چرچ آف انگلینڈ کی تاریخ میں ایک منفرد باب کا اضافہ ہوا ہے۔ پانچ صدیوں سے قائم مردانہ مذہبی قیادت کی روایت سے ہٹ کر، سارہ ملالی کو کینٹربری کی آرچ بشپ مقرر کیا گیا ہے، جو اس قدیم ادارے کا اعلیٰ ترین روحانی منصب ہے۔ یہ تقرری نہ صرف صنفی مساوات کی سمت میں ایک اہم قدم ہے بلکہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ روایت کے دائرے میں بھی نئی سوچ پنپ سکتی ہے۔ سارہ کی یہ پیش رفت اس بات کی غماز ہے کہ مذہب جیسے محتاط ادارے میں بھی اب عورت کی فکری، روحانی اور قائدانہ صلاحیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ چرچ آف انگلینڈ جیسے روایتی ادارے کی طرف سے ایک خاتون کو قیادت کی مسند پر فائز کرنا، زمانے کے بدلتے شعور کا عکس ہے۔
سارہ ملالی کا سفر غیر معمولی ہے۔ انہوں نے خدمتِ خلق سے آغاز کیا اور اپنی ابتدائی زندگی نرسنگ جیسے ہمدردی بھرے پیشے کے لیے وقف کی۔ 2002 میں پادری کے طور پر چرچ میں شمولیت اختیار کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے 2015 میں ان کا شمار ان چند خواتین میں ہونے لگا جنہیں بشپ کا درجہ حاصل ہوا۔ 2018 میں لندن کی بشپ بننے پر انہوں نے ایک اور نمایاں سنگِ میل عبور کیا۔ ان کا سفر اُن خواتین کی طویل جدوجہد کی بازگشت ہے جو مذہبی اداروں میں شراکت داری کے لیے مسلسل کوشش کرتی رہی ہیں۔ سارہ کی کامیابی، محض ایک فرد کی ترقی ہے یہ اس جذبے کی علامت ہے جو استقامت، روحانیت اور فرض شناسی کو یکجا کرتا ہے۔
ان کی تقرری پر دنیا بھر میں ملے جلے تاثرات سامنے آئے۔ بعض قدامت پسند حلقوں نے اسے چرچ کے اصولوں سے انحراف قرار دیا، خصوصاً افریقہ اور ایشیا کی چند کلیساؤں کی جانب سے تنقید کی گئی کہ اس فیصلے سے کلیسیائی وحدت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چرچ آف انگلینڈ داخلی فکری اختلافات اور عالمی دباؤ کے باوجود اپنے روحانی مرکز کو متوازن رکھ پائے گا؟ ایک طرف وہ عناصر ہیں جو مذہب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں، دوسری طرف ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو صدیوں پرانے اصولوں پر اصرار کرتے ہیں۔ انہی دونوں انتہاؤں کے بیچ سارہ ایک ایسے راستے کی متلاشی ہیں جو مفاہمت، مکالمے اور فہم و فراست پر مبنی ہو۔
یہ فیصلہ برطانیہ کی سرحدوں تک محدود نہیں رہا۔ آٹھ کروڑ پچاس لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل عالمی اینگلیکن برادری نے اس خبر کو ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا۔ اگرچہ کچھ حلقوں نے اسے مغربی اثرات کی عکاسی سمجھا، وہیں دیگر نے اسے شمولیت اور قیادت میں وسعت کی علامت قرار دیا۔ ان معاشروں کے لیے جہاں مذہبی ادارے اب بھی خواتین کو قیادت کا موقع دینے سے گریزاں ہیں، سارہ ملالی کی تقرری ایک علامتی رہنمائی بن کر سامنے آتی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسی راہ دکھا رہا ہے جس پر چل کر روایت اور جدت کو ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔
سارہ کی ابتدائی تقاریر اور بیانات میں نمایاں الفاظ جیسے سادگی، ایمان، بھروسا اور خدمت اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ ان کی سوچ رسمی قیادت سے ہٹ کر معاشرتی فلاح پر مرکوز ہے۔ وہ چرچ کو عبادت تک محدود ادارہ نہیں سمجھتیں بلکہ ایک ایسا مرکز تصور کرتی ہیں جو انسانوں کی بھلائی، رہنمائی اور اجتماعی خیر خواہی میں سرگرم ہو۔ ان کا نظریہ جامع ہے، جو ادارے میں شفافیت، ہم آہنگی اور مثبت روابط کی ترویج پر زور دیتا ہے۔ ان کی قیادت اس نئی نسل کے مزاج سے ہم آہنگ ہے جو مذہب کو زندگی کے ہر پہلو سے جڑ کر دیکھتی ہے۔
چرچ آف انگلینڈ کا یہ فیصلہ محض مذہبی نوعیت کا نہیں ہے، بلکہ یہ آئینی اور ریاستی تناظر میں بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ بادشاہ چارلس، جو چرچ کے سپریم گورنر ہیں، نے باضابطہ منظوری دی، جس کے بعد وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے ان کی نامزدگی کا اعلان کیا۔ اس سرکاری توثیق نے اس تقرری کو قومی وقار اور اعزاز کا رنگ دے دیا۔ جب ریاست اور مذہب کسی ایک شخصیت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، تو وہ شخصیت محض مذہبی پیشوا نہیں، بلکہ قومی پہچان کا استعارہ بن جاتی ہے۔
سارہ ملالی ایک ایسی شخصیت بن کر ابھری ہیں جو نئی فکری سمت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی قیادت سخت گیر روایات کو چیلنج کرتے ہوئے نرمی، خلوص اور فکری وسعت کو اہمیت دیتی ہے۔ ان کا عملی کردار یہ بتاتا ہے کہ مذہبی قیادت میں شفافیت اور انصاف کا عنصر شامل ہو تو پُرانے تعصبات اور رکاوٹیں مٹائی جا سکتی ہیں۔ ان کے فیصلے نے چرچ کے ساتھ ساتھ وسیع تر معاشرتی سوچ میں بھی ایک مثبت ارتعاش پیدا کیا ہے۔
جب وہ آنے والے مہینوں میں باضابطہ طور پر آرچ بشپ کے منصب پر فائز ہوں گی، تو دنیا بھر کی نظریں ان پر مرکوز ہوں گی۔ کوئی ان پر مکمل یقین کے ساتھ نظر رکھے گا، کوئی احتیاط اور شکوک کے ساتھ۔ تاہم، اس موقع کی اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔ سارہ کی شخصیت نے ان تمام خواتین کے لیے راستہ روشن کیا ہے جو اب بھی مذہبی قیادت کے دروازے پر امکانات کی تلاش میں ہیں۔ ان کا سفر یہ بتاتا ہے کہ سچائی، استقامت اور واضح مقصد کے ساتھ اگر کوئی آگے بڑھے تو بند دروازے بھی راستہ دے سکتے ہیں۔
یہ تقرری ایک فکری و روحانی بیداری کی علامت ہے۔ وہ ادارے جو ماضی میں مردانہ اجارہ داری کے محافظ رہے، اب ان قیادتوں کے لیے بھی جگہ بنانے لگے ہیں جو خواتین کی نمائندگی، ہمدردی اور انفرادی خوبیوں پر یقین رکھتی ہیں۔ سارہ ملالی نے چرچ کی تاریخ میں محض ایک سطر نہیں جوڑی بلکہ یہ مذہبی اداروں کے لیے ایک سوال بھی کھڑا کر دیا ہے: کیا قیادت صرف روایت کی محتاج ہے یا زمانے کی آواز سننے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے؟ یہ لمحہ صرف آغاز ہے، ایک ایسی راہ کا جس پر چل کر مذہبی ادارے صنفی مساوات، خدمت اور روحانی بلندی کے نئے سفر پر روانہ ہو سکتے ہیں۔