انسان کی زندگی کے کچھ گوشے ایسے ہوتے ہیں جو کہ نہ ذاتی ہیں نہ اجتماعی بلکہ وقار اور اعتماد کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان معاملات میں دوسروں کی نظریں، زبان یا تجسس نہ صرف ناپسندیدہ ہے بلکہ یہ ایک بدذوق حرکت کے زمرے میں آتا ہے۔ جب کوئی فرد اپنی محنت، حالات یا ترجیحات کے مطابق زندگی گزار رہا ہو تو اس کے فیصلوں، آمدنی، تعلیمی پس منظر یا خاندانی معاملات میں چپ چاپ جھانکنے کا رجحان اُس سماجی اخلاقیات کی موت ہے جسے ہم تہذیب کہتے ہیں۔ جو چیزیں نجی دائرے میں شمار ہوتی ہیں، ان پر رائے زنی، مذاق یا تجزیہ کرنا معاشرتی سنجیدگی کے لیے ایک خطرناک علامت ہے۔ بدقسمتی سے، موجودہ سماجی ماحول میں کسی کی ذات پر گفتگو کرنا اتنا معمول بن چکا ہے کہ لوگ بھول بیٹھے ہیں کہ کسی کی چُپ یا خاموشی، کسی کمزوری کی علامت ہے، بلکہ اس کی عزت کا پردہ ہو سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب انسانی فطرت میں پوشیدہ تجسس بے لگام ہو جائے تو وہ احترام اور حساسیت کی سرحد پھلانگ کر بےادبی کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ معلومات کی طلب اگر مقصد اور حد کے ساتھ ہو تو علم کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن جب تجسس سنجیدگی کھو بیٹھے، تو پھر وہی جستجو کسی کے گھر، کمائی، رشتوں یا مسائل پر بےمحابا سوالات میں ڈھل جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے پڑوس میں ایک خاتون کا یہی طرزِعمل رفتہ رفتہ ایک ایسے سانحے میں بدل گیا، جس نے کئی دلوں کو توڑ دیا۔ ابتدا میں وہ محض حالات کا تذکرہ کرتی تھیں، پھر بات سرگوشیوں سے نکل کر الزام تراشی تک پہنچ گئی، اور یوں ایک دیرینہ تعلق ختم ہوگیا۔ یہ واقعہ اس بات کی عبرتناک مثال ہے کہ تجسس جب مروّت سے خالی ہو، تو وہ دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے لگتا ہے۔
ہر انسان اپنی عزت، رازداری اور سماجی وقار کا خواہاں ہوتا ہے۔ کسی کے راز افشا کرنا یا ذاتی معلومات دوسروں تک پہنچانا گویا اُس کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ اُس کی کمزوریاں اور مسائل دوسروں کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ مگر جب کوئی امانت کی حیثیت رکھنے والی بات دوسروں کے گوش گزار کی جائے تو یہ ایک بدترین خیانت بن جاتی ہے۔ بچوں کی تربیت میں بھی یہی معمول بن چکا ہے کہ ہم نادانستہ طور پر اُنہیں دوسروں کی نگرانی پر لگا دیتے ہیں۔ یہ عمل معصوم ذہنوں میں تجسس، چغلی اور غیبت جیسے منفی رجحانات کی آبیاری کرتا ہے، جس کے نتائج بعد میں والدین خود بھگتتے ہیں۔
یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ کچھ افراد آس پڑوس کی معلومات حاصل کرنے کے لیے گھریلو ملازماؤں کو استعمال کرتے ہیں۔ ملازماؤں کو پیسے، تحفے یا ہمدردی کا جھانسہ دے کر وہ دوسروں کے راز اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر انہی معلومات کو اپنی مجلسوں میں مسالے لگا کر بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح، ہمارے پڑوس میں ایک ایسی ہی مثال دیکھی گئی جہاں ایک ملازمہ کے ذریعے گھر کی مالی حالت، بچوں کی تعلیم اور والدین کے درمیان تناؤ کی خبریں گلی گلی پھیل گئیں، جس کی وجہ سے اس گھر کے افراد کو بدنامی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں یہ سب جانتے ہوئے بھی کوئی تردد نہیں ہوتا کہ ہمارے اپنے گھر کی خبریں بھی اسی راستے سے دوسروں تک پہنچ رہی ہوں گی۔
سوشل میڈیا نے اس بیماری کو اور بھی خطرناک بنا دیا ہے۔ اب پرائیویسی کی سرحدیں نہ صرف محلے تک محدود رہیں اب تو ایک کلک سے عالمی سطح پر کسی کی زندگی کا مکمل ایکسرے کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی پوسٹس، تصاویر اور ذاتی لمحات پر ایسے تجزیے کیے جاتے ہیں جیسے وہ کوئی عوامی اثاثہ ہوں۔ ہم اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ دوسروں کی زندگی کو کھنگالنے میں صرف کرتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں بےچینی کیوں بڑھ گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کے معاملات میں غیر ضروری دلچسپی ہماری روحانی و ذہنی سکون کی دشمن بن چکی ہے۔ اس عمل سے نہ صرف ہم اپنا وقت برباد کرتے ہیں، انہیں حرکتوں کی وجہ سے اپنے کردار کو بھی داغدار کرتے ہیں۔
دوسروں کی ناکامیوں پر خوشی محسوس کرنا اور کامیابیوں پر حسد میں مبتلا ہونا بھی اسی رویے کا تسلسل ہے۔ جب ہم اپنے دل میں کسی کی ترقی دیکھ کر جلن محسوس کرتے ہیں یا کسی کی ناکامی پر مسرت کے جذبات ابھرتے ہیں تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم منفی جذبات کے غلام بن چکے ہیں۔ ایسی سوچ ہمیں نہ صرف انسانیت کے دائرے سے دور لے جاتی ہے ہمیں ایک خود غرض اور خطرناک شخصیت میں تبدیل کر دیتی ہے، جو دوسروں کے نقصان میں اپنا فائدہ تلاش کرتی ہے۔ یہ رویہ تعلقات کو کھوکھلا، اور شخصیت کو اندر سے کھا جاتا ہے۔
قرآن کریم نے اس طرح کی اخلاقی برائیوں پر سختی سے تنبیہہ کی ہے۔ سورہ حجرات کی آیت ’’ولا تجسسوا‘‘ یعنی ’’کسی کے بھید نہ ٹٹولو‘‘، ایک دو لفظی مگر انتہائی جامع اور مضبوط حکم ہے۔ اس ایک آیت کے ذریعے رب کریم نے مؤمنوں کو نہ صرف دوسروں کے راز تلاش کرنے سے روکا بلکہ اس سوچ کی بیخ کنی کر دی جو کسی کی پرائیویسی کو توڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ یہ ایک عملی ہدایت ہے، جو ہر اُس فساد کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش ہے جو جھوٹے گمان، چغلی یا تجسس کی بنیاد پر پنپتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ ہدایت ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے۔
مزید برآں، معاشرے میں بہتری کی بنیاد ہمیشہ فرد کی ذاتی اصلاح سے رکھی جاتی ہے۔ جب انسان اپنی خامیوں کا ادراک حاصل کر لیتا ہے تو وہ دوسروں کی کمزوریوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے اندر کی تعمیر میں مصروف ہو جاتا ہے۔ خود شناسی دراصل وہ آئینہ ہے جو ہمیں اپنی شخصیت کے مثبت و منفی پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ شعور انسان کو خود احتسابی کی طرف مائل کرتا ہے، اور یوں وہ غیر ضروری مداخلت، تنقید اور تجسس جیسے رویوں سے دور رہتا ہے۔ اصلاح کا سفر جب خود سے شروع ہوتا ہے تو اس کے اثرات گھر، محلے اور پورے معاشرے تک پہنچتے ہیں۔ یہی وہ روشنی ہے جو فرد سے نکل کر اجتماعی ماحول میں تہذیب، برداشت اور عزتِ نفس کو فروغ دیتی ہے۔
اگر ہم حقیقتاً ایک مہذب معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی توجہ دوسروں کے معاملات سے ہٹا کر اپنی سوچ، عادات اور طرزِ عمل پر مرکوز کرنا ہوگا۔ دوسروں کی خامیوں کو تلاش کرنا نہ صرف ایک اخلاقی کمزوری ہے یہ انسان کی داخلی کم علمی کا مظہر بھی ہے۔ جب انسان اپنی شخصیت کو سنوارنے میں مصروف ہوتا ہے تو اسے دوسروں کے عیوب میں دلچسپی لینا فضول محسوس ہونے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو شعور اور فہم عطا کیا ہے، اس کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم اسے اپنی ذات کی اصلاح کے لیے بروئے کار لائیں۔ اسی میں انسان کی عزت، وقار اور روحانی سکون کا راز پوشیدہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم رب کریم سے دعا کریں کہ وہ ہمیں ایسی بصیرت عطا فرمائے جو ہمیں دوسروں کے معاملات میں دخل دینے کے بجائے اپنی اصلاح کی طرف مائل کرے، تاکہ ہم نہ صرف اس دنیا میں بااخلاق انسان بن کر جی سکیں بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہوں۔