افغانستان: طالبان کے نئے دور میں امیدوں اور خدشات کا سنگم

تاریخ مزاحمت میں ایک تابناک باب کا اضافہ کرنے والے افغان طالبان کے کابل کی جانب فاتحانہ واپسی سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسا شور اٹھا ہے کہ جس میں کچھ سوچنا ممکن ہی نہ رہا۔ ہر طرف جذبات اور تبصروں کا نہ تھمنے والا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ جس میں کان اور آنکھیں تو اپنا اپنا کام کر رہے ہیں لیکن دماغ بالکل ماؤف سا ہوگیا ہے۔ کوئی خوشی سے چیخ رہا ہے تو کوئی صدمے سے سکتے میں چلا گیا ہے۔ اب ذرا سکون ہوا ہے تو اپنے احساسات کو ٹٹولنے اور انہیں ضبط تحریر میں لانے کا موقع میسر آیا ہے۔

یاد رہے جب نائن الیون کے بعد آمریکہ نے اتحادیوں سمیت افغانستان پر چھڑائی کی تو دوہرا دکھ اپنے سینے میں محسوس کیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں بے گناہوں کا مرنا بھی دکھ کا باعث تھا اور اس کے نتیجے میں افغانستان کا نشانہ بننا بھی اذیت کا سبب بنا۔ میں اس وقت پشاور کے ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم تھا۔ میں نے اس وقت دوسرے طلبہ سمیت بعض بین الاقوامی خبر رساں اداروں کو متعدد مرتبہ انٹرویوز بھی دیا۔ اس موقع پر کثرت سے عالمی خبر رساں اداروں کے نمائندوں نے دینی مدارس کا رخ کیا تھا۔

گزشتہ بیس برس کے دورانیے میں سرزمین افغانستان پہ جارحیت اور مزاحمت کی آمیزش سے اٹھنے والا ایک ایسا معرکہ دنیا نے دیکھا جس کی نظیر تاریخ میں اگر بالکل نایاب نہیں تو بے حد کمیاب ضرور ہے اور جس نے انسانی برادری کو حیران اور صدمے سے دو چار کر کے رکھ دیا ایک طرف جارحیت میں کیسے کیسے مظالم نہیں ڈھائے گئے؟ تو دوسری طرف مزاحمت میں کیا کیا قربانیاں نہیں دیئے گئے؟ دو عشروں پر محیط جنگ میں انسانی مال و جان اور عزت و آبرو جس قدر بے توقیر ہوئے تاریخ کا دامن ایسی مثالوں سے خالی ہے۔ ایک طرف سپر پاور جبکہ دوسری طرف ایک ایسا ملک جس نے ایک کپ تک نہیں بنایا (یہ بات ملا ضعیف نے نائن الیون کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی تھی، موصوف بار بار اس بات پر زور دے رہے تھے کہ نائن الیون کے واقعے میں افغان حکومت قطعاً ملوث نہیں) لیکن حیرت انگیز طور پر جارح فریق بلآخر تھک ہار کر اور بیزار ہو کر اوسان خطائی کے حالت میں چلا گیا جبکہ دوسرا فریق پورے عزم و ہمت اور وقار سے کابل کی جانب بڑھتا چلا گیا۔

مجھے خوشی ہے کہ طالبان نے بالخصوص اور تمام دوسرے افغان فریقوں نے بالعموم صبر اور تحمل سے کام لے کر کسی بڑی خونریزی کا خطرہ ٹال دیا ہیں۔ طالبان کے سیاسی شعبے کے ناظم ملا عبدالغنی برادر نے نہایت صحت مندانہ جذبات اور خوش آئند خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہمت اور جدوجہد کے امتحان میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر شاندار کامیابی ہمیں نصیب کی لیکن مصالحت اور خدمت کے امتحان میں کامیابی ابھی باقی ہے۔ ہمارا پیغام ہے کہ تمام لوگ پورے اطمینان سے اپنی اپنی ذمہ داریاں انجام دیں ہم کسی سے کوئی انتقام نہیں لیں گے ہم نے وطن اور قوم کی آزادی بحال کی اب عوام کی خدمت کر کے ان کے درینہ مسائل حل کریں گے”۔

افغان جنگ میں یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ کوئی بھی ملک خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو کسی بھی دوسرے ملک کو خواہ وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو جارحیت کا نشانہ بنا کر مستقل طور پر کبھی بھی فتح نہیں کر سکتا۔ آمریکہ نے بیس برس تک ایک بدحال ملک کو مسلسل جارحیت کا نشانہ بنایا لیکن اب کہ جب وہ نکل رہا ہے تو حیران و پریشان کہ آخر وہ کیا "فتوحات” ساتھ لے کر جا رہا ہے اور پیچھے کیا کچھ چھوڑ کر نکل رہا ہے۔

عالمی طاقتوں اور پوری دنیا کے لئے اب مناسب پالیسی یہ ہے کہ وہ افغانستان کو دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھائیں اور مصیبتوں میں گھری افغان عوام کے حالات کو مثبت طور پر بدلنے میں نئی انتظامیہ کا ساتھ دیں۔ طالبان کے لیے بھی اب ضروری ہے کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ نہ رہیں بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ چلیں کیونکہ الگ تھلگ رہنے والی حالت میں وہ زیادہ دیر تک اپنا وجود اور حکومت قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ان کو لازماً افغانستان کے اندر مختلف دھڑوں اور دنیا سے باہمی تعاون، صحت مند تعلقات اور اشتراک کار کے اصولوں پر چل کر ملت افغان کے لیے زیادہ سے زیادہ امن اور خوشحالی کے مواقع پیدا کرنا چاہیے۔

اس وقت افغان عوام کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش عمومی امن، معاشی مواقع اور سیاسی استحکام ہے۔ بدقسمتی سے افغان عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی عدم تحفظ کا شکار ہو کر ملک سے فرار ہونے کی کوششوں میں مصروف نظر آرہی ہے۔ طالبان کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کا اعتماد جلد از جلد بحال کر کے ان کے خوف اور تشویش کو دور کریں۔ ویسے ماضی گواہ ہے کہ طالبان امن اور استحکام کی بحالی کی صلاحیت رکھتے ہیں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام قائم کر سکتے ہیں موجودہ موقع اور اختیار جو بے مثال قربانیوں کے سبب انہیں ملا ہے بہر صورت افغان طالبان کا استحقاق ہے کہ اسے ایک جائز اتھارٹی تسلیم کر کے انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے اور ان کے ساتھ برابری اور شراکت داری والا تعلق قائم کیا جائے۔

دو عشروں پر محیط خونریز جنگ کے بعد افغانستان میں تبدیلی اللہ تعالیٰ کی اذن اور طالبان کی جدوجہد کے بعد پاکستان، چین، روس، قطر اور ایران کے عمل دخل سے ممکن ہوئی ہے اس کے علاوہ طالبان کے مزاج، پالیسی اور طرز عمل میں بھی ضروری اور مفید تبدیلی در آئی ہے یہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم تبدیلی ہے۔ امید ہے طالبان اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر دنیا کے لیے اپنے آپ کو قابل قبول بنا دیں گے۔

چین کو خطے میں امن اور استحکام ہر قیمت پر درکار ہے وہ مزید خطے کا امن اور استحکام خراب ہونے کی کسی صورت متحمل نہیں۔ چین اور روس نے اصولی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے اور اسے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔ چین کے تجارت دوست اور امن دوست بین الاقوامی پالیسی حد درجہ قابل تحسین ہے اس پالیسی سے دنیا بھر کے لیے خیر، ترقی اور خوشحالی کے نت نئے امکانات برآمد ہوں گے۔ مجھے امید ہے یہ پالیسی ان شاءاللہ دنیا کو جنگوں کی سیاست سے نکال کر امن اور تجارت کی سیاست میں لے آئی گی۔

افغانستان میں قائم ہونے والی نئی سیاسی حقیقت کا سب سے گہرا اثر پاکستان پر پڑے گا، جو اس صدی کے آغاز سے ہی افغان تنازعے کے سیاسی اور انسانی اثرات کی زد میں رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان نسلی، لسانی اور مذہبی ہم آہنگی ایک ایسا پل ہے جس پر چل کر دونوں ممالک باہمی مفاد کے وسیع امکانات کو دریافت کر سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی زمین کسی بھی غیر ریاسی عنصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔ پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے یہ ایک نازک مطالبہ ہے، جس پر طالبان کی جانب سے عملی اقدامات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے اعتماد کی بنیاد ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، نقل و حمل اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کی جو لامتناہی ممکناتیں ہیں، وہ اسی وقت برآمد ہو سکتی ہیں جب سرحد کے دونوں اطراف مکمل طور پر استحکام اور سلامتی قائم ہو۔

بین الاقوامی برادری کا رد عمل طالبان کی حکومت کے مستقبل کا تعین کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرے گا۔ عالمی برادری کے سامنے اب ایک مشکل امتحان ہے۔ ایک طرف افغان عوام کو انسانی المیے سے بچانے کی فوری ضرورت ہے، تو دوسری طرف طالبان سے انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور جمہوری اقدار کے احترام کا مطالبہ ہے۔ یہ ایک نازک صورتحال ہے۔ اگر عالمی برادری نے مکمل طور پر پابندیاں عائد کر دیں اور افغانستان کو معاشی طور پر تنہا کر دیا، تو اس کے تباہ کن نتائج نہ صرف افغان عوام بلکہ پورے خطے کو بھگتنا پڑیں گے، جس سے مہاجرین کا نیا بحران اور دہشت گردی کے پنپنے کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، ایک ایسا جامع روڈ میپ تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں انسانی امداد کو سیاسی مطالبات سے مشروط نہ کیا جائے، لیکن ساتھ ہی طالبان کے رویے میں مثبت تبدیلی کو تسلیم کرتے ہوئے مرحلہ وار تعاون اور تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔

طالبان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے ہی عوام کا اعتماد اور تعاون حاصل کرنا ہے۔ گزشتہ حکومت کے تمام اہلکاروں، سیکورٹی فورسز کے ارکان، اور ان لوگوں کو، جنہوں نے ماضی میں طالبان کی مخالفت کی تھی، تحفظ فراہم کرنا نئی حکومت کی سب سے بڑی خوبی ہوگی۔ عوام کا خوف دور کرنے کے لیے نہ صرف انتقامی کارروائیوں سے گریز ضروری ہے، بلکہ ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل بھی ناگزیر ہے۔ افغانستان ایک متنوع ملک ہے، جس میں مختلف نسلی اور سیاسی گروہوں کے مفادات ہیں۔ ان سب کو حکمرانی کے عمل میں شریک کرنا ہی ملکی استحکام کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ اس کے بغیر، خواہ طالبان کے پاس کتنی ہی فوجی قوت کیوں نہ ہو، مفاہمت کے بغیر حقیقی معنوں میں افغانستان کو متحد اور پرامن رکھنا مشکل ہوگا۔ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ 1990ء کی دہائی کے طرز حکمرانی سے سیکھ چکے ہیں اور اب ایک جدید، خوشحال اور پر امن افغانستان کی تعمیر میں مصروف ہیں۔

علم اور طاقت کے بلند ترین درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری دعا ہے کہ آمریکہ کا ظرف بھی ضروری حد تک بڑھےاور اس کا پیمانہ یہ ہے کہ آمریکہ مزید جنگ اور جارحیت کی سیاست کو خیرباد کہہ کر امن، علم، تجارت، شراکت اور برابری کی سیاست کو گلے سے لگا لیں بخدا اس طرزِ سیاست سے آمریکہ کے احترام اور مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہو جائے گا۔ آمریکہ کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کی پالیسی بار ہا غلط ثابت ہوئی ہے۔ مذاکرات، برابری کی سطح پر فعال تعلقات، باہمی مفاد اور شراکت داری وہ بہترین اصول ہیں جن کے ہوتے ہوئے سب کے مفاد محفوظ اور یقینی بن سکتے ہیں۔ "جتنی زیادہ طاقت اتنی زیادہ ذمہ داری” ہی اب عالمی سیاست میں سب سے بہترین پالیسی ہے۔

طالبان کی کابل کو فاتحانہ واپسی پر جذبات کا اظہار بجا لیکن اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ طالبان کو ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔ ابھی فلاحی ریاست کا قیام، مصیبت زدہ افغان عوام کے مسائل کا حل، امن و سلامتی کی بحالی، مختلف افغان دھڑوں سے اتحاد، انصاف اور عمومی استحکام کی فضا قائم کرنا باقی ہیں۔ ہمیں بے جا توقعات بھی نہیں رکھنا چاہیے طالبان کے ہاتھ کوئی "عینک والا جن” نہیں لگا جن سے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کے تمام مسائل حل اور مشکل حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔ ایسے تبصروں سے بھی اجتناب برتنا چاہیے جو نفرت اور جانبداری کے باعث بنتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے درکار تمام اسباب کو اثر اور طاقت بخشیں اور جنگ، بدامنی اور بربادی کے اسباب کو زنگ لگا دیں تاکہ یہ دنیا رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ بن سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے