انسانی شکل والے دَرِندے

اسلام آباد میں ایک المناک ٹریفک حادثہ پیش آیا، جس میں تین قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، جبکہ ایک شخص شدید زخمی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

حادثے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی۔
وجہ چاہے ڈرائیور کی غفلت رہی ہو، رفتار کی زیادتی یا قِسمت کا لکھا، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کسی گھر کے تین چراغ ایک لمحے میں گُل ہو گئے۔

کسی ماں کی گود اُجڑ گئی، کسی باپ کی محنت ضائع ہو گئی اور آس ٹوٹ گئی، شاید کسی بہن یا بیوی کی دنیا تاریک ہو گئی۔

یہ حادثہ بذاتِ خود بہت افسوسناک تھا، مگر اس سے کہیں زیادہ دُکھ اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کے نیچے لوگوں کے تَبصِرے کیسے تھے۔

میں نے سوچا تھا لوگ دُکھ کا اظہار کریں گے، دُعا کے کلمات لکھیں گے، یا کم از کم خاموشی اختیار کریں گے، مگر افسوس! وہاں کچھ اور ہی منظر تھا۔

کچھ لوگوں نے بڑی بے حِسی سے لکھا: “اچھا ہوا!”
کچھ نے مرنے والوں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جو شاید کسی دشمن کے لیے بھی نہیں کہے جا سکتے۔

کئی تَبصِرے اتنے نازیبا، غیر اخلاقی اور غیر اِنسانی تھے کہ پڑھ کر دِل دہل گیا۔

یقین نہیں آتا کہ یہ الفاظ کسی اِنسان کے ہاتھوں سے لکھے گئے ہیں، کسی ایسے معاشرے کے افراد کے جن کے ہاں اب بھی اِنسانیت، اخلاق اور دَرد جیسے الفاظ باقی ہونے چاہییں۔

یہ کمنٹس پڑھ کر میرے اندر ایک عجیب سی بےچینی اور اِضطراب نے جنم لیا۔

میں بار بار سوچتا رہا کہ آخر یہ لوگ ہیں کون؟
یہ کہاں سے آئے؟
یہ کس ماحول میں پلے بڑھے؟
یہ کس طرح کے گھروں سے تعلق رکھتے ہیں؟
اِن کے والدین کیسے ہوں گے؟
اِن کے گھروں کی تربیت کیسی ہوگی؟
کیا اِن کے ماں باپ نے کبھی اِنہیں یہ نہیں سِکھایا کہ مرنے والے کے لیے دُعا کی جاتی ہے، تضحیک نہیں؟

کیا اِنہوں نے یہ نہیں سُنا کہ “جو چلا گیا، وہ اب اللہ کے حضور ہے، تمہارا نہیں رہا”؟

مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ آخر اِن کے دِلوں میں اتنی سنگدِلی کہاں سے آئی؟

کیا یہ وہی معاشرہ ہے جس کے بارے میں ہم فخر سے کہا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم ایک زندہ قوم ہے، ہمدرد قوم ہے، احساس رکھنے والی قوم ہے؟

لیکن اگر یہی ہماری قوم کا چہرہ ہے تو یہ تو بہت بھیانک چہرہ ہے۔ اس سے تو تعفُّن اُٹھ رہا ہے۔

سوشل میڈیا نے ہمیں اِظہارِ رائے کی آزادی دی ہے، لیکن ہم اخلاقی پستی کا شکار ہو گئے ہیں۔

ہم نے سیکھا ہی نہیں کہ آزادی کے ساتھ ذِمّہ داری بھی آتی ہے۔

ہم ہر واقعے پر رائے دینے کو فرض سمجھ بیٹھے ہیں، چاہے ہمیں کسی کے دُکھ کا احساس ہو یا نہ ہو۔

ہم نے طنز، گالی اور مزاح کو اتنا معمولی بنا دیا ہے کہ اب کسی کی موت بھی ہمارے لیے “مواد” بن چکی ہے۔

ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہا کہ جو شخص چلا گیا، اس کے گھر میں قیامت بَرپا ہے۔

اس کے بچے رو رہے ہیں، اس کے والدین اپنے ہی وجود پر ماتم کر رہے ہیں، مگر ہم تَبصِرے کر رہے ہیں: “غلطی انہیں کی ہوگی”، “اچھا ہوا” وغیرہ وغیرہ۔

کیا ہم واقعی اتنے سخت دِل ہو چکے ہیں؟

کیا اب ہمارے دِلوں میں رحم اور احساس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی؟

اگر کوئی ہمارے سامنے سڑک پر مر رہا ہوگا تو کیا ہم صرف ویڈیو بنا کر اور قہقہہ لگا کر آگے بڑھ جائیں گے؟

سوچ کر رُوح کانپ جاتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ ہی اس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔

ہم اِنہی کے ساتھ دفاتر میں کام کرتے ہیں، اِنہی کے ساتھ بسوں میں سفر کرتے ہیں، اِنہی کے ساتھ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

یہ ہمارے درمیان ہی ہیں۔

اِن کی صرف شکل اِنسانوں جیسی ہے، اِن کے دِل اِنسانوں جیسے محسوس نہیں ہوتے۔

یہ دَرِندے ہیں جو اِنسانی شکل میں ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے چہروں پر مُسکراہٹ ہوگی مگر دِلوں میں اندھیرا۔

جن کے پاس تعلیم ہے مگر تربیت نہیں۔
جن کے پاس الفاظ ہیں مگر احساس نہیں۔
جن کے پاس رائے ہے مگر اخلاق نہیں۔

یہ وہی خَلا ہے جو آج ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں دکھائی دیتا ہے۔

ہم نے اپنے بچوں کو موبائل تو دے دیا، مگر اخلاق نہیں سکھائے۔

ہم نے اِنہیں تعلیم تو دی، مگر تربیت نہیں دی۔
ہم نے اِنہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کیا، مگر اِنسانیت کے اصول بھُلا دیے۔

ہم نے اِنہیں بولنا سکھایا، مگر یہ نہیں بتایا کہ کب خاموش رہنا چاہیے۔

ہم نے اِن کے ہاتھ میں موبائل تھما کر سمجھ لیا کہ شعور بھی دے دیا، مگر اصل شعور — احساسِ اِنسانیت — کہیں کھو گیا۔

آج اگر کوئی بچہ کسی کے مرنے پر قہقہہ لگاتا ہے، تو اس کا قصور صرف اس کا نہیں، یہ پورے معاشرے کی ناکامی ہے۔

یہ تربیت کی کمی کا المیہ ہے۔
یہ وہ زوال ہے جس کی ابتدا ہم سب کے گھروں سے ہوئی ہے۔
کل ہمارے مرنے پر بھی کوئی لکھے گا: “اچھا ہوا!”

ہمیں اب رُک کر سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے معاشرے کو کس سمت لے جا رہے ہیں۔

یہ قوم تبھی زندہ رہ سکتی ہے جب اس کے دِل زندہ ہوں۔

جب کسی کے مرنے پر دِل دھڑکنے لگے، آنکھ نَم ہو جائے، اور زبان سے خودبخود “إِنّا لِلّٰہِ وَإِنّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” نکلے۔

ورنہ وہ دن دُور نہیں جب ہم سب زندہ لاشیں بن جائیں گے — سانس لیتے ہوئے مگر احساس سے عاری۔

یہ حادثہ صرف تین جانوں کا نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حِسی کا نوحہ ہے۔

سوال یہ نہیں کہ حادثہ کیسے ہوا، بلکہ یہ ہے کہ ہمارے دِلوں کو کیا ہوا۔

ہمیں اپنے اندر کے اِنسان کو جگانا ہوگا، ورنہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کے مُردہ حصے بن جائیں گے جہاں دَرد محسوس کرنا جرم اور رحم کرنا کمزوری سمجھا جاتا ہے۔

اللّٰہ ہمیں احساسِ اِنسانیت واپس لوٹا دے، دوسروں کے دُکھ میں شریک ہونے کا شعور دے، اور ہمیں زندہ قوم نہیں بلکہ زندہ دِل اِنسان بنا دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے