افغانستان: جنگ سے استحکام اور تعمیر نو کی جانب گامزن

بیس سالہ طویل جنگ، لاکھوں لوگوں کا قتل، کئی ٹریلین ڈالرز کا آگ اور راکھ بن کر اڑنا، آبادیوں کی آبادیاں در بدر ہونا، جنگی ضابطوں کا توڑنا اور باقاعدہ جنگی جرائم کا ارتکاب، بار بار آمریکی عوام کی جانب سے یہ سوال اٹھنا کہ افغان جنگ کا فائدہ اور ضرورت آخر کیا ہے؟ جس میں بے تحاشہ وسائل اور انسانی زندگیاں مسلسل جھونکے جا رہے ہیں، ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کے علم اور امن کی بجائے جنگ کی طرف پیشقدمی، افغانستان میں چند ایک مرکزی شہروں کو چھوڑ کر وسیع و عریض علاقوں کا کھنڈر بن جانا یہ ہے وہ نقشہ جو نائن الیون کے بعد افغان جنگ سے عالمی منظر نامے پر نمایاں ہوا۔ جنگ جو بھی لڑیں اس کی آخری سرے پر دو چیزیں ہی بچتی ہیں ایک تباہی دوم نجات کی خواہش۔ لمحہ موجود میں ہمیں یہ دونوں چیزیں افغان سرزمین پر بڑی واضح نظر آرہی ہیں۔

آمریکہ نے بیس برس کے بعد افغانستان سے نکلنے کا پروگرام بنایا تو عملاً صورت حال یہ تھی کہ جن کو ختم کرنے کا عزم لے کر آیا تھا وہی لوگ پیچھے کھڑے بلکہ کابل پر قابض ہونے کے لیے موجود تھے۔ آمریکہ نے افغانستان آکر کیا کھویا کیا پایا؟ یہ سوال سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے کئی عشروں تک ایک "اسائمنٹ” کا کام دے گا۔ افغان جنگ میں نقصان کا پہلو تو اس قدر واضح ہے کہ بچے بچے کو بھی صاف نظر آرہا ہے لیکن فائدے کے پہلو تک نظر پہنچنے میں شاہد بیس برس مزید لگ جائیں اور شاید پہنچ بھی نہ جائے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ہم قبول کریں یا نہ کریں لیکن جنگ انسانیت کے لیے ایک ایسا ناسور ہے جو طاقتور کے حق میں بہتر ہے نہ ہی کمزور کی۔ جنگ کا آخری نتیجہ ہمیشہ مکمل تباہی ہوتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ افغان طالبان نے مستقل مزاجی سے وطن کے دفاع کے لیے مزاحمت جاری رکھی اور آمریکہ کو بطورِ ایک قابض قوت ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا لیکن آگے ان کے لیے "صاف میدان” بالکل نہیں کہ جو چاہیں کریں۔ مختلف گروہ، لابیاں، پیچیدہ احوال اور سنگین چیلنجز کثرت سے سر اٹھا رہے ہیں ایسے عالم میں اب ان سے یہ توقع بالکل بے جا نہیں کہ وہ جنگ اور مزاحمت سے ناطہ توڑ کر سیاسی جد وجہد اور پر امن کوششوں سے افغانستان کی آبادی، خوشحالی، یکجہتی اور استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

وہ کھلے دل سے دوسری برادریوں اور جماعتوں کو برادرانہ ہاتھ دے کر ان کے ساتھ مل بیٹھنا قبول کریں، دوسرے گروہوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کریں اور ان کے ساتھ بقائے باہم اور قبول باہم کے اصول پر مل بیٹھ کر کام کا آغاز کریں تاکہ ایک پرامن، خوشحال، محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے مطلوبہ ماحول اور مواقع میسر آسکیں۔ مجھے خوشی ہے کہ طالبان نے اپنی بعض پالیسیوں کو تبدیل کیا ہیں جن کے سبب وہ ماضی میں دوسروں کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہرے تھے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔

مثلاً

01 وہ امن کے خاطر اٹھائے جانے والی ہر کوشش کو دل و جان سے قبول کر کے اس میں شریک ہو رہے ہیں۔

02 خواتین کی تعلیم اور کام کے مواقع میں اگر چہ کئی طرح کی مشکلات حائل ہیں لیکن ان کو بطورِ حق تسلیم کرنا اور ان کے ساتھ عمومی طور پر نرم سلوک روا رکھنا۔

03 ملک کے مختلف گروہوں سے مفاہمت کی خواہش، علاقائی ممالک سے ہم آہنگی، مربوط سفارتی روابط، زور زبردستی کے مظاہر سے ممکنہ حد تک اجتناب اور طاقت کے استعمال جیسے معاملات میں انہوں نے اب معقول اور قابل قبول روش اختیار کی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں امن، خوشحالی اور استحکام لانے کی بنیادی ذمہ داری خود افغانوں کے اوپر عائد ہے دوسرے حلقے اور قوتیں صرف مددگار یا سہولت کار ہو سکتے ہیں ضامن اور ذمہ دار نہیں۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں۔ دونوں کے درمیان قربت، رفاقت، اخوت، محبت، مذہب اور ثقافت سمیت بے شمار رشتے گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں۔ قدرت کو یہ منظور ہے کہ پاکستان اور افغانستان ابدی طور پر ایک دوسرے کے دوست، بھائی اور خیر خواہ پڑوسی بن کر رہیں نہ کہ رقیب اور دشمن۔ پاکستان لاکھوں افغانوں کا میزبان ہے، پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، پاکستان افغانستان کے لیے گیٹ وے ہے، دونوں اطراف سے ہزاروں لاکھوں خونی رشتے منعقد ہوئے ہیں، افغانستان میں امن اور استحکام کے خاطر اٹھنے والی تمام عالمی نگاہوں کا مرکز صرف اور صرف پاکستان بنتا ہے جبکہ دوسری طرف افغان بھائیوں کی بدولت ہمارے مدارس، مساجد، ہوٹلوں اور مارکیٹوں میں رونق ہے، کتنی بنجر زمینیں ایسی ہیں جو افغانوں نے خون پسینہ ایک کر کے انہیں زرخیز بنا دیا، بے شمار افغان شہری نہایت پر مشقت خدمات انجام دے کر پاکستانی بھائیوں کو سہولت اور آسانیاں فراہم کر رہے ہیں۔ افغانستان سے بہت بڑی افرادی قوت پاکستان کو میسر آئی ہے۔ لاکھوں افغانوں نے اربوں کا سرمایہ یہاں گردش میں رکھا ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں قدرتی طور پر ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہیں، اس قدر شریک ہیں، ہمارا انحصار ایک دوسرے پر اس قدر زیادہ ہے کہ ہمارا ایک دوسرے سے بے نیاز رہنا توط دور کی بات سانس لینا تک بھی ممکن نہیں۔

گزشتہ بیس برسوں کی جنگ سے خطے کے مجموعی امن، مفاد اور استحکام کو ناقابلِ تصور نقصان پہنچا ہے۔ نقصان غالب، واضح اور ہر طرف پھیلا ہوا ہے لیکن فائدہ ابھی دنیا کو دیکھنا باقی ہے۔ تین ایسے نقصانات ہیں جو براہ راست آمریکی دامن میں پڑے ہیں ایک کئی ٹریلین ڈالرز کا نقصان یہ حساب زیادہ بہتر مد میں استعمال ہو سکتا تھا جس سے آمریکہ کی طاقت اور عزت میں زبردست اضافہ ہوتا، دوسرا بڑی تعداد میں نہ صرف امریکی فوجی جانوں سے گزرے ہیں اس سے کئی گنا بڑی تعداد اپاہج بن گئی ہے اور جس سے آمریکی سماج میں ٹھیک ٹھاک بے چینی پھیلی ہے اور تیسرا نقصان یہ کہ آمریکہ کا عالمی ساکھ شدید طور پر متاثر ہوا اس کی حیثیت بہت زیادہ متنازع ہوگئی اور سپر پاور کے درجے پر فائز ہونے کے باوجود آمریکہ جس عزت، وقعت اور قبولیت کا مستحق تھا اس کا مستحق نہیں رہا۔ دنیا بھر میں آمریکہ کا تاثر ایک توسیع پسند، مفاد پرست اور جارحانہ عزائم رکھنے والی ریاست کے طور پر راسخ ہوا ہے۔ اے کاش! آمریکہ بڑا بھائی بن کر عالمی برادری سے اپنے تعلقات انصاف اور احساس کی بنیاد پر بنانے اور نبھانے کا حوصلہ رکھتا تو بخدا یہ پالیسی اس کے حق میں کہیں زیادہ بہتر ہوتی۔ اس پالیسی سے امکان تھا کہ امریکی عزت، طاقت، قبولیت اور افادیت کا سکہ مزید کئی صدیوں تک چلتا۔

افغانستان کی تعمیر نو اور استحکام محض ایک قومی مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کی مشترکہ ذمہ داری اور اس میں سب کے لیے پوشیدہ مشترکہ مفادات ہیں۔ پاکستان، چین، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف سلامتی کے خطرات کو کم کرے گا بلکہ اقتصادی راہداریوں اور توانائی کے نئے پروجیکٹس کے ذریعے علاقائی رابطے اور خوشحالی کو نئی راہیں بھی کھولے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو افغانستان تک توسیع دینے کے خیالات اسی سمت میں اٹھائے جانے والے مثبت اقدامات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ملک اسے ایک بوجھ کے بجائے ایک موقع سمجھیں اور کابل میں موجود حکومت کے ساتھ تعاون کے دروازے کھلے رکھیں۔ ایسا کرنا افغان عوام کے ساتھ یکجہتی بھی ہوگا اور خطے کی اجتماعی ترقی کا ذریعہ بھی۔

بیس سالہ جنگ کے بعد بین الاقوامی برادری، خاص طور پر مغربی ممالک، ایک اخلاقی امتحان کا شکار ہیں۔ ایک طرف وہ طالبان کی بعض پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہیں، تو دوسری طرف افغان عوام کو درپیش انسانی المیے سے صرفِ نظر بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے میں، انسانی امداد کو سیاسی مطالبے سے مشروط کرنا لاکھوں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کے مترادف ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان کو معاشی طور پر مکمل طور پر تنہا چھوڑنے کے بجائے، انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھے اور ان شعبوں میں تعاون کی پیشکش کرے جو براہِ راست عوام کی فلاح و بہبود سے جڑے ہیں، جیسے صحت، خوراک اور بنیادی تعلیم۔ طالبان کی طرف سے مثبت اقدامات، جیسا کہ عام معافی اور دہشت گردی سے لڑنے کے عہد، کو بھی تسلیم کرتے ہوئے انہیں مزید بہتری کی طرف مائل کرنا چاہیے۔

افغان عوام تاریخ کے سب سے طویل عرصے تک جاری رہنے والے تنازعات کا سامنا کر چکے ہیں، لیکن ان کی قوتِ برداشت اور وطن سے محبت ہمیشہ قابلِ رشک رہی ہے۔ جنگ کے بادل چھٹنے کے بعد، اب ان کے سامنے اپنے ملک کی تعمیرِ نو کا سنہری موقع ہے۔ نوجوان نسل، جو کبھی عدم استحکام کا شکار تھی، اب امن کے دور میں اپنی صلاحیتیں ملک کی ترقی کے لیے وقف کر سکتی ہے۔ افغانستان میں معدنیات کا خزانہ، اس کی نوجوان آبادی اور جغرافیائی اہمیت اسے ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن کر سکتی ہے، بشرطیکہ اندرونی امن قائم ہو اور بین الاقوامی تعاون حاصل ہو۔ افغان عوام کی یہی امید اور عزم ہی درحقیقت اس سرزمین کو مکمل تباہی سے نجات دلوا کر نئی صبح کا خواب دیکھنے کے قابل بنا سکتا ہے۔

جنگوں، رقابتوں، مزاحمتوں، رکاوٹوں اور توسیع پسندانہ عزائم کی عالمی سیاست نے انسانیت کو ناقابلِ تصور نقصانات سے دو چار کیا ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ عالمی طاقتیں اور پوری دنیا باہم مل کر اپنا انداز سیاست بدلے اب انسانوں کی ہمت مزید اس طرح کی سیاست سے پہنچنے والے نقصانات اور صدموں کو برداشت کرنے کا متحمل قطعاً نہیں۔ اب وقت آیا ہے کہ سب مل کر عالمی امن، تجارت، باہمی تعاون، شراکت داری، احترام اور بقائے باہم کے اصول کی سیاست سے بغلگیر ہو آگر چہ اس طرزِ سیاست کا آغاز چین نے کیا ہے لیکن اس کو بام عروج تک آمریکہ اور یورپ ہی پہنچا سکتے ہیں۔ آمریکہ نے کئی صدیاں لگا کر جو طاقت، ترقی، عروج اور جدت حاصل کئے ہیں ہماری دعا اور خواہش ہے کہ مثبت اور تعمیری سیاست کے ساتھ مل کر یہ مزید کئی صدیاں چلے۔ قدرت کا اصول ہے کہ گردشِ احوال کے اندر قوموں کے حصے میں جو عروج و زوال کے وقفے اور لمحے میسر آتے ہیں وہ دیر تک چلتے ہیں۔ یہ ایسا راز ہے جو صرف خالق کائنات کے علم میں ہے یہ انسانی سوچ اور اپروچ سے ماورا معاملہ ہے۔

پاکستان، چین، روس اور ایران سمیت تمام وہ ممالک خراجِ تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے متحارب فریقوں کو مذاکرات پر آمادہ اور تنازعے کے پرامن حل پر تیار کیا۔ ہمیں امید ہے کہ ان کوششوں کے خوشگوار اثرات پورے خطے کی سیاست اور مجموعی ماحول پر پڑیں گے ان شاءاللہ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری انسانی برادری کو امن، انصاف اور باہمی تعاون کے ساتھ رہنے کا حوصلہ عطا فرمائے تاکہ یہ دنیا رہنے کے لیے ایک اچھی اور خوشگوار جگہ بن سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ امن، تعاون اور انصاف سے دنیا بھر کا محفوظ اور خوشحال مستقبل وابستہ ہے۔ اس تناظر میں اٹھانے والا ہر اقدام پوری انسانیت کے بہترین مفاد میں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے