دو میٹھے بول: ایک بہت ہی قیمتی انسان کی قیمت

سید منظور شاہ جان المعروف بہ زرداب جان میرے عزیز ہے، جدید تعلیم یافتہ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) ہے، سمارٹ ہے، محنتی ہے، حساس ہے، خوددار ہے، محتاط ہے اور ففٹی ففٹی اصول کے تحت ایک سیلف میڈ نوجوان ہے۔ وہ بے حد دلچسپ، زندہ دل، ہنس مکھ، نفیس، خوش مزاج، خوش لباس، خوش اطوار انسان مزید برآں مجلسوں کو چار چاند لگانے کی خوبی رکھتا ہے، اظہار خیال اور تبادلہ خیال کے لیے دستیاب مواقع اور وسائل کو بھرپور انداز میں استعمال کر رہا ہے۔ بات کرنے اور سمجھانے کے ڈھنگ سے بخوبی واقف ہے اور اپنے چہرے، لہجے اور بیانیے کے طفیل مخاطبین کی توجہ پانے بلکہ گھمانے پر قدرت رکھتا ہے۔

سید منظور شاہ جان بسلسلہ روزگار گزشتہ دس برسوں سے سعودی عرب میں مقیم ہے۔ وقت کی قدر کرتے ہوئے محنت اور صلاحیت کو کما حقہ کام میں لا کر اس مقصد میں اللہ کے فضل و کرم سے کامیاب ہوا ہے جس کے لیے لوگ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہیں اور پردیس سے جڑے طرح طرح کے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ منظور شاہ کو بوجوہ پردیس سے محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ وہ سمجھتا ہے بیرون ملک امکانات بھی ہوتے ہیں اور مسائل بھی اس کے خیال میں وہی سمجھدار ہے جو امکانات سے استفادہ کرے اور اسی طرح درپیش مسائل کا مقابلہ بھی تب کہیں جا کر بندہ کامیاب ہوتا ہے۔

سید منظور شاہ جان انسانی رویوں اور سماجی احوال سے بے انتہا دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں پیمانوں پر افراد و اقوام کے عروج و زوال کے عمل کو اپنے ادراک اور توجہ کا نشانہ بناتا ہے۔ وہ فرد کے آئینے میں قوم کا مشاہدہ کر رہا ہے اور اسی طرح قوم کے وجود میں افراد کی حیثیت کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے۔ مثلاً وہ ذاتی زندگی میں ترقی اور بہتری کے واسطے محنت اور صلاحیت پر انحصار اہم سمجھتا ہے جبکہ قومی سطح پر عروج و ارتقاء کے لیے قانون کی حکمرانی، ہر سطح پر احساس ذمہ داری اور بے لاگ انصاف کا عمل ضروری خیال کر رہا ہے۔ حقیقت پسند ہے اس لیے مغربی اقوام کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے اور کئی معاملات میں عربوں کی تعریف بھی کر رہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے بے شمار ایسے عیوب نظر آ رہے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کو آگے بڑھنے سے روکا ہے۔

سید منظور شاہ جان سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کرتا رہتا ہے لیکن تفریحی کم اور مقصدی زیادہ۔ تحریر اور تقریر دونوں ذرائع سے اس پلیٹ فارم پر موثر کام لیتا ہے۔

موصوف ہمیشہ مختلف اسالیب کا سہارا لے کر لوگوں کو اپنی شخصیت بہتر بنانے، لب و لہجہ درست رکھنے، تعلیم و ہنر سے آراستہ ہونے، جی لگا کر محنت کرنے، صاف اور سیدھا رہنے، معروف اخلاقیات کا مظاہرہ کرنے، غلط راستوں اور طریقوں سے بچنے اور بنیادی اصولوں کے مطابق چلنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ میرے سوشل میڈیا کے ان دوستوں میں سے ایک ہے جو میرے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ رہتا ہے اور کبھی کبھی تو ہمارے درمیان مختلف موضوعات پر مکالمے کافی طویل ہو جاتے ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ وہ بامقصد اور کار آمد ہوتے ہیں محض لفاظی سے بوجھل نہیں ہوتے۔

حال ہی میں سید منظور شاہ جان نے اپنی تصویر کے ساتھ ایک مختصر پوسٹ میں لکھا تھا "خرید لو ہمیں، صرف دو میٹھے لفظوں کی ادائیگی پر۔ ۔ ۔ ۔”

پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے ناچیز نے عرض کیا

بہت بڑی قیمت ہے یہ تو”
کیونکہ دو میٹھے لفظوں کے پیچھے مخلص دل، اچھے اخلاق، صاف نیت، شفاف ذہن، آسودہ روح، مضبوط ایمان اور طاقتور احساس بھی ہوتا ہے بخدا ان جواہر کے بغیر دو حقیقی میٹھے بول کبھی ادا نہیں ہو سکتے اس تناظر میں معاف کریں، آپ بہت مہنگے ہیں۔

رپلائی کرتے ہوئے کہنے لگا "کیا خوبصورت الفاظ لکھے ہیں۔ شکریہ جی”

آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ دو میٹھے لفظوں میں آخر کیا جادو ہے کہ ایک قیمتی اور کامیاب نوجوان نے انہیں اپنی قیمت بتایا ہے:

دنیا میں انسانی تعلقات کی بنیاد الفاظ اور رویوں پر ہی استوار ہے۔ میٹھے بول نہ صرف دوسروں کے دلوں کو جیت لیتے ہیں بلکہ ایسے لفظ بولنے والے کے اندر چھپے مخلص دل، مہربان روح، صحت مند سوچ، طاقتور احساس اور اچھے اخلاقی رویے کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ محض ایک رسمی سی بات نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقی خوبی ہے جو کسی بھی فرد کو معاشرے میں ممتاز بناتی ہے۔

مخلص دل وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے خیر خواہی سے بھرا ہو۔ جب انسان مخلص بنتا ہے تو اس کے الفاظ بھی میٹھے، رسیلے اور دل موہ لینے والے ہوتے ہیں۔ میٹھے بول دراصل خلوص کی پہچان ہیں۔ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مومن محفوظ رہیں۔” (بخاری)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ مومن کا دل مخلص ہوتا ہے اور وہ اپنے الفاظ سے کسی کو بھی تکلیف نہیں پہنچاتا۔

روح کی مہربانی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو فرشتوں جیسا بنا دیتی ہے۔ میٹھے بول بولنا درحقیقت مہربان روح کی علامت ہے۔ ایک مہربان شخص دوسروں کی تکلیف کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور اسے کم کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

"اور بندوں سے نرمی سے بات کرو۔” (سورۃ البقرہ: 83)

قرآن عظیم الشان کی یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ مہربان رویہ اور میٹھے بول استعمال کرنا اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ ترین صفات میں ایک سے ہے۔

اس طرح صحت مند سوچ رکھنے والا شخص ہمیشہ مثبت انداز میں بات کرتا ہے۔ وہ تنقید بغرض تعمیر کرتا ہے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی ہر آن پیش نظر رکھتا ہے۔ میٹھے بول دراصل اس کی ذہنی صحت اور پختگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے:

"زبان کی نرمی دوستی کو مضبوط کرتی ہے۔”

یہ بات اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ میٹھے بول صرف وقتی طور پر دوسروں کو خوش نہیں کرتے، بلکہ باہمی تعلقات کو بھی مستحکم بناتے ہیں۔ معروف دانشور اشفاق احمد نے لکھا ہے کہ "روٹھنے والے لوگ کمزور اور مریضانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ منانے والے صحت مند بھی ہوتے ہیں اور طاقتور بھی”۔

جو لوگ میٹھے بول بولتے ہیں، وہ درحقیقت جذبات کے لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں اور مشکل حالات میں بھی نرمی سے بات کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ رویہ ان کے اندرونی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ تاجدارِ کائنات، نبی مہربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"تم نرمی اختیار کرو اور سختی مت کرو۔” (مسلم)

یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ طاقتور وہ نہیں جو غصے میں زور و شور سے بولے، بلکہ وہ ہے جو صبر اور تحمل سے کام لے کر خاموشی اختیار کرے۔

اس طرح اچھے اور میٹھے اخلاق انسان کی پہچان ہوتے ہیں۔ میٹھے بول اچھے اخلاق کی سب سے بڑی نشانی ہیں۔ ایک بااخلاق شخص ہمیشہ دوسروں کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے اور کبھی بھی اچھے اخلاق کے بر خلاف برتاؤ اختیار نہیں کرتے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اور لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کرو۔” (سورۃ البقرہ: 83)

یہ آیت کریمہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اچھے اخلاق اور میٹھے بول ہی دراصل انسان کی کامیابی کی کنجی ہیں۔

میٹھے بول انسانی تعلقات کو سادگی میں سلجھانے کا ایک بے مثال ہنر ہے۔ یہ نہ صرف فوری طور پر کشیدگی کو کم کرتے ہیں بلکہ اعتماد اور ہمدردی کی ایک ایسی فضاء تعمیر کرتے ہیں جہاں سے مثبت رابطے کی بنیادیں پھوٹتی ہیں۔ ایک شکریہ، ایک تسلی، یا ایک حوصلہ افزا کلمہ مخاطب کے دل میں اتر کر اس کے تاثر کو یکسر بدل دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کلمۂ حسنہ (اچھا کلمہ) بھی صدقہ ہے۔” (بخاری و مسلم) یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ میٹھے بول محض رسمی الفاظ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا سماجی صدقہ ہیں جو معاشرے میں محبت اور رواداری کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

کامیاب ترین افراد کی شخصیت کا جائزہ لیں تو ان میں ایک مشترکہ خوبی نرم گفتاری اور خوش کلامی پائی جاتی ہے۔ میٹھے بول کامیابی کے سفر کو ہموار کرنے والا ایک ناگزیر وسیلہ ہیں۔ یہ نرم گفتاری دوسروں کے دلوں کو موہ لینے، اختلافات کو ختم کرنے اور تعاون حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ خوش اخلاقی نہ صرف انسان کی ذاتی وقار میں اضافہ کرتی ہے بلکہ اس کے کام کے دائرہ اثر کو بھی وسیع تر کرتی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ترقی کی سیڑھی کی ہر منزل پر میٹھے بول ہی ہیں جو انسان کو بلندیوں تک پہنچاتے ہیں۔

الفاظ درحقیقت انسان کے باطن کا آئینہ ہوتے ہیں۔ میٹھے بول کسی کے دل کی صفائی، نیت کی پاکیزگی اور روح کی بالیدگی کا اظہار ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہیں کہ بولنے والا اپنے اندر کے غصے، تکبر اور عناد پر قابو پا چکا ہے۔ جب انسان اپنے باطن کو نفاست، عاجزی اور محبت سے آراستہ کر لیتا ہے تو اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ خودبخود شہد سے زیادہ میٹھے اور دلکش ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے خاص ہدایت فرمائی: "اُس سے نرمی سے بات کرو، شاید کہ وہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر جائے۔” (سورہ طہٰ: 44) اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی ناموافق اور ظالم ترین شخص سے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے، کیونکہ میٹھے بول میں دلوں کو تبدیل کر دینے کی یکتا قوت پوشیدہ ہے۔

میٹھے بول ایک طاقتور سائنس ہے، یہ ایک نرم طاقت ہے، یہ بند دروازوں کو کھولنے کی چابی ہے، یہ ایک بہت بھاری نیکی ہے، یہ خیر اور بھلائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسان کے اندر چھپے ہوئے اخلاص، مہربانی، مثبت سوچ، طاقتور احساس اور اعلیٰ اخلاق کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ وہ جوہری خوبی ہے جو معاشرے میں امن، خوشی، احترام اور محبت کو فروغ دیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گفتگو کا انداز نرم سے نرم اور پیار بھرا بنائیں تاکہ نہ صرف ہمارے تعلقات مضبوط ہوں بلکہ ہماری شخصیت بھی مثبت انداز میں ابھر کر دنیا کے سامنے آئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے