امن منصوبے ہمیشہ کاغذ پر اچھے لگتے ہیں۔ صفحے پر سیاہی کے چند دھبے جملوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور انسان کو لگتا ہے جیسے مستقبل ہاتھوں میں ہے۔ لفظوں میں سب کچھ ممکن ہوتا ہے جیسے کہ جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی، تعمیرِ نو، عبوری حکومت۔ لیکن غزہ کی مٹی اور خون سے سیراب گلی کوچوں پر جب یہ لفظ اترتے ہیں تو ان کی چمک بجھ جاتی ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ فلسطین کے لیے امن کا منصوبہ بنایا گیا ہو۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کو حقِ خودارادیت ملے گا۔ نہ ملا۔ 1978 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں کہا گیا کہ مسئلے کا حل نکل آیا ہے۔ حل یہ نکلا کہ صرف مصر اور اسرائیل کے تعلقات بحال ہوئے، فلسطین پھر بھی بیچ میں لاوارث کھڑا رہا۔ 1993 کے اوسلو معاہدے میں وعدہ کیا گیا کہ پانچ برس میں فلسطینی ریاست وجود میں آ جائے گی۔ پانچ برس گزر گئے، پھر پچیس برس، اور اب 33واں سال ہونے کو ہے، مگر ریاست اب بھی خواب ہے۔ 2000 کا کیمپ ڈیوڈ ٹو، 2007 کا اناپولس، 2020 کے ابراہام ایکارڈز… ہر بار امن کے نام پر فلسطینی مزید سکڑتے گئے اور اسرائیل مزید پھیلتا گیا۔
اب جو نیا منصوبہ آیا ہے، وہ بھی انہی پرانی کہانیوں کا ایک اور ایڈیشن لگتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پرانی کتاب کا سرورق پھٹ گیا تھا، اب نیا کور لگا کر مارکیٹ میں بیچا جا رہا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ اسرائیلی انخلا مرحلہ وار ہوگا، ایک بین الاقوامی فورس امن قائم کرے گی، قیدیوں کا تبادلہ ہوگا، ایک عبوری انتظامیہ حکومتی معاملات چلائے گی لیکن اصل کہانی ان حاشیوں میں چھپی ہے جہاں باریک جملوں میں لکھا ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت "سکیورٹی وجوہات” کے تحت دوبارہ کارروائی کر سکتا ہے، مالیاتی فیصلے عالمی ادارے کریں گے اور مقامی قیادت محض نمائشی ہوگی۔ یعنی ایک بار پھر سوال وہی ہے کہ یہ منصوبہ امن کے لیے ہے یا کنٹرول کے لیے؟
پاکستان کی حکومت کی بات کی جائے تو اس کا رویہ بھی کم دلچسپ نہیں۔ پہلے پہل فٹا فٹ خیرمقدم کیا، پھر وضاحت دی کہ نہیں یہ ہماری دستاویز نہیں۔ ایک روز تعریف، دوسرے روز تردید۔ کبھی کہا "حمایت کرتے ہیں”، پھر کہا "اگر مسلم ممالک کی تجاویز شامل نہ ہوئیں تو قبول نہیں”۔ عوام یہ تضاد بھولنے والے نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی لہو میں ڈوبے ہیں اور یہاں بیانات کے جھولے جھولے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔ اگر حکومت سنجیدہ مؤقف اختیار کرے، مسلم ممالک کو اکٹھا کرے اور فلسطینی عوام کی عملی مدد کرے تو یہ اس کا قد بڑھا سکتا ہے۔ اگر طبی ٹیمیں بھیج دے، تعمیرِ نو میں ہاتھ بٹائے، امدادی پیکجز دے تو دنیا کو پیغام جائے گا کہ یہ صرف تقریر کرنے والا ملک نہیں بلکہ عملی شریک ہے۔ لیکن اگر سب کچھ صرف زبانی جمع خرچ اور ٹویٹ تک محدود رہا تو تاریخ یہی لکھے گی کہ پاکستان بھی محض "نعروں کے کلب” کا ایک رکن تھا۔
یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، پاکستان کا بھی ہے۔ کیا پاکستان اپنے آپ کو اصولوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا ہے یا مصلحتوں پر؟ کیا وہ کمزوروں کے ساتھ کھڑا ہوگا یا طاقتوروں کے پیچھے پیچھے چلے گا؟ کیا وہ صرف بیان دے گا یا کوئی عملی قدم بھی اٹھائے گا؟ غزہ کا امن منصوبہ ایک روشنی کی کرن ہو سکتا ہے، لیکن اس کے گرد دھوئیں کے بادل گہرے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس روشنی کے ساتھ ہے یا دھوئیں کے ساتھ۔
اور آخر میں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ غزہ کے بچے اب بھی ملبے کے ڈھیر پر کھیل رہے ہیں۔ ان کے کانوں تک شاید یہ نعرے نہیں پہنچتے کہ "ہم فلسطین کے ساتھ ہیں”۔ انہیں تو صرف ڈرون اور بارود کے آواز سنائی دیتی ہے۔