مولانا قاضی نثار احمد: گلگت بلتستان میں ایک چھپا صوفی

گلگت بلتستان کی سرزمین میں دینی علم، قربانی اور غیرتِ ایمانی کے بے شمار چراغ روشن ہیں، مگر ان میں ایک چراغ ایسا بھی ہے جو بظاہر عالمِ دین، خطیب اور قائد کے طور پر معروف ہے، مگر باطن میں وہ ایک چھپا ہوا صوفی، درویش اور مردِ خدا ہے۔

میری مراد مولانا قاضی نثار احمد صاحب ہے، قاضی صاحب وہ شخصیت ہیں جس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو دین، دعوت، علم اور اصلاحِ امت کے لیے وقف کر دیا۔

*علمی و خاندانی پس منظر*

مولانا قاضی نثار احمد 27 جون 1964ء کو گلگت کشروٹ کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم قاضی عبدالرزاق نوراللہ مرقدہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور گلگت کے اولین دینی رہنماؤں میں سے تھے۔

ان کے نانا مولانا عبدالرحیم اور سسر مولانا عزیزالرحمان بھی دیوبند کے فیض یافتہ علماء تھے۔ گویا علم و فضل مولانا قاضی نثار کے خمیر میں رکھا گیا تھا۔

ابتدائی تعلیم کشروٹ میں حاصل کی، اور اپنے والد سے ناظرہ قرآن، ابتدائی فارسی، صرف و نحو اور فقہ کی تعلیم پائی۔

میٹرک 1980ء میں وفاقی بورڈ سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ 1985ء میں والد کی ہدایت پر دینی علوم کے حصول کے لیے جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لے گئے۔

*علمی سفر کی داستان*

آپ نے درجہ ثانیہ سے درجہ سادسہ تک بنوری ٹاؤن، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، اور انوارالعلوم گوجرانوالہ جیسے ممتاز اداروں میں تعلیم حاصل کی۔

حضرت قاضی حمیداللہ جان رحمہ اللہ سے منطق و فلسفہ کے دقیق علوم پڑھے۔

دورہ حدیث 1991ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کیا۔

صحاح ستہ کی کتب آپ نے مولانا مصباح اللہ شاہ، مولانا حبیب اللہ مختار، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا یوسف لدھیانوی اور ڈاکٹر نظام الدین شامزئی جیسے اکابر سے پڑھیں۔

حضرت شامزئی رحمہ اللہ نے ان کی علمی استعداد دیکھ کر فرمایا تھا:

"تخصص کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں، مطالعہ جاری رکھو، تم تدریس کے لیے بنائے گئے ہو۔”

*روحانی نسبت اور بیعت*

مولانا قاضی نثار احمد کے باطنی و روحانی پہلو سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔

وہ خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علامہ یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی صحبت میں ایک سال گزارا، ان کے درس و وعظ میں بیٹھتے رہے، اور آخرکار انہی کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔

حضرت لدھیانوی نے نہ صرف بیعت کی بلکہ خلافت سے بھی نوازا، اور جامع مسجد گلگت کے ایک بڑے اجتماع میں فرمایا

"گلگت میں قاضی نثار میرا نمائندہ ہے، اس سے اصلاحی و روحانی فائدہ اٹھاؤ۔”

یہ بیعت محض ظاہری نسبت نہیں تھی بلکہ ایک گہرا روحانی رشتہ تھا۔ حضرت لدھیانوی نے خود لکھے ہوئے وظائف قاضی صاحب کو عطا کیے، جو آج بھی محفوظ ہیں۔

حضرت لدھیانوی کی شہادت کے بعد آپ نے دو مزید بزرگوں سے اصلاحی تعلق قائم کیا ۔

مولانا قاضی مظہر حسین چکوالی اور پیرانِ پیر حضرت خواجہ خان محمد رحمہمااللہ سے۔

یوں آپ کا تعلق علم و عرفان کے تین بڑے سلاسل سے جڑ گیا۔

*دینی و تنظیمی خدمات*

مولانا قاضی نثار احمد اس وقت تنظیم اہلِ سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے مرکزی امیر ہیں۔

یہ تنظیم فاضلین دارالعلوم دیوبند کے زیرِ اہتمام قائم ہوئی اور 1994ء سے آج تک مولانا قاضی نثار اس کی قیادت کر رہے ہیں۔

اسی کے ساتھ آپ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلسِ شوریٰ و عاملہ کے رکن بھی ہیں، یہ اعزاز گلگت بلتستان سے صرف انہیں کو حاصل ہوا۔

آپ جامعہ نصرة الاسلام گلگت کے رئیس و سرپرست ہیں ، وہ ادارہ جس کی بنیاد آپ کے والد گرامی نے رکھی۔

اسی کے ساتھ 2008ء میں آپ نے جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کی بنیاد رکھی جو آج گلگت بلتستان میں بنات کا سب سے بڑا دینی ادارہ ہے۔

2011ء میں آپ نے “سہ ماہی نصرة الاسلام” مجلہ جاری کیا جو دینی و فکری تحریروں کا مستقل حوالہ بن چکا ہے۔

*قربانی، جدوجہد اور صبر کی داستان*

قاضی نثار احمد صاحب نے حق گوئی اور دینی غیرت کی راہ میں بہت تکالیف برداشت کیں۔

وہ تین بار گرفتار ہوئے اور ایک بار گھر میں نظر بند رہے۔
2001ء میں صحابہ کرامؓ کے نام قومی نصاب سے نکالنے کی کوشش کے خلاف آواز بلند کرنے پر انہیں فوج نے گرفتار کیا، پٹیاں باندھ کر بدترین تشدد کیا گیا۔
مگر ان کی زبان پر شکر اور دل میں اطمینان ہی رہا۔
وہ واقعہ یاد کر کے کہتے ہیں۔۔۔

"میں ظاہراً ان کی قید میں تھا مگر حقیقت میں اللہ نے میرے رعب سے ان کے دلوں کو ہلا دیا تھا۔”

یہی رعب آج بھی ظالموں کے دلوں میں ہے اور یہی محبت عوام کے دلوں میں۔

*ذاتی اوصاف و مشاہدات*

میں نے خود سفر و حضر میں انہیں قریب سے دیکھا۔
قاضی صاحب تہجد گزار، ذکر و اذکار کے پابند، مہمان نواز اور بے نیاز انسان ہیں۔

ان کے دل میں لالچ، خوف، اور ریا نام کی کوئی چیز نہیں۔

بڑے بڑے حکومتی عہدے اور پیشکشیں ان کے دروازے تک آئیں مگر انہوں نے کبھی قبول نہ کیں۔
ان کی باتوں میں ایک مخلص صوفی کی جھلک، ان کے چہرے میں ایک باوقار درویش کا نور جھلکتا ہے۔

*تصوف اور گلگت بلتستان*

قاضی صاحب کے اندر تصوف و طریقت کی روح پوری طرح زندہ ہے، مگر افسوس کہ گلگت بلتستان کی زمین اس میدان میں کچھ بانجھ سی دکھائی دیتی ہے۔

یہ خطہ ایک ایسی خانقاہ کا منتظر ہے جو دلوں کی اصلاح کرے، نفوس کو منور کرے۔

قاضی صاحب اگر اس پہلو پر توجہ دیں تو ممکن ہے کہ یہ خطہ بھی روحانی تربیت کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے۔

مولانا قاضی نثار احمد گلگت بلتستان کے صرف ایک عالم قائد نہیں، وہ ایک صوفی مزاج، درویش دل، شریعت و طریقت کے جامع مردِ خدا ہیں،جن کی زبان پر علم، دل میں اخلاص، اور زندگی میں استقامت کا رنگ نمایاں ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کی عمر، عزت اور اثر میں مزید برکت عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے