اگر غلطی سے آپ بیمار پڑ جائیں تو میں نے نوٹ کیا ہے کہ آپ کی بیماری کو آپ کے دوستوں سے زیادہ کوئی سیریس نہیں لیتا۔
میری بیماری کا سن کر طارق بٹ اور انور نے مجھے ویڈیو کال کی۔ جس قدر محبت اور ذمہ داری سے انہوں نے پوچھا کہ “ہمارے ذمے کوئی چیز لگانی ہے تو بتا دو، اور مرنے کے بعد جو بھی تم چاہتے ہو وہ بھی ابھی سے بتا دو، تمھیں جلانا ہے، دریا برد کرنا ہے یا جنازہ پڑھنا ہے؟”
حالانکہ کمبختوں کو میں نے بہت سمجھایا کہ مجھے صرف ٹھنڈ لگی ہے، ہلکی سی کھانسی ہے اور بخار ہے، کوئی خطرناک بیماری نہیں۔
لیکن ان کے لہجے سے، ان کی آنکھوں سے احساسِ ذمہ داری کی جو برسات ہو رہی تھی، وہ میری کوئی بات سننے پر تیار ہی نہ تھے۔
اب آپ خود بتائیے، بندہ بخار میں مبتلا ہو، ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی جا رہی ہوں، اور سامنے موبائل اسکرین پر دو دردمند چہرے ایسے جھانک رہے ہوں جیسے جنازے کی پہلی صف پکی کرانے آئے ہوں، تو انسان کے حوصلے کہاں رہ جاتے ہیں؟
طارق بٹ کہنے لگا، “یار دیکھو، ہم نے سوچا ہے تمہیں شاہ اللہ دتہ والے قبرستان میں دفنائیں، وہاں پارکنگ آسانی سے مل جاتی ہے۔”
میں نے کہا، “یار ابھی تو بخار ہے، تدفین کی منصوبہ بندی کچھ جلدی نہیں؟”
کہنے لگا، “ارے نہیں، بندہ وقت سے پہلے پلاننگ کرے تو سہولت رہتی ہے، تم تو جانتے ہو آج کل قبریں بھی ایڈوانس بک ہوتی ہیں!”
ادھر انور نے ہاں میں ہاں ملائی: “اور اگر تُم چاہو تو ہم تمہارا یوٹیوب چینل بھی یادگاری میں چلا دیں گے۔ تھم نیل پہ لکھ دیں گے: ‘وہ جو ہمیشہ مسکراتا رہا، آج آرام کر رہا ہے’۔”
میں نے چھینک مار کر کہا، “بھائی میں آرام نہیں کر رہا، صرف دوا کے اثر میں ہوں!”
مگر ان دونوں کو جیسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں ابھی زندہ ہوں۔
سنی نے فوراً کہا، “ آخری خواہش بھی تو بتا دو، ہم نوٹ کر لیں، کل کو کہیں کوئی جھگڑا نہ ہو۔”
میں نے کہا، “آخری خواہش یہی ہے کہ تم دونوں خاموش رہو۔”
طارق نے فوراً سنجیدگی سے کہا، “یہ تو بہت آسان ہے، ہم ابھی سے شروع کر دیتے ہیں۔”
کیا زمانہ آ گیا ہے! پہلے لوگ بیمار کو دیکھنے جاتے تھے تو پھل لے کر، اور یہ میرے مخلص دوست قبر کی بکنگ کرانے میں لگے تھے۔
میری بیماری کی خبر دوستوں کے واٹس ایپ گروپ میں ایک اھم اعلان کی شکل میں پوسٹ کی گئی:
“اہم اطلاع: انتصار بھائی کو وائرس لگ گیا ہے، دعاؤں کی درخواست۔”
اب جو درجنوں کے حساب سے میسجز آنے لگے:
“اللہ مغفرت کرے… اوہ سوری… صحت دے!”
کسی نے تو لکھ بھی دیا، “میں نے خواب میں دیکھا تھا تم سفید کپڑوں میں ہو، اب سمجھ آیا کیوں!”
اب ان حالات میں بندہ کیسے صحت یاب ہو؟
میں نے ڈاکٹر کو بتایا، “سر دوا لینے سے دل زیادہ دُکھنے لگا ہے، کیا علاج ہے؟”
ڈاکٹر ہنس کر بولا، “دوست بدل لیں۔”
اگلے دن بٹ صاحب دوبارہ کال پر آ گئے۔
بولے، “یار ہم نے تقریباً ھر ایک چیز فائنل کر لی ہے، جنازے کے بعد قل والے دن بریانی میں تیز مصالحہ ہوگا یا ہلکا؟”
میں نے کہا، “یار اب بخار کم ہو رہا ہے۔”
کہنے لگا، “ تو پھر ہم قل ایک دن آگے کر دیتے ہیں۔”
میں نے موبائل رکھ دیا۔ دل چاہا اپنے بجائے ڈاکٹر سے اپنے دوستوں کا علاج کراؤں۔
بیماری کے دوران جو ایک نیا فلسفہ سمجھ آیا وہ یہ کہ انسان کے دوست، بیماری میں مریض سے بھی زیادہ جذباتی ثابت ہوتے ہیں۔
سب سے زیادہ خطرہ مجھے یہ تھا کہ کہیں اجتماع کی شکل میں بیمار پرسی کو نہ آ جائیں کیونکہ اگر کمبخت اگئے تو ہر کوئی اپنی پسند کا کھانا مانگے گا۔
خیر، دو دن بعد جب میں بہتر ہوا تو انہی دوستوں کو کال کی کہ “میں ٹھیک ہو گیا ہوں!”
یہ سن کر سب کے چہرے ایسے بن گئے جیسے ہاتھ آیا خزانہ چوک گیا ھو۔
انور کہنے لگا، “واقعی؟ ہمیں لگا تم ہمیں خواب میں بتاؤ گے۔”
طارق نے ہنستے ہوئے کہا، “تو پھر جنازے کا اعلان منسوخ کر دیں؟”
میں نے کہا، “ہاں، اور اگر کبھی تم دونوں بیمار پڑے تو میں تمہارے لیے آھنی تابوت لے کر آؤں گا!”
اس پر دونوں نے قہقہہ لگایا اور بولے، “تو پھر ہمیں واقعی ڈر ہے، کہیں تم زندہ نہ بچ جاؤ، کیونکہ تمہیں برداشت تو ہم نے ہی کرنا ہوتا ہے!”
آخر میں میں نے دل ہی دل میں سوچا،
دوست اگر آپ کے بخار کو بھی جنازے کی ریہرسل بنا دیں تو برا نہیں ماننا چاہیے۔
کیونکہ جو آپ کے مرنے سے پہلے آپ کے مرنے کی تیاری کر لے،
وہی سچا دوست ہوتا ہے.