فخر و غرور: ایک دو دھاری تلوار اور اس کے اثرات

انسانی شخصیت کے جھروکے میں پنہاں ‘فخر’ اور ‘غرور’ کے جذبات ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہیں۔ ایک طرف یہ فرد کو خود اعتمادی اور بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کے لیے پر تولتے ہیں، تو دوسری طرف اسے خود پرستی اور انا کے ایسے گہرے غار میں دھکیل دیتے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان جذبات کی اس پیچیدہ کشمکش کو سمجھے بغیر نہ فرد اپنی شخصیت کو سنوار سکتا ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ حقیقی معنوں میں مہذب و پرامن رہ سکتا ہے۔ آئیے، انسانی زندگی پر ان کے گہرے اور ہمہ گیر اثرات کی اس گرہ کو سلجھانے کی ایک سعی کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک صحت مند ‘انا’ ہمارا محافظ بن سکتی ہے اور کس طرح ‘غرور’ کی زہریلی شناخت ہماری انفرادیت اور سماج دونوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔

انسان سب اپنی فطرت، تخلیق، صلاحیتوں، کردار اور توقعات کے تناظر میں ایک دوسرے سے کافی قریب واقع ہوئے ہیں۔ جلد کی رنگت کو چھوڑ کر باقی اعضاء و جوارح میں موجود تناسب، ذہانت و فطانت کی طاقت، مختلف صلاحیتوں کی عطا، روح و اخلاق کی اتھاہ گہرائیوں میں پائی جانے والی خیر اور عزت و تکریم جیسی توقعات میں ہم سب، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور یہ فرق بھی دنیا میں میسر آنے والے مختلف اسباب اور ماحول کی بدولت ہے۔

یہ فرق اگر اپنی فطری مقدار اور معیار کے ساتھ موجود ہو تو قطعاً کوئی حرج والی بات نہیں بلکہ یہ زندگی کے مختلف، متنوع اور تہہ در تہہ اہداف کے حصول میں مددگار ہے لیکن اگر یہ فرق دوسرے انسانوں کی تذلیل و توہین، ضرر و نقصان اور محرومی و تباہی کے نتائج دینا شروع کردیں تو یہ فرق پھر انسانی برادری کے لیے بالکل مفید نہیں۔ اس سے نفرت و عداوت کی لاکھوں شکلیں برآمد ہوتی ہیں اور یوں انسانی سماج کو خیر، محبت، انصاف، احترام اور تحفظ سے محروم کرتی ہے۔

میرا خیال ہے کسی بھی صاحب ایمان، وسیع الظرف، معقول، سنجیدہ اور باکردار شخص کے دل میں اس احساس کے لیے کوئی گنجائش پیدا نہیں ہو سکتی جس کا نتیجہ دوسروں کی توہین و تذلیل کی صورت میں نکلے۔ خود کی برتری اور مخاطب کی کمتری کے احساس کو عام طور پر غرور کہا جاتا ہے۔ آئیے غرور کی حقیقت اور عواقب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:

غرور اپنی طاقت، دولت، عزت، نسبت اور منصب کی بدولت خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا، دوسرے لوگوں کو خود سے کم تر یا حقیر تصور کرنا اور یہ خیال رکھنا کہ کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا غرور کہلاتا ہے۔ غرور ایک ایسی انسانی حالت کا نام ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان خود کو دوسروں پر فوقیت اور فضیلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غرور اور تکبر کو ناپسند فرماتا ہے یہ عیب زندگی کو ہموار انداز میں آگے بڑھنے دیتا ہے نہ ہی بنی نوع انسان کو برابر کا درجہ دینے چھوڑتا ہے۔

غرور کا گناہ سب سے پہلے شیطان نے کیا یعنی اس علت کا باقاعدہ آغاز شیطان نے انسان کے رو برو کھڑے ہو کر کیا تھا پھر ان انسانوں نے اسے آگے بڑھایا جنہوں نے زندگی میں شیطانی نقش قدم اپنایا۔ ناعاقبت اندیش اور کم ظرف لوگ دنیا میں اپنی طاقت، دولت، عزت، نسبت اور منصب کے نشے میں پڑ کر اپنے اندر اس قدر غرور اور تکبر پیدا کر لیتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں خود کو مختلف "مخلوق” سمجھنے لگتے ہیں۔

تاریخ ایسے لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے مثلاً نمرود، شداد اور فرعون وغیرہ جو اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے اس قدر غرور میں مبتلا ہو گئے تھے کہ خود کو خدا کہلوانے لگے اور وہ لوگوں پر صرف اپنے غرور کی وجہ سے ظلم کے پہاڑ توڑتے تھے لیکن اللہ نے انہیں کچھ ہی مہلت کے بعد لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا۔

