استاد کے حقوق معاشرے میں ان کا مقام

استاد معاشرے کا وہ اہم ستون ہے جو افراد کی شخصیت، کردار، علم اور فکر کی بنیاد رکھتا ہے۔ایک استاد نہ صرف علم سکھاتا ہے بلکہ تربیت، رہنمائی اور راہنمائی کے ذریعے نسلوں کو سنوارتا ہے۔استاد کے حقوق کا احترام کرنا،اس کی عزت کرنا،اور اس کی خدمات کا اعتراف کرنا ہر فرد اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

اساتذہ قوم کے معمار ہیں، استاد هی نئی نسل کو علم، شعور اور اخلاق کی روشنی دیتے ہیں اور ایک کامیاب و مہذب معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔والدین اور اساتذہ دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت کے اہم ستون ہیں۔

والدین گھر میں تربیت فراہم کرتے ہیں جبکہ استاد اداروں میں بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔اگر ان دونوں کے درمیان اعتماد اور تعاون قائم رہے تو بچے بہترین شہری بن سکتے ہیں لیکن اگر معمولی سی غلطی کو جواز بناکر والدین اور اساتذہ کے درمیان خلیج پیدا کی جائے تو اس سے نہ صرف بچے کی شخصیت متاثر ہوتی ہے بلکہ تعلیم سے دلچسپی بھی کم ہو جاتی ہے۔حالیہ دنوں میں بچوں پر تشدد کے چند واقعات سامنے آئے ہیں جو یقینا افسوسناک ہیں اور کسی صورت قابلِ برداشت نہیں مگر انفرادی واقعات کو بنیاد بناکر پورے طبقۂ اساتذہ کے خلاف نفرت پھیلانا ناانصافی ہے کیونکہ اس رویے سے استاد کا وقار مجروح ہوتا ہے اور تعلیمی ماحول بھی خراب ہو جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اگر کسی استاد سے زیادتی یا تشدد کا معاملہ ہو تو اسے قانون کے مطابق حل کیا جائے لیکن اجتماعی طور پر اساتذہ کی عظمت کو برقرار رکھا جائے۔ یاد رکھیں کہ استاد کی عزت ہی علم کی عزت ہے، اور نفرت کے بجائے تعاون اور اعتماد کے ذریعے ہی ایک روشن اور باشعور قوم کی تشکیل ممکن ہے۔

استاد کا مقام

اسلام میں استاد کا درجہ والدین کے بعد سب سے بلند ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔
"مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے”
اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت کی اہمیت اور استاد کے مقام کو اسلام نے کس قدر بلند کیا ہے۔ استاد وہ چراغ ہے جو دوسروں کو روشنی دیتا ہے، چاہے خود جل کر ختم ہو جائے۔

استاد کے حقوق عزت و احترام

استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اسے عزت دی جائے۔ شاگرد کو چاہیے کہ وہ استاد سے مؤدبانہ انداز میں بات کرے، اس کے سامنے اونچی آواز میں نہ بولے اور نہ ہی غیر مناسب رویہ اختیار کرے۔ استاد کی تعظیم کرنا، اسلامی اور اخلاقی تعلیمات کا حصہ ہے۔

فرمانبرداری

استاد جو بھی علم دے، اس پر عمل کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے۔ اگر استاد نصیحت کرے یا رہنمائی فراہم کرے، تو اس پر توجہ دینا اور اسے اپنانا شاگرد کا اخلاقی فرض ہے۔

شکرگزاری

علم حاصل کرنے کے بعد استاد کا شکریہ ادا کرنا، اس کی محنت کا اعتراف کرنا اور اس کی خدمات کو یاد رکھنا، استاد کے حقوق میں شامل ہے۔استاد وہ ہستی ہے جو شاگرد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔

دینی و دنیاوی فلاح کی دعا:

استاد کے لیے دعا کرنا، اس کی کامیابی، صحت اور عاقبت کی بہتری کے لیے دعا گو رہنا، شاگرد کا اخلاقی فریضہ ہے۔ کیونکہ استاد کی محنت کے سبب شاگرد زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔

غیبت اور بدگمانی سے گریز

استاد کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا، اس پر تنقید کرنا، یا اس کے فیصلوں پر سوال اٹھانا نہایت نامناسب عمل ہے۔ شاگرد کو چاہیے کہ استاد کی غیر موجودگی میں بھی اس کا احترام قائم رکھے۔

معاشرتی اور معاشی تحفظ:

استاد کا ایک اہم حق یہ بھی ہے کہ اسے معاشرے میں عزت دی جائے اور اس کے معاشی حالات کا بھی خیال رکھا جائے۔ ایک استاد کی عزت صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی ہونی چاہیے۔ ریاست اور معاشرہ دونوں کو چاہیے کہ اس کی محنت کا معقول صلہ دیں۔

آج کا معاشرہ اور استاد

بدقسمتی سے موجودہ دور میں استاد کا مقام پہلے جیسا نہیں رہا۔ سوشل میڈیا، غیر سنجیدہ رویوں اور عمومی بدتمیزی نے استاد کا احترام کم کر دیا ہے۔ طلبہ اکثر استاد کی نصیحت کو نظرانداز کرتے ہیں، اور والدین بھی بعض اوقات استاد کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس صورت حال کو بہتر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

استاد کا حق صرف اس کی تعلیمات سن کر پورا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی عزت، اطاعت، دعا اور خدمات کے اعتراف سے ہی استاد کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور باکردار معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہمیں استاد کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ یاد رکھیں، استاد ایک درخت کی مانند ہوتا ہے جو پھل خود نہیں کھاتا بلکہ دوسروں کو دیتا ہے۔ ایسے محسن کی قدر نہ کرنا، ہماری اخلاقی پستی کی علامت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے