شادی میں تاخیر: انفرادی اور اجتماعی بحرانوں کا سبب

انسان جب جوان ہوتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا پھر عورت تو اس کی فطرت میں ایک نئے رشتے کی تحریک شروع ہو جاتی ہے اور اسی رشتے کے بروقت انعقاد ہی ایک فرد کے حقیقی اطمینان، سماجی کردار، معاشی ذمہ داری اور روحانی اقدار کی پاسداری کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس میں غیر ضروری تاخیر بے شمار اخلاقی، جذباتی، سماجی اور معاشی بحرانوں کا سبب بنتا ہے۔ میں ہمیشہ یہ خیال دہراتا رہتا ہوں کہ کسی بھی فرد کو اپنی عملی، معاشی اور ازدواجی زندگی کا آغاز کرنے میں پچیس سال سے زیادہ تاخیر قطعاً نہیں کرنی چاہیے ورنہ پھر بندہ سراسر خسارے میں چلا جاتا ہے۔

شادی کا رشتہ انسانی تہذیب و تمدن کا وہ نایاب اور نازک سنگِ میل ہے جس میں محض دو افراد کی ایک نئی زندگی کا اِضافہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ دو ارواح کے درمیان ایک ایسی مقدس اور اطمینان بخش ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے جو زندگی کے سفر کو ایک شاہکار میں بدل دیتی ہے۔ شادی کا رشتہ صرف جسمانی یا مادی اشتراک کا نام نہیں، بلکہ یہ دو دلوں، دو ذہنوں اور دو روحوں کا وہ خوبصورت الہامی امتزاج ہے جہاں "میں” اور "تم” کی تفریق ختم ہو کر "ہم” کی ایک نئی، پائدار اور شفاف حقیقت جنم لیتی ہے۔ اس کی بنیاد محبت کے اس گہرے سمندر پر استوار ہوتی ہے جس کی لہریں ہمدردی، قربانی اور باہمی احترام کے جذبات سے لبریز ہوتی ہیں۔ شادی درحقیقت زندگی کے خالی کینوس پر محبت کے روشن رنگ بکھیرنے کا وہ خوبصورت اور مقدس فن ہے جس کا ہر مظہر ایک نئی امید، ایک نئی چمک اور ایک نئی روحانی کیفیت کا پیغام دیتا ہے۔

شادی کا رشتہ زندگی کی بے یقینیوں اور تلخیوں کے خلاف ایک مضبوط قلعے کی مانند ہے، جہاں فرد اپنی تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود مکمل تحفظ اور قبولیت محسوس کرتا ہے۔ یہ وہ پرسکون باغ ہے جہاں انسان زندگی کے تمام طوفانوں اور مصائب سے تنگ آکر پناہ لیتا ہے اور اپنے ساتھی کے سائے میں اطمینان اور سکون کی بیش قیمت دولت پاتا ہے۔ یہ رشتہ انسان کی تنہائیوں کو ختم کرکے اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرتا ہے، جس کے بغیر زندگی کی دوڑ بے مقصد اور بے لذت محسوس ہوتی ہے۔ شادی کی یہی افادیت اسے صرف ایک معاشرتی رسم نہیں بلکہ ایک گہری نفسیاتی اور روحانی ضرورت بنا دیتی ہے، جو انسان کو مکمل ہونے اور اپنی پوری انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مدد دیتی ہے۔

جذباتی اعتبار سے دیکھا جائے تو شادی کا رشتہ قدرت کے عظیم الشان فن پاروں میں سے ایک ہے۔ جس طرح موسیقی کے مختلف سُر مل کر ایک دلکش ساز کی تشکیل کرتے ہیں، اسی طرح شادی میں دو مختلف شخصیتیں اپنے اپنے رنگ اور آہنگ لے کر ایک ایسا حسین و جمیل امتزاج تشکیل دیتی ہیں جو زندگی کو ایک مسحور کن منظر نامہ بنا دیتا ہے۔ یہ رشتہ صرف موجودہ لمحات کو ہی خوش گوار نہیں بناتا بلکہ مستقبل کے خوابوں کو بھی حقیقت کا لباس پہناتا ہے۔ اس رشتے کی یہی جمالیاتی اور معنوی پہلو اسے انسانی زندگی کا سب سے قیمتی اور خوبصورت تحفہ بنا دیتے ہیں، جو کہ نہ صرف ایک فرد کی ذات کو سنوارتا ہے بلکہ پوری انسانی نسل کی بقا اور تہذیب کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔

پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں شادی کو ایک مقدس رشتہ اور سماجی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں رشتوں کے بروقت انعقاد میں متعدد رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں، جن کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ رکاوٹیں نہ صرف نوجوان نسل کی نفسیاتی صحت متاثر کر رہی ہیں بلکہ معاشرے کے استحکام اور اجتماعی اقدار کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہیں۔ شادی میں تاخیر اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ فرد، معاشرہ اور ریاست سب غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ فطری طور پر زندگی بسر ہو رہی ہو تو ہر مناسب عمر میں شادی کا اہتمام خود بخود شروع ہو جاتا ہے اور اس میں کسی تاخیر کو گوارا نہیں کیا جاتا۔

گزشتہ کئی برسوں کے جرائم کے اعداد و شمار اگر ملاحظہ کریں تو یہ حقیقت برملا نظر آئے گی کہ شادی میں تاخیر کے سبب نوجوانوں کے اندر جرائم کے رجحانات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی جرائم میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران تقریباً چالیس سے پچاس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ بچے، خواتین اور ٹرانس جینڈر سب نشانے پر ہیں۔ اس طرح تشدد سے جڑے جرائم میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ معمولی معمولی باتوں پر غیر معمولی ردعمل دے کر بڑے بڑے سانحات کا باعث بن رہے ہیں۔ جذبات پہ کنٹرول ہے نہ زبان پر، حالات کا ادراک کیا جاتا ہے نہ ہی مناسب سلوک کا اہتمام۔ جنس اور تشدد سے متعلق جرائم اس قدر کثرت سے صادر ہو رہے ہیں کہ ان کا درست اعداد و شمار تک رسائی ممکن نہیں۔ اس طرح نوجوانوں کو اپنی پڑھائی، کام اور جاب کے بارے میں بھی اپنی توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لوگ بالخصوص نوجوان ذہنی اور جذباتی یکسوئی سے بری طرح محروم ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ کس طرح اپنی توجہات اپنے کاموں پر مرتکز رکھیں۔ ان تمام مسائل کی جڑوں میں سب سے بڑا سبب کار فرما ہے وہ شادی کے رشتے کا بروقت انعقاد نہ ہونا ہے۔

عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی کے اخراجات میں روز بروز اضافہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جہیز کے غیر رسمی مطالبے، دھوم دھام سے شادی کی تقریبات، مہنگے تحائف اور رہائش کے مسائل نے شادی کو ایک مہنگا اور مشکل عمل بنا دیا ہے۔ متوسط اور نچلے طبقے کے خاندان اپنی آمدن کے مطابق شادی کے ان اخراجات کو برداشت نہیں کر پاتے اور یوں یہ صورتحال شادی بروقت منعقد کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ سوچا جائے تو یہ ایک خودساختہ قسم کی تکلفات ہیں جن میں لوگوں نے خود کو بلا وجہ مبتلا کر رکھا ہیں۔ ان تکلفات میں پڑنے کی بجائے سادگی اور وقار سے اپنے بچوں کا گھر بسا لیں اسی میں خیر اور بہتری پوشیدہ ہے۔

اس طرح نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اعلیٰ تعلیم اور کیریئر کی دوڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ طویل تعلیمی دورانیہ اور پھر روزگار کے حصول میں درپیش مشکلات کی وجہ سے شادی میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے بعد شادی کے لیے مناسب رشتہ ملنے کے آس میں مناسب عمر گزار چکی ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے تعلیمی نظام کے فرسودہ ہونے کی ایک واضح علامت ہے۔ ایک تعلیمی نظام آگر کسی فرد کو پچیس سال کے اندر اندر کام کا قابل بنانے میں ناکام ہو جائے تو بخدا وہ قابل اصلاح ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کل تعلیمی ادارے جنسی جرائم اور منشیات کے گڑھ بن چکے ہیں جہاں سے ڈگریاں لے کر پھر عملی مہارتیں نہ ہونے کے سبب نوکریوں کے لیے در در کے خاک چھان رہے ہیں۔

