مختیار بادشاہ: میرا دوست، میرا اے ٹی ایم

ہر فرد خواہ وہ عام ہو یا خاص، اکثر و بیشتر اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی فرد ایسا ضرور ہوتا ہے جو کہ اس کے لیے اے ٹی ایم کی مانند ہو۔ وہ اسے ہر دم، ہر وقت اور ہر صورت میں دستیاب ہوتا ہے۔ ایسا ہی دوست حقیقی معنوں میں تسلی کا سامان، اطمینان کا ذریعہ اور ایک حد درجہ پیچیدہ، گوں نا گوں احوال کی حامل اور ہر طرح کے سرد و گرم وقتوں والی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اپنے خاندان کے بعد سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں کوئی نہ کوئی دوست ایسا موجود ہوتا ہے اور بڑی مشکل میں ہیں وہ افراد جن کو یہ نعمت بوجوہ میسر نہیں۔

میری زندگی میں یہ مقام و مرتبہ میرے پیارے دوست، میرے بھائی، میرے رازدار اور میرے ہمدم دیرینہ برادرم مختیار بادشاہ کو حاصل ہے۔ لوگ اے ٹی ایم سے صرف پیسے نکلوا سکتے ہیں لیکن میں مختیار بادشاہ سے پیسوں کے ساتھ ساتھ (بوقت ضرورت، بقدرِ ضرورت) اس کا وقت، اس کی رفاقت، اس کی مشاورت، اس کی حمایت، اس کی کمپنی، اس کی مہمان نوازی اور اس کی ہمہ گیر دستیابی پر نہ صرف قادر ہوں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے لگاتار مستفید ہو رہا ہوں۔ برسوں کی شناسائی میں، میری خوش قسمتی ہے کہ اس کے خلوص، مہربانی، خندہ روئی اور گرم جوشی میں ذرہ بھر کوئی کمی نہیں دیکھی۔ یہ سب کچھ اس کی لامحدود وسیع الظرفی، فراخ دلی، نیک خوئی اور شرافت نفسی کی بدولت ممکن رہا ہے۔

دن ہو یا رات، گرمی ہو یا سردی، گھر ہو یا دفتر، گاؤں ہو یا پھر اسلام آباد، میں نے جہاں بھی کبھی مختیار بادشاہ کو چاہا ہے اس کو وہاں پایا ہے خوشی کے ساتھ، مسکراہٹ کے ساتھ، آمادگی کے ساتھ اور حد درجہ برادرانہ جذبے کے ساتھ۔ کچھ لوگوں کا احساس بندے کو تنہا اور بے آسرا نہیں ہونے دیتا اور میرے لیے مختیار بادشاہ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ مختیار بادشاہ کا یہ سلوک صرف میرے لیے مختص نہیں مخلوق خدا کی جس سطح پر اس سے واسطہ پڑتا ہے وہ اسی روپ میں اس کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ کتنے لوگوں کے وہ کام آیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل ریکارڈ صرف خدا کے پاس موجود ہے کسی اور کے پاس نہیں۔ میں بس مخلوق خدا کی خدمت اور سہولت کے سلسلے میں اس کے کچھ نہ کچھ رابطوں، باتوں اور دوڑ دھوپ کا عینی شاہد ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ معاشرہ اگر چہ رنگ بہ رنگ مسائل اور چیلنجوں کا بری طرح شکار ہے لیکن اس کے باوجود کچھ نہ کچھ انسانی اور اخلاقی خوبیوں نے اس کو اچھی طرح تھام رکھا ہیں اور یہی اس معاشرے کی سب سے بڑی اچھائی قرار پاتی ہے۔

دوستی انسانی زندگی کے سب سے اہم اور ضروری پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ زندگی کے اپنے سفر میں، ہم اکثر ایسے افراد سے ملتے ہیں جو خلوص، مہربانی اور مدد گاری کی مجسم تصویر کی صورت سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس دنیا کو تب تک آباد رہنے کا جواز حاصل ہے جب تک اس میں اچھے، سچے، میٹھے اور کھرے لوگ موجود ہیں۔ ایسے لوگوں سے اگر یہ دنیا خالی ہوئی تو دوسرے ہی دن حضرت اسرافیل علیہ السلام صور بجانے کے لیے اپنی پوزیشن درست کرنے لگ جائیں گے کیونکہ یہ دنیا صرف عیاشیوں، مستیوں، چوریوں، گناہوں، جرائم اور دل ازاریوں کے لیے قطعاً پیدا نہیں کی گئی ہے اس کا اصل مقصد خدائی عظمت و جلالت اور انسانی شرف و کرامت کے تقاضوں کو عملاً پورا کرنا ہے۔

دوستی خونی نہیں ارادی رشتہ ہے۔ یہ قدرتی نہیں انتخابی معاملہ ہے، یہ مجبوری کا نہیں بلکہ ٹوٹلی خود مختاری کا مظاہرہ ہے۔ کئی چیزیں مل کر مختلف لوگوں کو باہم قریب لاتی ہیں اور یوں ان میں متفقہ جذبات و احساسات کو جنم دے کر انہیں قریبی دوست بننے اور رہنے کا موقع عطا کرتی ہیں۔

مختیار بادشاہ کا رہائشی تعلق ضلع ہنگو (نریاب)، نسلی تعلق بنگش قبیلے، سیاسی تعلق اے این پی، تعلیمی تعلق یونیورسٹی آف انجینئرنگ پشاور اور ادارہ جاتی تعلق نادرا سے ہے۔ وہ ایک انجنیئر ہے، وہ حافظ قرآن ہے، وہ ایک خوبرو اور صحت مند جوان ہے، وہ ایک ذہین و فطین اور نرم گفتار و متحمل طبیعت کے حامل فرد ہے۔

وہ معاشرے کا ایک سفید پوش، ذمہ دار اور بے ضرر شہری ہے۔ وہ ایک حد درجہ خوش مزاج، خوش اخلاق، خوش اطوار، خوش ذوق، خوش شکل اور خوش لباس انسان ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک نیک، پارسا اور خدا ترس نوجوان ہے۔ اس کے اعتماد سے ظاہر ہے کہ وہ صلاحیت اور قابلیت کی دولت سے خوب مالامال ہے، اس کے ہاتھ اور زبان ہمیشہ انسانوں کو آسانیاں فراہم کرنے میں متحرک رہتے ہیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقتی ایک ایسی دل آویز مسکراہٹ سجی رہتی ہے جو دیکھنے والوں کو راحت بخشتی ہے، اس کے ماتھے پر وہ چمک ثبت ہے جو اس کی روحانی آسودگی کا پتہ دیتی ہے، وہ محفلوں کی رونق ایک ایسا نوجوان ہے جس کے زندگی سے بھرپور قہقہے اپنا ایک خاص ذائقہ رکھتے ہیں۔ آپ اس کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ شیئر کرتے ہیں تو وہ اپنے تجربے، خلوص، عقل اور خیرخواہی سب ملا کر ایک ایسا مشورہ دیں گے جو کہ مسئلے کا حل ثابت ہو۔

مختیار بادشاہ 1982 کو ہنگو میں پیدا ہوئے۔ آپ دو بھائی ہیں اور والدین دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حیات ہیں، آپ نے پرائمری تعلیم آبائی گاؤں کی گورنمنٹ پرائمری سکول نریاب سے پائی ہے، میٹرک ایف سی اے سکول حیات آباد، ایف ایس سی اسلامیہ کالج پشاور جبکہ بی ایس سی (Computer Systems Engg) انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور سے کی ہے۔ تعلیم کے بعد گزشتہ پندرہ سال سے نادرا کا وقیع حصہ ہے اور اس وقت آپ بطورِ اسسٹنٹ ڈائریکٹر (شعبہ نیٹ ورکس) نادرا ہیڈکوارٹرز میں خوشی، ذمہ داری اور کامل یکسوئی سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گاؤں میں قیام کے دوران قرآن کریم کے حفظ کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ دو ہزار چھ میں شادی کے مرحلے سے گزرا اور اب ماشاءاللہ سے پانچ بچوں (دو لڑکے اور تین لڑکیاں، ایک بیٹا پیدائشی طور پر معذور ہے) کا شفیق باپ ہے۔ دوستوں کا دوست اور یاروں کا یار ہمارا مختیار بلاشبہ میرے حلقہ یاراں میں گل سرسبد جیسا ہے۔

میرے ساتھ مختیار بادشاہ کا "ساتھ” کس قدر قریب اور درینہ ہے؟ اس بات کا اندازہ آپ ہمارے برسوں کے "ساتھ” سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہم بس میں ساتھ ہیں، ہم دفتر میں ساتھ ہیں، ہم رہائشی علاقے میں ساتھ ہیں، ہم غمی و خوشی کے مواقع پر ساتھ ہیں، ہم محفلوں اور مباحثوں میں ساتھ ہیں، ہم مشوروں اور پروگراموں میں ساتھ ہیں، ہم سوشل میڈیا کی سرگرمیوں میں ساتھ ہیں، ہم دعوتوں اور ضیافتوں میں ساتھ ہیں اور سب سے بڑھ کر سیاسی دلچسپیوں میں مختلف نقطہ ہائے نظر کے باوجود ساتھ ہیں۔ ہم روز کسی نہ کسی موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی مشورہ زیر غور لاتے ہیں اور اس اہتمام میں اگر کچھ مشترکہ طور پر کرنے کا ہوتا ہے تو وہ مل کر بجا لاتے ہیں، اگر تقاضا کسی معاملے میں بچنے کا ہوں تو پھر ساتھ ساتھ رہ کر بچتے ہیں اور پاس پاس سے ہو کر گزرتے ہیں اور اس عمل میں بھی حیرت انگیز طور پر ہم "ساتھ ساتھ” ہوتے ہیں۔

مختیار بادشاہ ایک کٹر قوم پرست ہے (لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس کی قوم پرستی نے دوسری قومیتوں سے نفرت کی شکل بالکل اختیار نہیں کی ہے، وہ بس اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے اور اسے اپنے حقوق ملنے اور مسائل کے حل کے آرزو مند رہتا ہے اور بس، نفرت اسے دوسری قومیتوں سے نہیں بلکہ ظلم اور ظالموں سے ہے) جبکہ خاکسار ایک ادنی نظریاتی کارکن۔

ہم برسوں سے نہ صرف ساتھ ہیں بلکہ روز سیاسی اور سماجی احوال و واقعات پر اپنا بے لاگ نقطہ نظر بھی باہم شیئر کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم کہیں ایک دوسرے کے لیے دل آزاری کے مرتکب ٹھہرے ہوں۔ ہمارے مباحثوں میں دلائل زبان پر آتی ہیں، جوش و جذبہ کی سطح موقع و محل کے اعتبار سے بلندی پر جاتی ہے، لطیفے سنائیں جاتے ہیں، قہقہے بھی بلند ہوتے ہیں اور گفتگو کی اس "دوستانہ میچ” میں ٹھیک ٹھاک "چھکے چھوکے” بھی لگتے ہیں لیکن مجال ہے کہ دل آزاری کی کوئی بات زبان پر آئے یا ایسا کوئی موقع خدا نخواستہ پیدا ہو۔ میرے اور مختیار بادشاہ کے درمیان احترام کا ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم ہے جس کو ہمارے دل و دماغ، جی و جان، سوچ و اپروچ اور جذبات و احساسات کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

آئیے دوستی کے لیے مطلوبہ اوصاف پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم دوستی میں واقعی کسی معیار کو دیکھتے بھی ہیں کہ نہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے اور دیکھنا بھی کہ ہم دوستوں کے معاملے میں معروف اقدار کا لحاظ کس قدر رکھتے ہیں۔ تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ "دوست، دوست کے دین پر ہوتا ہے (اس انتخاب میں غفلت کا مرتکب ہرگز نہ ہونا)”۔

اخلاص:

آج کل کے حالات میں مخلص دوست نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی دوست اپنے قول و فعل میں حقیقی ہوتے ہیں، ایسے دوست سچ بولنے یا ایماندارانہ رائے دینے میں کبھی نہیں ہچکچاتے۔ یہی خلوص آگے بڑھ کر، اعتماد کی بنیاد بنتا ہے، جس میں کھلی اور بامعنی بات چیت کا اہتمام ہوتا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم واضح مشورے اور مدد کے لیے ایک دوسرے پر بھروسہ کرسکتے ہیں، مخلصانہ دوستی میں ہم اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کو باہم شیئر کرنے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ باہم خلوص تعلق کے گہرے احساس کو فروغ دیتا ہے بلکہ اسے ہماری زندگی میں طاقت کا ستون بنا دیتا ہے۔

مہربانی:

مہربانی ایک آفاقی خوبی ہے جو کہ ہر سچے دوست میں چمکتی ہے۔ وہ ہمدردی اور افہام و تفہیم کو بڑھانے کے لیے اپنے راستے سے ہٹ جاتے ہیں، بغیر کسی غلط مقاصد کے دوسروں کی ترقی کی کوشش کرتے ہیں۔ مہربانی کا سلسلہ پیار کے چھوٹے چھوٹے اشاروں سے لے کر بے لوثی کے اہم کاموں تک دراز ہوتا ہے۔ دوست جو گرمجوشی اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں وہ ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں ہم مشکل وقت کے دوران بھی قابل قدر اور قابل ذکر جذبات محسوس کرتے ہیں۔

مددگاری:

کسی کے سامنے مدد اور حمایت کے لیے ہاتھ دراز کرنا دراصل دل کی آمادگی کا اعلان ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ایک مخلص اور دستیاب دوست باقیوں سے ممتاز ہوتا ہے۔ وہ ہمہ وقت دوسروں کی مدد اور حمایت کی فطری خواہش رکھتا ہے۔ چاہے قرض دینا ہو، عملی مدد فراہم کرنا ہو یا پھر مشکل لمحات میں محض تسلی دینا ہو۔ بوقت ضرورت مدد کرنے کا عزم ہماری زندگیوں کو بے پناہ طریقوں سے آسودہ کرتا ہے۔ ایسا دوست گویا زندگی کے امتحان میں ایک قابل اعتماد اتحادی بن جاتا ہے، جس سے زندگی کے بوجھ ہلکے اور آسانی سے قابل انتظام ہوتے ہیں۔

دستیابی:

دستیاب دوست کی سب سے واضح خصوصیت اس کی مستقل موجودگی ہے۔ وہ قابل اعتماد اور ثابت قدم ہوتا ہے، ہمیشہ مدد کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اس عمل میں وقت یا حالات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ہماری خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے کے لیے خود کو دستیاب کرتا ہے۔ اس کی غیر متزلزل وابستگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہم کبھی تنہا محسوس نہ کریں، ایسے احباب کی موجودگی میں ہم اپنے بامعنی تعلق اور اس سے جڑے تحفظ کے احساس کو قائم رکھتے ہیں۔

دماغی اور جذباتی تندرستی پر اثر:

مخلص اور مہربان دوست کی موجودگی ہماری ذہنی و جذباتی تندرستی اور روحانی آسودگی پر نمایاں اثر ڈالتی ہے۔ یہ اطمینان کہ ہمارے پاس کوئی ایسا شخص ہے جو ہماری گہری پرواہ رکھتا ہے اور حقیقی طور پر ہمارے لیے بہتر چاہتا ہے، یہ یقین تنہائی اور مایوسی کے احساسات کو دور کرتا ہے۔ دوستوں کی مدد زندگی کے چیلنجوں کے خلاف سہارے کے طور پر کام کرتی ہے نیز تناؤ اور اضطراب کو بھی کم کرتی ہے۔

پرورش کی نشوونما:

ایک مخلص اور دستیاب دوست نہ صرف مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیتا ہے بلکہ ہماری ذاتی ترقی اور نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تعمیری آراء اور حوصلہ افزائی ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور ان سے متعلق شعبوں میں کام کرنے میں مدد کرتی ہے جن میں بہتری کی ضرورت ہو۔ ہماری صلاحیتوں پر ان کا اٹل یقین ہمیں اپنے خوابوں اور خواہشات کو زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں مخلصانہ روابط تلاش کرنا حد درجہ مشکل بن گیا ہو، ایک انتہائی مخلص، مہربان، مددگار اور ہر طرح سے دستیاب دوست ایک خزانے جیسا ہوتا ہے۔ ان کا خلوص اعتماد کے لیے بنیاد بنتا ہے، ان کی مہربانی ہمارے دلوں میں گرمجوشی لاتی ہے، ان کی مدد ہماری پریشانی کو ہلکا کرتی ہے اور ان کی دستیابی ہمیں یقین دلاتی ہے کہ ہم کبھی تنہا نہیں ہوں گے۔ ہماری ذہنی تندرستی اور ذاتی نشوونما پر ان کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے اور ان کی غیر متزلزل حمایت دوستی کے بندھن کو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط کرتی ہے۔

آئیے ہم اپنی زندگیوں میں ایسے دوستوں کی موجودگی کی قدر کریں اور اس کا باقاعدہ جشن منائیں کیونکہ وہ اپنی محبت اور خلوص کے ذریعے ہمارے زندگی کے سفر کو مزید بامعنی، خوشیوں سے بھرا اور مکمل کرتے ہیں اور ہم سب دوسروں کے لیے وہ غیر معمولی دوست بننے کی کوشش کریں جو حقیقی معنوں میں تسلی کا ذریعہ ثابت ہو اور ایک ایسی دنیا کو فروغ دیں جہاں وسیع رحمدلی، گہرے خلوص اور ہمہ جہت دستیابی غالب ہو، پائیدار اور خوبصورت رشتوں کی آمیزش سے اچھے، سچے، میٹھے اور کھرے تعلقات تخلیق کریں تاکہ یہ دنیا رہنے کے لیے ایک ایک بہتر مقام بن سکے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مختیار بادشاہ اور اس کے خاندان پر اپنی رحمت کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دراز رکھے اور اس کی زندگی کو خوشیوں اور سعادتوں کا ایک جاری چشمہ بنا دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے