت اور تہذیب کے اختلافات، زبانوں اور رسوم و رواج کے اختلافات وغیرہ، انہیں بنیاد بنا کر عام آدمی آج بھی اس قدر تنگ نظر ہے کہ وہ دوسروں کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے. یوں انسان نے اس دنیا کو جہنم بنا رکھا.

آج انسان ایک مخصوص ماحول میں اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ قید ہے. اور یہ وہ قید ہے جس پر انسان مطمئن ہے، کیونکہ اس قید کا اسے ادراک ہی نہیں ہے. اور جب ادراک ہی نہیں ہے تو پھر بےقراری اور بےچینی کیسی؟ لہٰذا راوی چین ہی چین لکھتا ہے.

انسان جہاں کل گیا تھا، آج بھی وہیں گیا ہے ، اور آنے والے کل بھی وہیں جائے گا، کل جن لوگوں سے ملا تھا، آج بھی اُنہی سے مل رہا ہے اور آنے والے کل کو بھی انہی لوگوں سے ملے گا، حتیٰ کہ انسان صرف وہی لٹریچر پڑھ رہا ہے جو اُس کے متعلقہ گروہ میں سے کسی نے تخلیق کیا ہے. جس میں صرف وہی گروہ افضل ہے، قابل تعظیم ہے، جس سے اُس کا تعلق ہے، باقی سب حقیر ہیں. انسان صرف وہی میڈیا کانٹینٹ کنزیوم کر رہا ہے جس میں صرف اُس کے متعلقہ گروہ کی تعریف ہوتی ہے، توصیف ہوتی ہے، باقی سب کے عیب اُچھالے جاتے ہیں.

اب اس کا نقصان کیا ہو رہا ہے؟نقصان یہ ہو رہا ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں اپنے متعلق بہت سی حد سے زیادہ خوش فہمیاں اور دوسروں کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں جنم لے رہی ہے، جن کا نقصان انسانی ذات کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے اور انسانی معاشرے کو بھی. ان خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا نتیجہ نفرت، حقارت اور حتیٰ کہ انتہا پسندی کی صورت میں نکل رہا ہے.

اب جب یہی انسان، سیاح کے طور پر ،سیاحت کے لئے اُس مخصوص ماحول میں سے نکلتا ہے تو وہ ایک ایسے ماحول کا حصّہ بن جاتا ہے جہاں زیادہ تر لوگ اُس جیسے نہیں ہیں، اُس سے مختلف ہیں، وہ دوسرے گرہوں سے میل ملاپ کرتا ہے. اب انسان اُن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے. اُس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے تو وہ لوگ اُس کی مدد کر رہے ہیں جن کے متعلق اُس کے دل و دماغ میں کہیں نا کہیں نفرت یا حقارت تھی، اسے بھوک یا پیاس لگی ہے تو وہ اُن لوگوں سے لے کر ،چاہے خرید کر ہی، کھا پی رہا ہے جن کے متعلق اس کے دل و دماغ میں منفی باتیں تھیں. اس سے آگے بڑھ کر کے اگر اُس کے ساتھ کوئی خدانخواستہ حادثہ پیش آ جاتا ہے تو وہ لوگ اسے اپنے گھر میں پناہ دے رہے ہیں، اُس کی خدمت کر رہے ہیں، مہمان نوازی کر رہے ہیں، جن کے متعلق کسی مخصوص ادب یا میڈیا نے کہا تھا کہ یہ لوگ حقیر ہیں.

اب اُس انسان، کے گِرد سے نفرت کا حصار ٹوٹنے لگتا ہے. غلط فہمیاں، ختم ہونے لگتی ہیں، اپنی یا اپنے گروہ کی خامیوں سے پردہ اُٹھنے لگتا ہے،دوسرے گروہوں کی اچھائیاں سامنے آنے لگتی ہیں. حقائق واضح ہونے لگتے ہیں. یوں اُس شخص کی زندگی میں فکری بہتری آتی ہے، جس کے نتیجے میں اُس کے رویے میں مثبت بدلاؤ آتا ہے، جس کا نفع اُسے بھی ہوتا ہے اور انسانی معاشرے کو بھی ہوتا ہے.

خالق نے یہ دنیا رنگین بنائی ہے،یہاں مذاہب، عقائد، نظریات، ثقافتوں ،قومیتوں ،تہذیبوں وغیرہ کے کئی رنگ ہیں، جو اِس کا حُسن ہیں. انسان اگر کسی مخصوص ماحول تک محدود ہو گا تو اُسے یہ تنوع ،اپنے لیے خطرہ محسوس ہو گا، لیکن اگر وہ سیاحت کے لئے نکلے گا تو یہ اختلافات اُسے اِس کی خوبصورتی محسوس ہونگے. دنیا یکرنگی نہیں ہے . مگر، یہ کسی مخصوص ماحول میں محدود ہو کر یا قید ہو کر نہیں معلوم ہو سکتا، سیر کر کے، سیاحت کے زریعے معلوم ہو سکتا ہے.

لہذا اپنی زندگی میں سیر و سیاحت کو ضرور شامل کریں.اسے ہفتہ وار یا ماہانہ نہ سہی، سالانہ اپنی روٹین کا حصّہ ضرور بنائیں. آپ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں یہ آپ کو ول ڈیورنٹ بنا دے گی، لی بان بنا دے گی، کولمبس بنا دی گی، ڈیگاما بنا دے گی، ابن بطوطہ بنا دے گی، ولیم ڈالرمپل بنا دے گی، مستنصر حسین تارڑ بنا دے گی، حتیٰ کہ بدھ بھی بنا سکتی ہے. کیوں کہ وہ بطور، شہزادہ سدھارتھ اپنے محل کی قید سے سیر کے لئے ہی نکلا تھا کہ اُس کے ذہن میں تین سوالات نے جنم لیا اور جب وہ اُن تین سوالات کے جوابات کی تلاش میں نکلا تو وہ بُدھ بن گیا.

سیر کر غافل، زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے