ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں سچ بولنا جُرم اور باکرداری بزدلی سمجھی جاتی ہے۔ جہاں نگاہ کی پاکیزگی مذاق اور شرم و حیا دقیانوسیت قرار دی جاتی ہے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ برائی بڑھ رہی ہے، بلکہ کرب یہ ہے کہ اچھائی شرمندہ کی جا رہی ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں عزت کو چالاکی، محبت کو مفاد، اور رشتوں کو سودے میں بدلا جا رہا ہو، وہاں اصل بیماری کردار کی وہ گراوٹ ہے جو زبان سے نہیں بلکہ رویوں سے ظاہر ہوتی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ انحطاط صرف گلیوں میں نہیں، دفاتر، اداروں، اور گھروں تک در آ پہنچا ہے۔ انسان ظاہری ترقی کی دوڑ میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اپنی روحانی پسماندگی کا احساس تک کھو بیٹھا ہے۔ ہم نے ترقی کے نام پر سادگی بیچ دی، اور آزادی کے نام پر اقدار قربان کر دیں۔ ایسے میں اگر کوئی عورت اپنی عزت کو قیمتی سمجھے، یا کوئی مرد نگاہ نیچی رکھنے کو عزت کا ذریعہ مانے، تو وہ عجیب، ناپسندیدہ اور ‘پچھلے زمانے’ کا فرد ٹھہرتا ہے۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا ہر اُس شخص کو کرنا پڑتا ہے جو اصولوں پر جینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ یہی وہ تناظر ہے جس میں ہوس کے مارے مردوں اور لالچ کی پجاری عورتوں کی بات کرنا، محض تنقید نہیں، بلکہ ایک معاشرتی فرض بن جاتا ہے۔
ہوس کے مارے مرد اور مال و شہرت کی لالچی عورتیں آج کے معاشرے میں ایک ایسا ناسور بن چکی ہیں جو نہ صرف خود گمراہی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں بلکہ پورے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ مشہور کہاوت ہے: "لالچ بری بلا ہے” اور اس کہاوت کی صداقت آج کے دور میں قدم قدم پر نظر آتی ہے۔ مردوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو شہوت اور خودغرضی کے غلام بن چکے ہیں، جبکہ کچھ عورتیں حرص و طمع کے ذریعے مردوں کو جال میں پھنسا کر مال و دولت اور وقتی شہرت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ ان افراد کے اعمال کی نحوست صرف انہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کی وجہ سے شریف اور باحیا مرد و خواتین بھی بدنامی کی زد میں آ جاتے ہیں۔
کسی ادارے میں جب کوئی باعزت اور شریف گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون قدم رکھتی ہے تو بدکردار مرد اس کو بھی اسی ترازو میں تولتے ہیں جس میں وہ ان لالچی اور بے حیا عورتوں کو ناپتے ہیں۔ انہیں شاید اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ خواتین جو پردے اور شرافت کی چادر اوڑھ کر زندگی گزارتی ہیں، وہ کسی صورت کمزور یا لاچار نہیں ہوتیں۔ بلکہ ایسی عورتیں اپنے وقار، فہم و فراست، اور مضبوط کردار سے اپنا دفاع کرنا خوب جانتی ہیں۔ دوسری طرف وہ عورتیں جو فریب، چالاکی اور بناوٹ کے ذریعے مردوں کو شکار بناتی ہیں، وہ نہ صرف خود ذلت کا باعث بنتی ہیں بلکہ ان جیسے کردار معاشرتی فساد کو ہوا دیتے ہیں۔
جہاں تک میرے تجربے کا تعلق ہے، میری تعلیم اور ملازمت کے دوران جن مردوں کے زیرِ نگرانی میں، میں نے کام کیا، وہ نہایت بااخلاق، باکردار اور باحیا انسان تھے۔ میری زندگی کے آغاز سے ہی الحمدللہ یہ خصوصیات شامل رہی ہیں کہ میں بے حیائی، بدکرداری اور بدتمیزی کو ہر حال میں ناپسند کرتی ہوں۔ مرد ہو یا عورت، کردار کی گراوٹ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید میری سادہ مزاجی، سخت خوئی، اور اصول پسندی ہی وہ صفات تھیں جن کی بنا پر مجھے ہر مقام پر عزت ملی۔ ایمانداری سے کام کرنا، پردے کا اہتمام، بے مقصد ہنسی مذاق سے گریز، اور فضول باتوں سے دور رہنا میری زندگی کے اصول ہیں، جن کی بدولت لوگوں کا اعتماد اور عزت میرے حصے میں آئی۔
ایسے بھی مرد ملے جنہوں نے سختی سے کہا کہ ہمیں بھائی نہ کہا جائے، کیونکہ ہم آپ کے بھائی نہیں۔ لیکن ان کی اخلاقیات اور کردار اس قدر شفاف تھے کہ انہوں نے ہر قدم پر مجھے برے لوگوں سے محفوظ رکھا۔ جب بھی مجھ سے کام کے سلسلے میں بات کرتے، نگاہیں جھکا لیتے اور میری رائے کو اہمیت دیتے۔ باوجود اس کے کہ وہ عمر اور عہدے میں مجھ سے بڑے تھے، انہوں نے میرے خلوص، نماز کی پابندی، اور ہر برائی سے بچنے کے جذبے کی بنیاد پر مجھ پر اس قدر بھروسا کیا کہ اکثر کہتے تھے: جس دن آپ چھٹی کرتی ہیں، ہمارا دن بے سکونی میں گزرتا ہے، کیونکہ آپ کی موجودگی ہمیں ہر طرح کے مسائل سے بے خوف کر دیتی ہے۔ وہ اکثر مجھ سے پوچھتے کہ: آپ کی تربیت میں کس کا کردار ہے؟ اور میں ہمیشہ یہی جواب دیتی: میرے حالات نے مجھے یہ سکھایا۔
اکثر میں سوچتی ہوں کہ اگر ہر عورت اخلاق، حیا، اور کردار میں میرے جیسے رویے اختیار کرے تو کسی بھی جرم کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہو جائیں۔ میں نے ہمیشہ یہ بات محسوس کی ہے کہ عورت کے نرم لہجے، بے تکلفی، اور غیر ضروری تعلقات سے مرد فریب میں آ جاتے ہیں۔ کھانے پینے، گھومنے پھرنے، اور بے باک گفتگو جیسے رویے مردوں کو غلط پیغام دیتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان حرکات کی مخالفت کی ہے۔ میرا نظریہ یہی ہے کہ جس ادارے میں کام کر رہی ہوں، وہاں اپنے افسران اور ساتھیوں کے ساتھ صرف کام کے دائرے میں گفتگو ہو۔ اگر کوئی مسئلہ ہو، تو صرف ذمہ داری کے تحت شیئر کیا جائے۔ ان سے رہنمائی لی جائے، ان کی مدد کی جائے، مگر تہذیب، اسلامی اقدار، اور خاندانی روایات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ یہ دنیا محض ایک آزمائش ہے، ایک دھوکہ ہے۔ چاہے ہم جتنی بھی پرواز کر لیں، آخر کار ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہونا ہے، اور وہ دن ہی اصل احتساب کا دن ہو گا۔
اسلام نے عورت کو عزت و وقار عطا کیا ہے، اور مرد کو حیا اور نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ قرآن و سنت میں واضح ہدایات موجود ہیں جو ہمیں زنا، فریب، لالچ، بدکرداری اور خیانت جیسے گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتی ہیں۔ قرآن کریم کا حکم ہے: "ولا تقربوا الزنا، انہ کان فاحشۃ و ساء سبیلا” زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔ حرص و طمع کو نبی کریم ﷺ نے دل کی بیماری قرار دیا ہے۔ فرمایا: اگر آدم کے بیٹے کو دو وادیاں سونا دے دی جائیں، تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا، اور آدمی کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ عورت کے لیے پردے کا حکم اور مرد کے لیے نگاہیں نیچی رکھنے کا فرمان ایک ایسا نظامِ زندگی ہے جو پاکیزگی، وقار اور امن کی ضمانت دیتا ہے۔ معاشرے میں وہ مرد و خواتین جو اخلاقی حدود پار کرتے ہیں، ان کے خلاف اسلام نے سخت سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ معاشرے کو بے راہ روی سے بچایا جا سکے۔ یہ حدود اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ باعزت زندگی گزارنے والوں کا مقام ہمیشہ بلند رہے۔
لالچ اور ہوس جب معاشی زندگی میں در آتے ہیں تو کرپشن، مالی بدعنوانی، رشوت، دھوکہ دہی اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جب لوگ جائز ذرائع سے مطمئن نہ ہوں، تو وہ دوسروں کا حق مار کر، فریب دے کر، یا جسم فروشی جیسے حرام ذرائع سے بھی پیسہ کمانے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی خواتین جو مال کے لالچ میں خود کو بیچ ڈالتی ہیں یا ایسے مرد جو عورتوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو استعمال کرتے ہیں، وہ دراصل ایک بیمار معیشت کا عکس ہوتے ہیں۔ یہ رویے معاشی ناہمواری، طبقاتی تفریق اور معاشرتی بگاڑ کو جنم دیتے ہیں۔ رزقِ حلال کی برکت چھن جاتی ہے، گھروں میں بے سکونی بڑھتی ہے اور معاشی ڈھانچہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلامی معیشت کا اصول ہے کہ محنت سے کماؤ، دوسروں کا حق نہ مارو، اور رزقِ حلال کو ترجیح دو۔ لیکن لالچ جب قابو پائے، تو نہ اخلاق بچتا ہے نہ معیشت۔
اسی طرح معاشرتی نظام بھی اس وقت کمزور ہوتا ہے جب مرد و خواتین اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ جب لالچ، شہوت اور شہرت کی ہوس پر انسان قابو نہ رکھ سکے تو خاندان، رشتے، ادارے اور معاشرتی ڈھانچے کمزور ہونے لگتے ہیں۔ ایسے افراد جن کی نیت فاسد ہو، وہ اداروں میں انتشار پھیلاتے ہیں۔ عورت اگر اپنے نسوانی وقار کو چھوڑ کر مال و دولت کی خواہش میں اپنا اصل کھو بیٹھے، یا مرد اگر عورتوں کو بطور شے دیکھے، تو اس سے معاشرے میں بے اعتمادی، عدم تحفظ اور بدنامی کا ماحول جنم لیتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کا کردار معاشرے کی بنیاد ہے، جب یہ بنیاد کمزور ہو جائے تو طلاق کی شرح بڑھتی ہے، غیرت و عزت کا تصور مٹتا ہے، اور نسلِ نو کی تربیت میں خلا آتا ہے۔ سماج صرف قوانین سے نہیں، بلکہ کردار سے بنتا ہے، اور جب کردار بکھر جائے تو قومیں مٹنے لگتی ہیں۔
ہر مہذب معاشرے میں ایسے قوانین موجود ہوتے ہیں جو جنسی ہراسانی، بدتمیزی، دھوکہ دہی اور عزت پر حملے کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں خواتین کو ہراساں کرنے، بلیک میل کرنے یا ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے مردوں کے خلاف قانونی کارروائی کا طریقہ موجود ہے۔ اسی طرح اگر کوئی خاتون کسی مرد کو جھوٹے الزامات یا دھوکے سے نقصان پہنچاتی ہے، تو مرد کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اکثر لوگ ایسے مقدمات میں یا تو خاموش رہتے ہیں یا قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ قانونی شعور کا فقدان بھی مسائل کو بڑھاتا ہے۔ انصاف کا نظام جب تک درست اور متحرک نہ ہو، تب تک ایسے جرائم ختم نہیں ہو سکتے۔ قانون کی پاسداری اور انصاف کی بر وقت فراہمی ایک ایسا نظام پیدا کرتی ہے جس میں نہ کوئی ظالم کو چھپنے کی جگہ ملتی ہے، نہ مظلوم کو تنہا چھوڑا جاتا ہے۔
لالچ، بدکرداری اور فحاشی جیسے عوامل سب سے پہلے خاندانی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب مرد حضرات بیویوں کے حقوق سے غفلت برتتے ہیں، اور عورتیں اپنے شوہروں کی عدم موجودگی یا کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں، تو خاندان ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ایسے مرد جو دفتر یا سوشل میڈیا کے ذریعے غیر اخلاقی تعلقات بناتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، بلکہ پورے خاندانی نظام کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف ایسی عورتیں جو شوہر کی کمائی پر صبر کرنے کے بجائے ناجائز ذرائع سے سہولتیں حاصل کرنا چاہتی ہیں، وہ بھی خاندانی امن تباہ کر دیتی ہیں۔ بچوں کی تربیت، ماں باپ کے کردار سے ہوتی ہے، اگر والدین کا کردار بگڑ جائے، تو نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے کردار، اعتماد اور صبر ضروری ہے۔
اسی طرح اخلاقی تربیت کا سب سے پہلا ادارہ گھر ہوتا ہے، اس کے بعد اسکول، کالج اور معاشرہ۔ اگر بچپن سے اولاد کو لالچ، جھوٹ، فریب اور نفس پرستی سے بچنے کی تعلیم دی جائے، تو وہ بڑے ہو کر باکردار انسان بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں دے رہے ہیں، تربیت کا عنصر مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ جب تک والدین، اساتذہ اور سماجی شخصیات کردار سازی کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تب تک معاشرتی زوال جاری رہے گا۔ لڑکوں کو حیا، عزت نفس، عورت کی توقیر اور عورتوں کو پردہ، خودداری اور دیانت داری کی تعلیم دینا ضروری ہے۔ تربیت اگر سچی نیت سے کی جائے، تو بڑے سے بڑا فتنہ بھی ناکام ہو جاتا ہے۔
اسی طرح میڈیا نے جہاں دنیا کو قریب کیا ہے، وہیں بہت سی اخلاقی حدود کو بھی پامال کیا ہے۔ ڈرامے، فلمیں، اشتہارات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جس قسم کی عورت اور مرد کی نمائندگی کی جاتی ہے، وہ اکثر حقیقت سے ہٹ کر اور بے حیائی پر مبنی ہوتی ہے۔ نوجوان نسل جب ان چیزوں کو دیکھ کر سیکھتی ہے، تو وہ زندگی کو فیشن، نمود و نمائش اور وقتی لذت کے زاویے سے دیکھتی ہے۔ سوشل میڈیا پر شہرت کی دوڑ، فالوورز کی حرص اور وائرل ہونے کی خواہش نے بہت سے لوگوں کو اپنی عزت خود گنوانے پر مجبور کر دیا ہے۔ سچی عزت محنت، علم، حیا اور کردار سے آتی ہے، وائرل ویڈیوز یا بولڈ تصاویر سے نہیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ مثبت کرداروں کو اجاگر کرے، تا کہ معاشرہ دوبارہ اخلاقی خطوط پر استوار ہو۔
معاشرے کی اصلاح صرف تنقید سے نہیں، عملی اقدامات سے ممکن ہے۔ سب سے پہلے ہر فرد کو خود احتسابی کرنی چاہیے، اور اپنی نیت، عمل اور رویے کا جائزہ لینا چاہیے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین و مرد ملازمین کے لیے اخلاقی تربیت کے سیشنز منعقد کریں۔ اسکول اور کالج کے نصاب میں کردار سازی، حیا اور سچائی کے اسباق شامل کیے جائیں۔ میڈیا کو آزادی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا بھی احساس دلایا جائے۔ مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ جمعے کے خطبات میں صرف فقہی مسائل بیان نہ کریں، معاشرتی اخلاقیات پر بھی روشنی ڈالیں۔ حکومت اور عدلیہ کو لالچ، دھوکہ دہی اور ہراسانی جیسے جرائم پر فوری اور موثر کارروائی کرنی چاہیے، تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک باوقار معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں گے جو امن، عزت، اعتماد اور انصاف پر قائم ہو۔
الغرض، اصلاح کا سفر طویل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے مستقل مزاجی، اجتماعی شعور، دینی و اخلاقی رہنمائی، اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ایک مہذب، باکردار، باحیا اور انصاف پر مبنی معاشرے میں پروان چڑھیں، تو ہمیں آج ہی سے اپنے قول و فعل کو درست کرنا ہوگا، کیونکہ ایک باوقار معاشرہ باوقار افراد سے بنتا ہے۔