ایک ایسی محفل کی روداد… جس میں میں شریک نہ ہو سکا

ادب کی بزم میں جب کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی منعقد ہوتی ہے تو دراصل وہ لمحہ مصنف کے لیے بھی اعزاز ہوتا ہے اور شاگردوں کے لیے بھی باعثِ فخر۔ پروفیسر ڈاکٹر سید زبیر شاہ صاحب میرے استاد ہیں اور ان کے علمی و ادبی سفر کی ہر جھلک میرے لیے قیمتی ہے۔ بدقسمتی یہ رہی کہ میں ان کی حالیہ کتاب "خواب نگر میں سات دن” کی تقریبِ رونمائی میں شریک نہ ہو سکا، لیکن اس کتاب سے میری وابستگی اپنی جگہ ایک الگ کہانی رکھتی ہے۔

یہ کتاب جب پہلی بار شائع ہوئی تو میں نے اسی وقت اسے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ عجیب اتفاق کہ اسی دن میری سرجری تھی۔ ہسپتال کی کیفیت، وقت کی سنگینی اور علاج کے مراحل کے باوجود مجھے یہ موقع ملا کہ میں کتاب کا مطالعہ کروں۔ اُس لمحے کے احساسات میں نے اسی وقت قلم بند بھی کیے تھے۔ گویا یہ سفرنامہ میرے لیے محض ایک ادبی تحریر نہ تھا بلکہ میرے ذاتی تجربات اور زندگی کے نازک ترین دنوں کی یادوں سے جڑ گیا۔

تقریبِ رونمائی اب جا کے منعقد ہوئی، شاید وجوہات مختلف ہوں، یہ بہتر تو خود ڈاکٹر صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ البتہ فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے جب میں نے اس تقریب کے اشتہارات اور بعد میں روداد دیکھی تو دل کو سکون اور خوشی ملی۔ خاص طور پر حلقہ اربابِ ذوق پشاور کی اس محفل کی روداد جب نظر سے گزری تو یوں لگا جیسے میں خود اس بزم میں شریک رہا ہوں۔

یہ اجلاس 16 ستمبر 2025 کو منعقد ہوا، زیر صدارت جناب ناصر علی سید۔ یہ نشست عمومی تنقیدی نشستوں کے برعکس خاص طور پر کتاب کی رونمائی کے لیے سجائی گئی تھی۔ اس بات کی خوشی بھی ہے کہ یہ صرف ایک ادبی روایت کی پاسداری نہیں تھی بلکہ استاد محترم کی محنت اور قلمی جہاد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک حسین انداز تھا۔

کتاب پر ڈاکٹر اعجاز احمد اور پروفیسر ڈاکٹر اسحاق وردگ نے نہایت وقیع گفتگو کی۔ دونوں نے نہ صرف سفرنامے کے ادبی پہلوؤں پر روشنی ڈالی بلکہ اس کے فکری و ثقافتی حوالوں کو بھی اجاگر کیا۔ روداد پڑھ کر مجھے بھی وہی لطف آیا جو کسی محفل میں براہِ راست بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز احمد نے اس کتاب کو "یادش بخیر یا” کی کیفیت سے جوڑا اور کہا کہ یہ سفرنامہ دو دن میں ہی قاری کو اپنے ساتھ ہم سفر بنا لیتا ہے۔ ڈاکٹر اسحاق وردگ نے اسے ایک "شریف سفرنامہ” قرار دیا اور لکھا کہ زبیر شاہ صاحب نے اپنے تخیل کو حقیقت کے ساتھ یوں جوڑا ہے کہ قاری نہ صرف سفر کرتا ہے بلکہ ثقافت، تاریخ اور تہذیب کے رنگ بھی محسوس کرتا ہے۔

پھر جب استادِ محترم ڈاکٹر سید زبیر شاہ صاحب نے خود اپنے خیالات کا اظہار کیا تو ان کے الفاظ نے اس سفرنامے کی روح واضح کر دی۔ خاص طور پر "سات” کے ہندسے پر ان کی گفتگو دل کو چھو لینے والی تھی، جس میں مذہبی، تاریخی اور ثقافتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ذاتی تجربات کی جھلک بھی نمایاں تھی۔

یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد دل چاہا کہ میں بھی ان سب اہلِ علم اور اہلِ ذوق کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کروں جنہوں نے اس تقریب کو کامیاب بنایا۔ خاص طور پر ناصر علی سید، ڈاکٹر اعجاز احمد، ڈاکٹر اسحاق وردگ، ڈاکٹر سہیل احمد، قدرت اللہ خٹک، عبدالواحد اور دیگر تمام شرکاء اس خوشگوار بزم کے امین بنے۔

آخر میں یہی دعا ہے کہ میرے استاد محترم ڈاکٹر سید زبیر شاہ صاحب اسی طرح اپنے قلم کے ذریعے نئی نئی جہات ہمارے سامنے لاتے رہیں، اور "خواب نگر میں سات دن” جیسے علمی و ادبی سفرنامے ہمارے ادب کے سرمایے کو مزید وسعت بخشتے رہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے