حال ہی میں قاضی حسین احمد مرحوم کی صاحب زادی، جماعت اسلامی کی مرکزی رہنما اور معروف سکالر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ نے وصی شاہ کے ساتھ پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے مرحوم شوہر کے آخری ایام کا تذکرہ بہت ہی جذباتی انداز میں کرنے لگی۔ کہا "انہیں اپنی موت کے بارے میں پہلے پتہ چلا تھا جس کے سبب انہوں نے ہم سب سے اطمینان کے ساتھ الوداعی گفتگو کی۔ کہا "ایک موقع پر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "میں آپ کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن زندگی شاید مجھے اس کا موقع نہ دیں”۔ مزید کہا "میں نے انہیں تسلی دی کہ ایسی باتیں نہ کریں آپ ٹھیک ٹھاک ہیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہم آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں ان شاءاللہ جلد ہی بالکل ٹھیک ہوں جائیں گے”۔ کہا "لیکن ان کا دل زندگی سے پھیر چکا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ "خواتین کے لیے دوسری شادی ضروری ہے اور اس کو ایک معیوب امر سمجھنا بالکل غلط ہے”۔ مزید کہا "خود ابا جان میری دوسری شادی کے حق میں تھے اور ایک جگہ میری شادی کی بات بھی چلی لیکن بوجوہ آگے نہیں بڑھی لیکن بہر صورت یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسری شادی خاص کر خواتین کے لیے ضروری ہے اور اس کے بغیر بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں”۔
میاں بیوی میں سے کسی ایک کا اچانک موت سے ہم کنار ہونا دوسرے کے لیے زندگی کے سفر کو ادھورا اور تاریک بنا دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا جذباتی موڑ ہوتا ہے جہاں زندگی کی کتاب میں خالی صفحات پڑے ہوتے ہیں۔ یہ صفحات نہ تو سوگ کے سیاہ لمحات سے بھرنے والے ہوتے ہیں، نہ ہی ماضی کے سنہری یادوں کو دہرانے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ اس وقت ایک تنہا رہنے والے فرد کو زندگی کے خاکے میں پھر سے رنگ بھرنے کے لیے ایک مستقل ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھانا اور اسے خوش گوار انداز میں بسر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
دوسری شادی ایک خواہش کم اور ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تو زندگی کے نئے باب کی وہ بنیادی ضرورت ہے جہاں عورت اپنی زندگی کو پھر سے ترتیب دے۔ دوسری شادی محض ایک سماجی رسم نہیں، بلکہ زندگی کے سفر میں ایک نیا موڑ ہے جہاں خواتین اپنی زندگی کے نئے معنوں سے روشناس ہوتی ہیں۔
زندگی کی یہ سخت حقیقت جب سامنے آتی ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، تو بچ جانے والا ساتھی خود کو ایک ایسے صحرا میں کھڑا پاتا ہے جہاں نہ تو سایہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی راستہ۔ ایسے میں دوسری شادی کوئی "عیش” نہیں، بلکہ لگے زخم پر مرہم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ مرنے والے ساتھی کی محبت کو فراموش کرنے کا نہیں، بلکہ اس کی یاد کو سینے سے لگاتے ہوئے زندگی کے سفر کو آگے بڑھانے کا فیصلہ ہے۔ انسانی دل محبت کے لیے تخلیق کیا گیا ہے اور زندگی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے، اور یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ ایک فرد تنہائی اور لاچارگی کے احساس اور جذباتی خلا کو پر کرنے کے لیے ایک نئے سہارے کی تلاش کرے۔ دوسری شادی درحقیقت زندگی کے آگے بڑھنے کے اصول کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ موت پر زندگی کی فتح کا اعلان ہے، یہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ آنسوؤں کے بہاؤ میں بھی ایک فرد کو مسکراہٹ کا حق ہے، اور یہ کہ ویرانی کے درمیان بھی امید کی کرن پنپ سکتی ہے۔ دوسری شادی نہ صرف جذباتی سکون اور سماجی تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ انسان میں حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے دوبارہ خوشی کو گلے لگانے کی غیرمعمولی صلاحیت موجود ہے۔
موت کی گھڑی سے گزرنے والا خاندان جب اپنے کسی فرد کو کھو دیتا ہے تو یہ صرف ایک جذباتی صدمہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ زندگی کے عملی پہلوؤں میں ایک بہت بڑا خلا بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب میاں بیوی میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے تو بچ جانے والے شریک حیات کے سامنے زندگی کے بہت سے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے ایسے حالات میں دوسری شادی کی اجازت دے کر نہ صرف انسانی فطرت اور ضروریات کا اعتراف کیا ہے، بلکہ صدمے اور مشکلات میں گھری زندگی کے لیے ایک جامع اور متوازن حل بھی پیش کیا ہے۔ اسلام کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی کو کسی کا دست نگر نہیں بلکہ سب کو سب کے شریک و معاون بنانا چاہتے ہیں اور مذکورہ صورتحال میں بھی عورت کے لیے اسلام کی منشاء یہی ہے کہ وہ مستقل محتاج، پریشان حال اور محروم نہ رہے بلکہ کسی مرد سے دوسری شادی کر کے ایک نئی زندگی کی شروعات کر لیں۔
قرآن کریم میں بیوہ عورتوں سے شادی کا ذکر متعدد آیات میں آیا ہے۔ سب سے واضح حوالہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 234 اور 235 ہیں:
سورۃ البقرہ آیت 234:
"وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ”
ترجمہ:
"اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں، تو وہ چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچ جائیں تو ان کے معاملہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے بارے میں دستور کے مطابق جو کچھ کریں، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔”
سورۃ البقرہ آیت 235:
"وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَن تَقُولُوا قَوْلًا مَّعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ”
ترجمہ:
"اور تم پر کوئی گناہ نہیں اس بات میں کہ تم عورتوں سے نکاح کا اشارۃً ذکر کرو یا اپنے دلوں میں اس کا ارادہ چھپاؤ، اللہ جانتا ہے کہ تم ان کا ذکر کرو گے، ان سے خفیہ وعدہ نہ کرو، البتہ معروف بات کہہ سکتے ہو۔ اور عقد نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ مدت پوری ہو جائے۔ اور جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے، سو اس سے ڈرتے رہو، اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا بڑا بردبار ہے۔”
انسانی فطرت ہے کہ وہ تنہائی برداشت نہیں کر سکتی۔ جب میاں بیوی میں سے کوئی ایک فوت ہو جاتا ہے تو بچ جانے والا شریک حیات شدید جذباتی خلا محسوس کرتا ہے۔ دوسری شادی اس خلا کو پر کرنے کا ایک فطری اور حلال ذریعہ ہے۔ اس طرح بیوہ عورتیں اور ان کے بچے معاشرے میں غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ دوسری شادی انہیں معاشرتی تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان کی کفالت کی ذمہ داری ایک نئے سرپرست کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اس طرح بیوہ عورتوں اور ان کے بچوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری شادی کے ذریعے ان کی معاشی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور وہ معاشی بدحالی سے بچ جاتی ہیں۔ اس طرح ماں یا باپ کے بغیر بچوں کی پرورش مشکل ہو جاتی ہے۔
دوسری شادی بچوں کو نئے سرپرست فراہم کرتی ہے جو کہ ان کی بہتر پرورش میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
آج کل مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف فکری اور نظریاتی وجوہ کے سبب دوسری شادی پر اعتراضات ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان اعتراضات میں سطحی سوچ اور خیالات کار فرما رہتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات اور انسانی ضروریات کے حوالے سے ان میں کما حقہ ادراک نہیں پایا جاتا۔ آئیے چند ایک اعتراضات کا طائرانہ سا جائزہ لیتے ہیں اور ان کا اسلامی اور انسانی نقطہ نظر سے ادراک بھی کرتے ہیں۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ دوسری شادی سے پہلی عورت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ہر شادی کے لیے باہمی رضامندی کو ضروری قرار دیا ہے۔ اگر پہلی بیوی موجود ہے تو اس کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی نہیں کی جا سکتی۔ نیز، اسلام نے مرد کو انصاف کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کے حقوق ادا کرے۔
ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسری شادی سے پہلی بیوی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں
اسلام نے ہر بیوی کے حقوق واضح طور پر مقرر کیے ہیں اور مرد پر واجب کیا ہے کہ وہ ہر بیوی کے ساتھ یکساں سلوک کرے، خواہ وہ رہائش ہو، نان نفقہ ہو یا پھر دیگر معاملات ہو۔ اگر مرد انصاف نہیں کر سکتا تو اسلام نے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جدید دور میں دوسری شادی کی ضرورت نہیں
زمانہ بدلنے سے انسانی فطرت نہیں بدلتی۔ بے انتہا ترقی اور روشن خیالی کے باوجود آج بھی بیوہ عورتیں اور ان کے بچے معاشی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسری شادی ان مسائل کا جائز حل پیش کرتی ہے۔
ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ دوسری شادی خواتین کے حقوق کے خلاف ہے
اسلام نے خواتین کو دوسری شادی کا بھی حق دیا ہے۔ اگر عورت بیوہ ہو جائے یا طلاق لے لے تو وہ بھی دوسری شادی کر سکتی ہے۔ اسلام میں یہ حق دونوں فریقوں کے لیے بالکل مساوی ہے کوئی فرق اور امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔
اسلام نے دوسری شادی کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے کچھ اہم بنیادی شرائط بھی مقرر کی ہیں ان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے:
1. انصاف: مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان ہر قسم کے معاملات میں مکمل انصاف کرے اور مرد انصاف میں ناکام ہو جائے تو عورت کے پاس زندگی کا فیصلہ بدلنے کا حق محفوظ رہتا ہے۔
2. پہلی بیوی کی رضامندی: اگر پہلی بیوی موجود ہے تو اس حالت میں اس کی رضامندی حاصل کرنا یا اس کے جائز تحفظات کا ازالہ ضروری ہے۔
3. معاشی استطاعت: مرد میں اتنی معاشی استطاعت ہو کہ وہ دونوں خاندانوں کی کفالت کر سکے۔
4. اخلاقی ذمہ داری: مرد اخلاقی طور پر پختہ ہو اور وہ دونوں خاندانوں کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہو۔
تاریخ اسلام میں بہت سے مثالی واقعات ہیں جہاں دوسری شادیوں نے مثبت کردار ادا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات میں سے زیادہ تر بیوہ تھیں۔ ان کے ساتھ نکاح نے نہ صرف ان کی عزت و وقار کی حفاظت کی، بلکہ طرح طرح کے مشکل احوال سے دو چار خواتین کے ساتھ نکاح کر کے معاشرے میں ایک مثالی نمونہ قائم کیا۔
دوسری شادی اسلام میں ایک جائز، مباح اور بعض حالات میں مستحسن عمل ہے۔ موت سے پیدا ہونے والے مسائل میں یہ انسانی ضروریات اور معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر ایک متوازن حل پیش کرتی ہے۔ اسے معیوب سمجھنا دراصل اسلامی تعلیمات اور انسانی فطرت سمجھنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسری شادی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو سمجھیں اور انہیں معاشرے میں درست طور پر پیش کریں، تاکہ اس کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کیا جا سکے اور اسے غلط طور پر معیوب سمجھنے کے رجحان کو ختم کیا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے مزید برآں حقیقی انسانی احوال کا ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