آج کے معاشرے میں جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ایک المناک منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ لڑکیاں جن کے نام تو فاطمہ، عائشہ اور خدیجہ ہیں، مگر ان کا لباس اور چال ڈھال ایما، صوفیا اور میا جیسی لگتی ہے۔ جسم سے چپکے ہوئے تنگ لباس، کھلے بازو، نمایاں ہوئے جسم کے خدوخال کیا یہی وہ اسلامی تربیت ہے جو ہم اپنی اولاد کو دے رہے ہیں؟ یا ہم نے اپنی بیٹیوں کو یہ سمجھانا چھوڑ دیا ہے کہ لباس صرف جسم ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا تصورِ حیاء اور عزت کار فرما ہے۔
حیا ایمان کا نور ہے، اور پردہ عورت کے وقار کا سب سے مضبوط قلعہ۔ آج جب مغربی تہذیب کی یلغار نے ہمارے گھروں تک راستہ بنا لیا ہے، اسلامی اقدار کی پاسداری ہمارا فرض بنتی ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان عورت نے حیا کی چادر اوڑھی رکھی، وہ معاشرے کی تعمیر و تربیت کی علامت رہی۔
تاریخ اسلام کے درخشاں صفحات میں عورت کو وہ بلند مقام حاصل ہے جو کسی دوسری تہذیب میں نہیں ملتا۔ اسلام نے عورت کی عزت و وقار کو تحفظ دیا اور اسے معاشرے میں ممتاز مقام عطا کیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارتی دانشمندی، پاکیزہ اخلاق اور باوقار لباس، نیز حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی سادگی، شرم و حیا اور گھریلو ذمہ داریوں کا توازن، آج بھی مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (الاحزاب: 33)
اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ
حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو محسوس کریں، تو وہ زانیہ ہے۔ (ترمذی)
یہ تعلیمات عورت کو معاشرے میں باعزت مقام دیتی ہیں، لیکن افسوس! آج ہماری بہنیں اور بیٹیاں مغرب کی نام نہاد آزادی کے دھوکے میں اپنی میراث کو فراموش کر چکی ہیں۔
مغرب نے فیشن کے نام پر عورت کو صرف ایک "پرکشش صنعت” بنا دیا ہے۔ جدید لڑکیاں سمجھ نہیں پا رہیں کہ وہ اشتہارات اور تجارتی مفادات کا شکار ہیں۔ ان کا لباس، چال ڈھال اور سوشل میڈیا پر موجودگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ لائکس اور ویلیڈیشن کی خاطر اپنی عصمت کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔
مغربی معاشرے میں بے حیائی نے خاندانی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ طلاق کی شرح بلند ہے، ڈپریشن عام ہے، اور عورت کو صرف ایک فیشن ایبل اوبجیکٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہی آزادی اسے تنہائی اور اذیت میں دھکیل رہی ہے۔
لڑکیاں لائکس اور فالوورز کی خاطر اپنی حیا کو قربان کر رہی ہیں۔ ان کی تصاویر اور پوسٹس انہیں نمائشی شے بنا رہی ہیں، جبکہ اسلام نے انہیں پردے اور وقار کا تاج پہنایا تھا۔
فیشن انڈسٹری عورت کو کمرشل ٹول بنا کر استعمال کرتی ہے۔ نیم عریاں لباس اور بے ہودہ اشتہارات اسے معاشرے میں غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔ اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے مقدس رشتوں میں عزت دی، لیکن آج وہی عورت فیشن کے نام پر اپنی شناخت کھو رہی ہے۔
موجودہ دور کی تعلیم یافتہ لڑکی جدید علوم میں مہارت رکھتی ہے، لیکن دین کی بنیادی سمجھ سے بھی محروم نظر آتی ہے۔ یونیورسٹیاں ڈاکٹرز اور انجینئرز، سائنسدان وغیرہ تو تیار کر رہی ہیں، لیکن بااخلاق اور پردہ شناس بیٹیوں اور ماؤں کی تربیت کا اہتمام نہیں ہو پا رہا۔ کیا یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے ہم نے اپنی نسل کو تعلیم دلائی؟ اسلام علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ علم کا مقصد محض دنیاوی ترقی نہیں، بلکہ آخرت کی کامیابی بھی ہونی چاہیے۔
موجودہ تعلیمی نظام میں جدید علوم اور اسلامی اقدار کے درمیان توازن کی شدید کمی ہے۔ مدارس اور یونیورسٹیوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری لڑکیاں صرف ڈگریاں حاصل کر کے پیشہ ور بننا چاہتی ہیں، یا انہیں ایک اچھی مسلمان، بیٹی، بہن، بیوی اور ماں بننے کی اہمیت کا بھی احساس ہے؟ تعلیم کا مقصد محض کیریئر نہیں، بلکہ متوازن شخصیت کی تعمیر بھی ہونا چاہیے۔
فیمنزم کے نام پر عورت کو جو آزادی دی جا رہی ہے، وہ درحقیقت اسے استعمال کرنے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ مغرب نے عورت کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر بازار کی زینت بنا دیا ہے۔ اسلام اس کی تعلیم اور حقوق کا تحفظ کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی بے پردگی اور بے راہ روی کی اجازت نہیں دیتا۔ فیمنزم عورت کو مرد کے برابر بنانے کے بجائے، اسے اس کی فطری خوبصورتی اور وقار سے محروم کر رہا ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ خواتین اس چال کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟
موجودہ دور کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ بعض مردوں میں وہ غیرت اور حمیت باقی نہیں رہی جو اسلام نے ان پر فرض کی تھی۔ اسلام مرد کو گھر کا محافظ اور خاندان کا نگران بناتا ہے، لیکن موجودہ دور میں وہ مرد جو مغربی رجحانات کی تقلید کر رہے ہیں اپنی اس ذمہ داری سے غافل ہو چکے ہیں۔ باپ اپنی بیٹی کے بے پردہ ہونے پر خاموش رہتا ہے، بھائی بہن کے نامحرم سے مراسم پر آنکھیں بند کر لیتا ہے، اور شوہر بیوی کی نامناسب سرگرمیوں کو برداشت کرتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری)
آج کا مغرب زدہ مرد اپنی بہن یا بیٹی کے بے حیاء انداز کو جدیدیت کا نام دے کر فخر محسوس کرتا ہے، حالانکہ یہ غیرت کا فقدان ہے۔ جب تک مرد اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھیں گے، عورت کی حفاظت اور معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔
جدید فیشن اور بے حیائی کے رجحانات نے معاشرے کو گہرے نفسیاتی اور سماجی زخم دیے ہیں۔ لڑکیاں جو مغربی کلچر کے فیشن اور آزادی کے نام پر بے پردگی کو اپنانے پر فخر محسوس کرتی ہیں، درحقیقت وہ غیر محسوس طریقے سے ذہنی غلامی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ رجحان انہیں اپنی اصل شناخت، روایات اور دینی اقدار سے دور کر کے غیر محسوس غلامی میں جکڑ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود اعتمادی کی کمی، شخصیت کا انتشار اور روحانی خلا جنم لے رہا ہے۔
خاندانی نظام، جو کبھی مضبوط رشتوں اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر قائم تھا، اب بے حیائی کے باعث تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ گھروں میں بے راہ روی، طلاق کی شرح میں اضافہ اور نوجوان نسل کا اخلاقی انحطاط اس بات کی واضح علامت ہے کہ بے پردگی اور فیشن کے نام پر پھیلائی جانے والی بے حیائی خاندانی تباہی کو ہوا دے رہی ہے۔ اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا، تو آنے والی نسلیں نہ صرف دین سے بیزار ہو جائیں گی، بلکہ اخلاقی پستی میں اس قدر گر جائیں گی کہ ان کا اجتماعی تشخص ہی مٹ جائے گا۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد، خصوصاً بیٹیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں اور انہیں فیشن کے نام پر غیر اسلامی لباس خریدنے سے روکیں۔ محض روکنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ انہیں پردے کی اہمیت اور اس کے روحانی و دنیاوی فوائد سے آگاہ کریں۔
مردوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاموشی اختیار کر کے یا لاپروائی برت کر وہ گناہ میں شریک ہو رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنی بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو پردے کی تلقین کریں، لیکن نرمی اور حکمت سے کام لیں۔ زبردستی یا سختی سے کام لینے کے بجائے پیار اور محبت سے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔
معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بے پردہ خواتین کو طعنے دینے یا انہیں کمتر سمجھنے کے بجائے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ نرمی سے انہیں سمجھایا جائے کہ پردہ ان کی عزت اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔ معاشرتی دباؤ کے بجائے مثبت تربیت اور شعور اجاگر کرنے سے ہی اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