بڑائی و کبریائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں عاجزی و انکساری کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان میں غرور جیسے عیوب کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا لیکن کچھ لوگ ہر دور اور مقام پر ایسے پائے جاتے ہیں جو ذرا سی دولت، طاقت، عزت اور عہدہ پا کر ان میں وہ غرور پیدا ہوتا ہے جس کا نتیجہ دوسروں کو کم تر اور اپنے سے حقیر تر سمجھنا شروع ہو جاتا ہے، ایسے لوگ پھر عاجزی و انکساری جو کہ ایک بہترین اخلاقی خوبی ہے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے لہجے، چہرے، چال ڈھال اور رہن سہن میں غرور کی نامطلوب نشانیاں نمایاں ہوتی ہیں اور وہ اپنی طاقت، دولت، عزت اور منصب سے کام لیتے ہوئے کمزوروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔

انا اور غرور کے چند مثبت پہلوؤں اور اثرات بھی ہیں، لیکن جب انہیں انتہا پسندانہ یا غیر صحت مندانہ سطح پر لے جایا جائے تو لازماً وہ منفی نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ مثلاً انا اور فخر سے مراد کسی شخص کی خود شناسی اور خود نمائی کا وہ فطری احساس ہے جو قدرت نے ہر روح میں سمویا ہے اس میں کسی کے عقائد، تصورات، خیالات اور اپنے بارے میں مخصوص احساسات شامل ہیں۔ انا ایک مربوط اور خودی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ذمہ دار قوت ہے مزید برآں یہ افراد کو اپنے سماجی ذمہ داریاں انجام دینے اور ان کی جمی ہوئی خودی کی بنیاد پر فیصلوں میں مدد کرتا ہے۔ یہ احساس اپنے مناسب معیار میں ہو تو یہ زندگی میں خود اعتمادی، خود انحصاری اور خود پروری کو قائم و دائم رکھنے میں مددگار ہے۔

اس طرح فخر مختلف کامیابیوں، جدا گانہ صلاحیتوں اور منفرد خصوصیات کے لیے ایک جذباتی کیفیت ہے جس کو ہر شخص اپنے آپ میں قدرتی طور پر فروغ دیتا ہے۔ یہ ذاتی زندگی میں مختلف کامیابیوں، صلاحیتوں یا مجموعی طور پر سازگار ماحول سے پیدا ہوتی ہے۔ فخر میں اکثر و بیشتر اطمینان، وقار، خود اعتمادی اور عزت نفس کا احساس شامل رہتا ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا قوت ہے جو کہ لوگوں کو عزت و فضیلت پانے کے لیے مسلسل جدوجہد پر آمادہ رکھتی ہے۔

آئیے فخر کے مثبت اثرات کو سمجھنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں:

خود اعتمادی:

انا افراد کو صحت مند سطح پر خود اعتمادی اور اپنی صلاحیتوں پر یقین فراہم کرتی ہے، جو چیلنجوں پر قابو پانے اور ذاتی اہداف کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ خود اعتمادی ہمیشہ بہترین انسانی خوبیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے۔

حوصلہ افزائی اور بہترین بننے کی خواہش:

انا اور فخر ذاتی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پیچھے ایک طاقتور محرک کے طور پر کارفرما ہے۔ یہ افراد کو سخت محنت کرنے، اپنی کوششوں میں سبقت لے جانے اور اپنے اندر مسلسل بہتری لانے پر آمادہ رکھتا ہے۔

عزت نفس:

انا اور فخر کا ایک صحت مند احساس عزت نفس اور خودی کی دیکھ بھال بھی ہے کیونکہ اس سے افراد اپنی قدر و قیمت کو پہچانتے اور ان کے کم سے کم تقاضے ہر وقت ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔

باوقار سماجی اقدار کی آبیاری

وہ خاندان اور معاشرے جو طویل عرصے سے عزت، طاقت، دولت، مخصوص نسبت کی بدولت اپنی ایک منفرد حیثیت، ممتاز شناخت اور باوقار اقدار سے جڑنے کا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اس وجہ سے دنیا میں اپنا ایک ممتاز مقام پا لیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی قباحت نہیں یہ دوسروں کے لیے ایک کشش اور جاذبیت کا باعث ہوتے ہیں اور یوں ان میں بھی بہتر اور ممتاز بننے کی ایک تحریک سی پیدا ہو جاتی ہے۔

یہاں تک تو معاملہ بالکل ٹھیک اور مطلوب ہے لیکن اس مقدار سے بڑھ کر اس حد میں پہنچنا غلط ہے جہاں سے دوسرے لوگ اور طبقات حقیر محسوس ہونے لگے پھر یہ احساس غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر تہذیبی سمجھا جائے گا۔ آئیے اس رویے کے کچھ ایسے عواقب ملاحظہ کرتے ہیں جو انسانیت کے ضرر کا باعث ہیں۔

باہمی تنازعات:

ضرورت سے زیادہ انا اور غرور دوسروں کے ساتھ تنازعات اور تعلقات کشیدہ ہونے کا باعث بنتا ہے کیونکہ سب افراد میں خود کی اہمیت کا احساس قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے ایسے عالم میں وہ سمجھوتہ کرنے، دوسروں کی بات سننے یا مختلف نقطہ نظر ماننے کے لیے کم آمادہ ہو سکتے ہیں یہ رویہ رابطوں میں خرابی، دلوں میں ناراضگی اور ذاتی یا پیشہ ورانہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے.

خود آگاہی کی کمی:

مضبوط انا اور ضرورت سے زیادہ غرور افراد کو ان کی اپنی خامیوں، حدود اور بہتری کے شعبوں سے گویا اندھا کر دیتا ہے۔ جب لوگ خود پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اپنے بارے میں "مثبت” تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے "منفی” ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں تو وہ دراصل رائے عامہ کو اپنے خلاف ابھار دیتے ہیں یا اپنی غلطیوں کو دیکھنے سے قاصر بنتے ہیں۔ یہ رویہ آگے بڑھ کر ذاتی ترقی اور اصلاح میں ایک رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے.

ناکامی سے سیکھنے میں ناکامی:

بے قابو انا اور غرور کی علت میں مبتلا لوگ اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہیں نہ ہی اصلاح احوال پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ناکامیوں سے سیکھنے کے بجائے، وہ انہیں اپنی عزت نفس کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ذہنیت میں جمود اپنی جڑیں خوب مضبوط کرتا ہے۔

تنہائی اور بیگانگی:

ضرورت سے زیادہ انا اور غرور تنہائی کا باعث بھی بن سکتا ہے کیونکہ ایسے افراد اپنی ضروریات اور خواہشات کو دوسروں کی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اپنی خود غرضی اور ہمدردی کی کمی کی وجہ سے حقیقی روابط قائم کرنے یا بامعنی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے مطلوبہ جدوجہد نہیں کر سکتے یوں رفتہ رفتہ یہ کیفیت خود پسندوں کو لامتناہی تنہائی اور عدم اطمینان کے گہرے احساس میں مبتلا کر دیتی ہے۔

کمزور فیصلہ سازی:

جب سب سے بے نیاز ہو کر انا اور غرور کے گہرے بادلوں میں فیصلے ہوتے ہیں، تو افراد نہ صرف اجتماعی دانش تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں بلکہ دوسروں کے وسیع تر مضمرات یا نقطہ نظر پر غور کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد کو عزیز رکھتے ہیں۔ بے نیازی، مفاد پرستی اور دوسروں کے جذبات نظر انداز کرنے والے افراد، آس پاس کے لوگوں کے لیے منفی احساسات کا باعث بن سکتے ہیں۔

غلطیوں کو تسلیم کرنے کی صلاحیت میں کمزوری:

حد سے زیادہ مضبوط انا افراد کے لیے اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا یا اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کرنا مشکل بنا سکتی ہے۔ یہ ذاتی ترقی میں رکاوٹ اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ کر سکتا ہے۔ جب ان کی خود ساختہ تصویر کو کوئی چیلنج کرتا ہے تو وہ حد سے زیادہ دفاعی یا رد عمل کے جذبات کا شکار ہوتے ہیں جو تکلیف دہ حد تک جذباتی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

انا اور فخر خود فطری طور پر منفی چیزیں نہیں ہیں لیکن ان خصلتوں کی انتہا پسندانہ اور غیر صحت مندانہ اظہار دراصل منفی اثرات کا باعث بنتے ہیں۔ خود آگاہی، خود شناسی، عاجزی، تواضع، ربط و ضبط اور متوازن نقطہ نظر سے ذاتی ترقی کے حصول اور اجتماعی فلاح و بہبود کے امکان میں مدد مل سکتی ہے۔ خود شناسی اور خود نمائی کا احساس مناسب مقدار میں فطری ہے لیکن اس کا زیادہ بڑھنا شیطانی عمل ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ انا اور غرور پیچیدہ نفسیاتی مظاہر ہیں۔ وہ افراد کو خود اعتمادی، حوصلہ افزائی اور ایک مثبت خودی کی تصویر فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم، جب انا بڑھ جاتی ہے یا غرور حد سے زیادہ ہو جاتا ہے، تو یہ منفی نتائج جیسے تکبر، احساس برتری اور کشیدہ انسانی تعلقات کا باعث بن سکتا ہے۔ انا اور فخر کے منفی اثرات کو کم سے کم کرتے ہوئے ان کے مثبت پہلوؤں کو بروئے کار لانے کے لیے توازن مطلوب ہے اور اس مقصد کے اپنے اندر خود آگاہی پیدا کرنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے