ٹیکس کی دنیا میں بھی عجائبات کم نہیں۔ اب ذرا دیکھیے کہ پاکستان میں ایک ایسا ٹیکس ایجاد کر دیا گیا ہے جسے آپ کے اور میرے جیسے عام لوگ سن کر ہی ہنس پڑیں، مگر ایف بی آر کے بابو اسے پورے اعتماد کے ساتھ "قانونی انکم ٹیکس” کہتے ہیں۔ جی ہاں، یہ ہے سیکشن 7E۔
اب سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس ہوتا کس پر ہے؟ سیدھی سی بات ہے: آمدنی ہو تو ٹیکس لگے گا۔ لیکن یہاں منطق اُلٹی ہے۔ اگر آپ کے پاس ایک خالی پلاٹ پڑا ہے، جس سے ایک دھیلا بھی آمدنی نہیں ہو رہی، تب بھی ایف بی آر کا کہنا ہے کہ بھائی صاحب! آپ سے ٹیکس تو ضرور لیں گے۔ وجہ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ آپ اس سے کرایہ کما رہے ہیں۔ اب آپ چاہے لاکھ چیخیں کہ "حضور، یہ پلاٹ تو برسوں سے جھاڑ جھنکار اور مٹی کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں”، مگر ایف بی آر کے نزدیک یہ پلاٹ ہر سال باقاعدگی سے کرایہ دیتا ہے، اور وہ کرایہ براہِ راست ایف بی آر کے دل میں اترتا ہے۔
یہ بھی غضب کی منطق ہے کہ زمین خریدتے وقت آپ رجسٹری فیس دیں، اسٹامپ ڈیوٹی دیں، کیپٹل ویلیو ٹیکس دیں۔ پھر ہر سال 7E کے نام پر نیا خراج دیں۔ اور اگر کبھی بیچنے کا ارادہ کر بیٹھیں تو کیپٹل گین ٹیکس الگ۔ گویا پلاٹ آپ کے نام ہو تو بھی ٹیکس، خالی ہو تو بھی ٹیکس، اور بیچیں تو بھی ٹیکس۔ سوال یہ ہے کہ بھائی! پلاٹ آخر کس دن ہماری ملکیت میں آئے گا؟
عوام کی نظر میں یہ سیدھی سیدھی "ڈبل ٹیکسیشن” ہے۔ لیکن ایف بی آر کے کاغذی بابو اسے "ریفارمز” کہتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کے پاس ایک کنال کا خالی پلاٹ ہے تو حکومت سمجھے گی کہ آپ مالدار ہیں، آپ کے پلاٹ سے پانچ فیصد فرضی کرایہ نکلتا ہے، اور اس پر بیس فیصد ٹیکس بنتا ہے۔ یہ وہی منطق ہے جیسے کوئی آپ کے باورچی خانے میں جھانک کر کہے کہ دیگچی پڑی ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ نے بریانی پکا لی ہے، لہٰذا ہمیں پلیٹ پہنچائیں۔
اب ذرا انصاف کیجیے: یہ ٹیکس آمدنی پر ہے یا محض ملکیت پر؟ اگر آپ کی زمین سے کچھ نہیں نکل رہا تو اس کا خراج زبردستی لینا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ بالکل ایسے ہے جیسے بارش نہ ہو، کھیت خشک رہیں، اور حکومت پھر بھی آپ سے گندم کا محصول مانگے۔
حکومت کا مؤقف اپنی جگہ کہ بڑے بڑے سرمایہ دار پراپرٹی میں پیسہ لگا کر ٹیکس نیٹ سے باہر بیٹھے ہیں۔ لیکن حضور! اس کا علاج یہ نہیں کہ ہر شریف شہری کو مجرم بنا دیا جائے۔ آپ ٹیکس نیٹ بڑھائیں، آپ نظام درست کریں، مگر خالی پلاٹوں کو کرائے دار بنا کر عوام کی جیب پر ڈاکہ نہ ڈالیں۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ 7E قانونی کتابوں میں چاہے جائز ہو، مگر عوام کی نظر میں یہ بالکل ناجائز ہے۔ ٹیکس وہی جائز ہوتا ہے جو آمدنی پر لگے، نہ کہ خواب و خیال میں پیدا کی گئی آمدنی پر۔
ہماری جھولی پھیلا کر یہ ٹیکس لگانے والوں کو بددعائیں ہیں:
تو بھی کسی کا پیار نہ پائے خدا کرے
تجھ کو تیرا نصیب رلائے خدا کرے
راتوں میں تجھ کو نیند نہ آئے خدا کرے
تو دربدر کی ٹھوکریں کھائے خدا کرے
تجھ پر شبِ وصال کی راتیں حرام ہوں
شمعیں جلا جلا کہ بجھائے خدا کرے
میری طرح تجھے بھی جوانی میں غم ملیں
تیرا نہ کوئی ساتھ نبھائے خدا کرے
آئے بہار تیرے گلستان میں بار بار
تجھ پر کبھی نکھار نہ آئے خدا کرے
آمین