اس طرح خاندان، برادری، ذات پات اور مسلک کے تناظر میں رشتوں کی تلاش ایک پیچیدہ عمل بن گیا ہے۔ غیر ضروری سماجی پابندیاں اور دقیانوسی معیارات نے شادی کے مواقع محدود کر دیے ہیں۔ خاندان سے باہر کے شادیوں کی حوصلہ شکنی اور "خاندان کی عزت” کے نام پر نوجوانوں کی ترجیحات کو مسلسل نظر انداز کرنا بھی اہم رکاوٹیں ہیں۔ شادی میں تاخیر سے فطری تقاضوں کو بریک نہیں لگتا بلکہ وہ تکمیل کی صورتیں تلاش کرتے ہیں اور یوں جس خاندانی عزت کی فکر لوگوں کو لاحق رہتی ہے اس کے بالکل خلاف نوجوان چل پڑتے ہیں اور بزرگوں کو پتہ تک نہیں چلتا۔ بزرگوں کو ذرا اپنا ظرف بڑا کر کے مناسب رشتوں کے لیے آمادہ ہونے چاہئیں نہ کہ نامناسب معیارات کے پیچھے نوجوانوں کی زندگی اور اخلاقیات تباہ کرنے کا خطرہ مول لیا جائے۔

لڑکے اور لڑکیوں کے لیے طے کردہ غیر حقیقی معیارات (جیسا کہ خوبصورتی، رنگ روپ، قد کاٹھ، نوکری، بیرون ملک قیام وغیرہ) نے مناسب رشتہ ڈھونڈنے کے عمل کو سخت مشکل بنا دیا ہے۔ لڑکیوں کے خاندان اکثر زیادہ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم لڑکوں کی تلاش میں رشتہ ملنے میں تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ رشتے کے لیے قابل قبول صورت اور حالت کافی ہے اور اس سے زیادہ کی فکر میں زندگی کا اثاثہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح نے بھی نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کو شادی کے بارے میں بے انتہا محتاط بنا دیا ہے۔ یہ خوف انہیں شادی کے عمل میں، فیصلہ سازی میں تاخیر پر مجبور کر دیتا ہے۔

شادی محض دو افراد کا ملاپ نہیں بلکہ ایک ایسے صحتمند معاشرے کی تعمیر کا بنیادی نکتہ ہے جہاں افراد کی جذباتی و نفسیاتی تسکین انہیں معاشرتی برائیوں سے دور رکھتی ہے۔ یہ رشتہ انسان کو بے راہ روی سے بچاتے ہوئے اس کی صلاحیتوں کو مثبت سمت دیتا ہے، جس کا ثمر صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورا خاندان اور بالآخر سارا معاشرہ اس سے مستفید ہوتا ہے۔ بروقت شادی نوجوانوں کو ذمہ داری کا احساس دلا کر انہیں معاشرے کے مفید اور فعال رکن میں تبدیل کر دیتی ہے، جبکہ اس میں تاخیر نہ صرف فرد کے اندر بے چینی پیدا کرتی ہے بلکہ معاشرے میں جرائم اور بے اطمینانی کو بھی ہوا دیتی ہے۔

موجودہ دور میں جہاں معاشی دباؤ اور مادی تقاضوں نے شادی جیسے فطری عمل کو مشکل بنا دیا ہے، وہیں ہماری سماجی اقدار میں پیدا ہونے والی کجی نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج کا نوجوان شادی کے بجٹ کو لاکھوں میں سوچنے لگا ہے، جبکہ اس کی اپنی معاشی استطاعت اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شادی کو ایک فطری، سادہ اور مقدس عمل کے طور پر قبول کریں نہ کہ ایک مادی اور مالی نمائش کا ذریعہ۔ والدین اور بزرگوں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور انہیں سادگی سے شادی کے رشتے میں منسلک ہونے میں مدد فراہم کریں، کیونکہ یہ ان کی اولین ذمہ داری ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ صحت مند، پرسکون اور ترقی یافتہ ہو تو ہمیں اپنے نوجوانوں کی بروقت شادی کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ وہ بنیادی انویسٹمنٹ ہے جو ہمارے معاشرے کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا، تعلیمی اداروں اور مذہبی رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شادی کی بروقت ترغیب اور اس میں آسانیاں پیدا کرنا درحقیقت ایک قومی خدمت ہے، جس کا ثمر ہمیں ایک پُرامن، خوشحال اور اخلاقی طور پر مستحکم معاشرے کی صورت میں ملے گا۔

ہم مانے یا نہ مانے لیکن شادی میں تاخیر کے باعث نوجوانوں میں بے چینی، مایوسی، تنہائی کا احساس اور ڈپریشن جیسے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ والدین پر بھی سماجی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح شادی میں تاخیر کے نتیجے میں معاشرے میں غیر اخلاقی سرگرمیوں، جنسی بے راہ روی اور ذہنی بے سکونی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو پاکستان جیسے مذہبی معاشرے کے لیے بے انتہا تشویشناک ہے۔ اس طرح بروقت شادی نہ ہونے سے خاندانی نظام کی تشکیل متاثر ہوتی ہے۔ اولاد کی پیدائش میں تاخیر کے طبی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس طرح بعض صورتوں میں یہ تاخیر جنسی جرائم میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جس کا براہ راست تعلق معاشرتی عدم تحفظ سے ہے۔

شادی کے اخراجات میں کمی کی سماجی مہم چلائی جائے۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے "نکاح آسان” مہم کا آغاز کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کو عمومی قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔ اس میں بنیادی مقصد یہی پیش نظر تھا کہ شادی کے مواقع پر غیر ضروری اخراجات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس طرح حکومت کی جانب سے سادہ شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مراعات اور طریق کار دی جائیں۔ "ون ڈش” کے نام سے ایک پروگرام آغاز ہوا تھا لیکن وہ باقاعدہ نہیں چلا۔ اس طرح جہیز جیسی سماجی برائی کے خلاف بھی عمومی آگاہی پیدا کی جائے۔

رشتوں کے انتخاب میں لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کو اولیت دی جائے۔ اس طرح غیر ضروری سماجی پابندیوں کو ترک کیا جائے۔ اس طرح شادی کے لیے عمر کے صحیح تعین پر زور دیا جائے۔ آمریکہ میں ایک تحقیق ہوئی تھی پچاس برس تک چلی تھی۔ 80 یونیورسٹیز نے اس تحقیقی عمل میں پچاس سال تک حصہ لیا تھا اس تحقیق کا مقصد شادی کے لیے موزوں عمر کا تعین کرنا تھا اس تحقیق میں یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ "شادی کے لیے صحت اور صحت مند اولاد کے تناظر میں بہترین عمر بیس سے پچیس سال کے درمیان ہے”۔

نوجوانوں کی ذہنی اور اخلاقی تشکیل نو میں تعلیم و تربیت کے عمل کو خاص عمل دخل حاصل ہے اس لیے تعلیمی نظام اور نصاب میں شادی کے لیے موزوں عمر کو مدنظر رکھا جائے۔ اس طرح نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہو سکیں اور بروقت شادی کے قابل بھی۔ اس طرح اسلام میں شادی سے جڑی آسانیوں اور خیر و فضیلت کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا جائے۔ اس طرح نوجوانوں کو مختلف پلیٹ فارمز کی مدد سے شادی کے مقدس رشتے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی شادی بروقت کرنے میں معاون بنیں اور اولاد کی پسند کو خاص ترجیح دیں۔ اس طرح رشتوں کے انتخاب میں معقولیت اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے نہ کہ بے جا توقعات ذہنوں پر سوار ہو۔

معاشرے میں رشتوں کے بروقت انعقاد کے لیے اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں درپیش معاشی، سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کو دور کرکے ہی نوجوان نسل کو مثبت، اطمینان بخش اور تعمیری طرزِ زندگی کی طرف راہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ شادی کو ایک آسان، مقدس اور خوشگوار عمل بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تب کہیں جا کر ان بے شمار بحرانوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے جنہوں نے پورے معاشرے کا بری طرح احاطہ کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے