قوموں کے ادب میں ایسے نادر متون بھی ملتے ہیں جو وقت کی گرد میں کھو جاتے ہیں۔ جب کوئی محقق ان کو ڈھونڈ کر سامنے لاتا ہے تو وہ گویا اپنی زبان کو ایک نئی سانس دیتا ہے۔پشتو ادب میں بھی قدیم اور نادر متون کی تلاش کی یہ روایت خاصی پرانی ہے۔ میجر راورٹی جیسے مستشرق نے خوشحال خان خٹک کے متون کو متعارف کرایا، ورنہ شاید ہم اس عظیم شاعر سے اتنے واقف نہ ہوتے۔ یہی علمی روایت آگے چل کر علامہ اقبال اور خدیجہ فیروزالدین تک پہنچی۔ اگر میجر راورٹی نے خوشحال خان خٹک کے متون کو دوبارہ دریافت نہ کیا ہوتا اور ان کے کچھ کاموں کا ترجمہ نہ کیا ہوتا، تو نہ علامہ اقبال ان پر مضمون لکھ سکتے اور نہ ہی خدیجہ فیروزالدین ان پر پہلا پی ایچ ڈی مقالہ لکھ سکتی تھیں۔
میجر راورٹی کے بعد پشتون معاشرے میں کئی محققین و اہلِ نظر سامنے آئے۔ انہوں نے سخت حالات اور محدود وسائل میں بڑی محنتیں کیں اور پشتو کے کلاسیکی ادب کے اہم متون دریافت کیے، جن پر آج پشتو ادب کی عمارت قائم ہے۔ مگر تحقیق کا سمندر کبھی ساکت نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ پرانے متون بازیافت ہوتے رہتے ہیں اور ان پر تحقیق اور تدوین متعلقہ قوم اور زبان کے تہذیب کو حرکت بخشتی رہتی ہے اور تحقیق کا یہ سلسلہ نئے نئے جواہر پارے سامنے لاتا ہے۔
ہمارے دور میں پشتو کے نامور محقق اور مدون ڈاکٹر عبداللہ جان عابد نے اس مشن کو زندہ رکھا ہے۔ وہ متن شناسی اور تحقیق میں ایک نمایاں نام ہیں اور متن شناسی اور تحقیق کے ایسےاستاد ہیں کہ انہوں نےاسی موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ "بہرام شہزادہ و گل اندامہ”، "دیوانِ حضرت شاہ بابا” اور "اعجازنامہ ازصدر خان خٹک” جیسے قدیم متون کی بازیافت کے بعد اب انہوں نے پشتو ادب کو "تحفۃ اللہو” جیسا نایاب خزانہ اور نادر قدیم متن دیا ہے۔یہ متن خوشحال خان خٹک کے فرزند ارجمند اور پشتو کے نامور کلاسیکی صوفی شاعر عبدالقادر خان خٹک کا ہے، جو دراصل "معما” کے فن پر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں معما کے اشعار فلکیاتی دائروں کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تکنیک ہے جو فارسی میں تو ملتا ہے لیکن پشتو ادب میں اس کی مثال اس سے قبل موجود نہ تھی ۔ خوشحال خان خٹک نے معما کے علم کے بارے میں کیا خوب کہا تھا: معما کا علم صرف دانشمند کو سمجھ آتا ہے، ناواقف کے بس کی بات نہیں۔
ڈاکٹر عابد نے اس مدونہ کتاب کو فارسی اور پشتو نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ متن کا مقدمہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے، جس میں بزرجمہر اور عبدالقادر خان خٹک کا تعارف، معما کی اصطلاحات، متون کا تقابلی مطالعہ اور تحقیق کے طریق کے اصول کا بیان شامل ہے۔
بزرجمہر کے بارے میں جو معلومات انہوں نے فراہم کی ہیں وہ پہلی بار اس تفصیل کے ساتھ پشتو میں سامنے آئی ہیں۔ کتاب کے آخر میں قلمی نسخوں کی نادر تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں، جو تحقیق کی سنجیدگی کا ثبوت ہیں۔
ترقی یافتہ قوموں کے ادب میں جب بھی کسی محقق /مدون کی جانب سے کوئی نیا متن دریافت ہوتا ہے ،تو یہ واقعہ اہلِ علم و ادب کے لیے ایک یادگار واقعہ بن جاتا ہے۔ شایان شان طریقے سےاس محقق کی کاوشوں کا اعتراف کیا جاتا ہے، ان کے اعزاز میں علمی و ادبی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں ، جن سے نئے مکالمے جنم لیتے ہیں ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں متون کی قدروقیمت سے لوگ چنداں آگاہ نہیں ہیں ،اس لیے ہمارے ہاں محقق اور مدون اس قدرپیمائی اور عزت افزائی سے محروم ہے۔
بہر حال ڈاکٹر عابد کی یہ مدونہ کتاب 189 صفحات پر مشتمل ہے اور پشتو اکیڈمی کوئٹہ نے 2025 میں شائع کی ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ پشتو ادب کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل اس کتاب کو پڑھے، سمجھے اور تحقیق کی طرف راغب ہو۔ امید ہے کہ نوجوان نسل اس کتاب اور دیگر مدونہ متون کے ذریعے متن شناسی کے اصول سیکھے گی اور اس میدان میں مزید آگے بڑھے گی۔کیونکہ یہی متون مستقبل کے ادب کی بنیاد بنتے ہیں۔